بلوچستان لیکس کا انتظار

عابد میر  منگل 19 اپريل 2016
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

یہ کیسا دلچسپ نکتہ ہے کہ ایک زمانے میں ’خبر‘ سے سچ کی تصدیق مانگی جاتی تھی ۔ آج سچ کو خبرکی تصدیقی مہردرکار ہے۔آج سچائی ہمارے علم میں ہونے کے باوجود، تب تک قبولیت حاصل نہیں کرتی جب تک اس پہ ’خبر‘کی مہر ثبت نہ ہوجائے۔گویا خبر ہی آج سچ کا حتمی معیار ہے۔ اب دیکھیے نا امریکا بہادردنیا بھرکا ’سردار‘بنا پھرتا ہے، یہ کسی جابرسردارکی طرح دنیا کو چلاتا ہے۔

جب، جہاں جس کے ساتھ جوجی چاہے سلوک کرے،کوئی روک ٹوک نہیں۔اقوام متحدہ اس کے گھر کی لونڈی، عالمی طاقتیں بھی اس کی حواری۔ یہ حقیقت دنیا کے اَن پڑھ ترین آدمی پہ بھی واضح ہے، مگر یہ سچائی قبولیت تب حاصل کرتی ہے جب وکی لیکس اسے ’خبر‘ بنا کر پیش کرتا ہے۔ یعنی یہ خبر نہ آتی، توکیا امریکا کی جارحیت سچ نہ رہتی؟ اس کی بدمعاش فطرت تسلیم کروانے کے لیے خبرکی سند لازم ٹھہری۔اس کی سی آئی اے کی بدمعاشیاں دنیا بھرکو پتہ ہیں، مگر جب تک اس کے اندر سے ایک آدمی اس کی کہانی میڈیا تک نہ پہنچائے،اسے قبولیت ملتی ہی نہیں۔

پاکستان میں سیاست ایک عرصہ ہوا کہ ایک منافع بخش کاروبارکا روپ دھارچکی۔ جسے اپنے کاروبارکودن دگنی رات چگنی ترقی دینا مقصود ہو، پاکستان میں سیاست میں سرمایہ کاری کر لے، اور مراد پائے۔ جمہوریت اورآمریت کب کے ہم معنی ہوچکے۔ راہ زن، راہبری کا لبادے اوڑھے ہوئے معصوم انسانوں کے پاک جذبات سے کھلواڑکوکاروبار بنائے ہوئے ہیں۔ چور،گھرکی چوکیداری پہ معمور ہیں۔

ملک پائی پائی کا محتاج ، سیاست کے کاروبارکا منافع مگر عروج پر۔ملک خسارے میں، حکمرانوں کی فیکٹریاں دھڑا دھڑ کمائے جارہی ہیں۔ سرکاری ادارے تباہ، سیاست دانوں کا کاروبار مگر اعلیٰ اوریہ وہ ننگی حقیقت ہے جس سے اب ملک کا بچہ بچہ واقف ہو چکا۔ مگر قبولِ عام تب حاصل ہوا، جب خبر پانامہ سے ’لیک‘ ہوئی۔ کمال ہے مگر وہ میڈیا جو اس کھلی سچائی کو بھی ’الزام‘ کے بہ طور پیش کررہا ہے۔

اور حکمرانوں کے نورتن اسے الزام تک ماننے کوتیار نہیں۔ یا پھر اس ننگی سچائی کو ’انکشاف‘ کے نام پر یوں پیش کیا جارہا ہے گویا یہ ’انکشاف‘ نہ ہوتا تو پاکستان کے حکمران اور معاشی خانوادے دودھ کے دھلے ہوئے رہتے۔ سرمائے کے ارتکاز کو اپنی ذات اور اپنے گھرانوں تک محدود رکھنے والے یہ اشرافیہ ہی کہلاتے۔ ملکی خزانے کو سرعام اپنے عزیزوں، رشتے داروں میں تقسیم کرنے والے، محب وطن ہی کہلاتے۔ حد تو یہ ہے کہ تمام تر ثبوتوں اورگواہوں کی ’مفت‘ فراہمی کے باوجود ایسے بھی ہیں جو انھیں بچانے میں پیش پیش ہیں۔ کوئی نجی ملکیت کی آڑ میں انھیں جائزبتا رہا ہے،کوئی جمہوریت کے نام پہ پردہ ڈال رہا ہے،کوئی دین کے نام پر،کوئی وطن کے نام پر ان انسانوں کو بچا رہا ہے… توکوئی ان سے جان چھڑانے اور ملک بچانے کو وردی والوں کو بلارہا ہے۔ اُس میں ایک غنیمت یہ ہے کہ ان کی بدعنوانی کہیں سے بھی ’لیک‘ نہیں ہوتی۔

اس لیے ان پہ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، ان کا محاسبہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی تو حب الوطنی بھی لازماًشک سے بالاتر ہوتی ہے۔گلہ بنتا ہے صاحب کہ دنیا کی تاریخ کے اب تک اس سب سے بڑے لیکس، پانامہ لیکس کے ہزاروں پیپرز اور لاکھوں ناموں میں ایک بھی بلوچستانی کا نام نہیں! یہاں بھی بلوچستان کو ’نظر انداز‘ کیا گیا ہے۔ بجا طور پر اس میں وفاق کی سازش تلاش کی جا سکتی ہے۔

بلوچستان کے سیاست دانوں نے بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں سے اسی ایک میدان (کرپشن) میں تو نام کمایا ہے، دل لگا کر محنت کی ہے، جان جوکھم میں ڈالی، نہ اپنوں کی پروا کی نہ غیرکو خاطر میں لائے، عالمی سامراج سے لے کر مقامی آقاؤں کا ہر حکم بجا لائے۔ عوام نامی مخلوق کی ذرا برابر پروا نہ کی۔ وطن بیچا، سب کچھ بیچا…صد افسوس کہ پھر بھی پانامہ لیکس میںڈھونڈے سے ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔کیا وہ پاکستان میںنہیں بستے؟ کیا وہ اس ملک کا حصہ نہیں؟ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟

بلوچستان نامی خطہ جس کے ستر فی صد سے زائد شہر اور شہری زندگی سے نابلد ہیں، جن کے لیے سردار ہی مائی باپ ہے۔ ووٹ لینے والا سیاست دان ہی ان کا سب کچھ ہے، نہیں جانتے کہ ان پہ حکمرانی کرنے والے کس قدر بدعنوان، بے ایمان اورانھیں بیچ کھانے والے بھیڑیے ہیں۔ وہ جنھیں دیوتا جان کر پوجتے ہیں، وہ ان کے خوابوں کے سوداگر ہیں۔ پانامہ لیکس پاکستان کے عوام کے لیے غنیمت ہے جس کے ذریعے کم ازکم وہ جان تو پائے کہ ان کے حکمران انھیں کس کس طرح سے لوٹ رہے ہیں۔

بلوچستان کے عوام کو تو یہ ’عیاشی‘ بھی حاصل نہیں۔ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کے مالک جاگیردار یہاں بستے ہیں، نجی ریاستوں کے مالک نواب یہاں رہتے ہیں، ہزاروں عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے والے سردار اس دھرتی کے مالک ہیں،جن کی جاگیروں کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ جہاں ایک طرف پینے کا پانی میلوں دور ہماری باپردہ خواتین اپنے ناتواں کندھوں پہ بھر بھرکے لاتی ہیں، وہیں دوسری طرف بڑی بڑی گاڑیوں میں، درجنوں باڈی گارڈز کے ساتھ پرتعیش زندگی بسر کرنے والے سردار اور نواب بستے ہیں۔ جہاں ایک طرف صحت کی بنیادی سہولیات تک ناپید ہیں، تو دوسری طرف حکمران اپنا طبی معائنہ کروانے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔

ایک طرف اسکول کی عمارتیں ناپید ہیں، تو دوسری طرف نوابوں،سرداروں اور اب تو مڈل کلاسیوں کے بچے بھی یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔کوئی لب کشائی کی جرأت نہیں کرتا،کہ مسجد کا مولوی بھی ان کا ہوا، مقتدرہ کی سیاست بھی ان کی ہوئی،کارپوریٹ میڈیا بھی ان کی مدح سرائی کررہا ہے۔ایسے میں اِس حرماں نصیب دھرتی کے لوگ حسرت و یاس سے پانامہ لیکس کے انکشافات کو سنتے ہیں، پڑھتے ہیں تو انھیں لگتا ہے جیسے انھی کے بادشاہوں کا ذکر ہو رہا ہے،کہ کرتوت سبھی وہی ہیں، بس نام ہی تو تبدیل ہوئے ہیں۔

اخبار اور کتاب کے بعد انٹرنیٹ سے جڑی بہ مشکل پانچ فی صد آبادی ہی آج اس سچ کو جانتی ہے کہ کس نے اس دھرتی کوکس کس طرح لوٹا۔ کسی نے قوم کے نام پرکمایا، کسی نے حب الوطنی کا نعرہ لگا کر کھایا،کسی نے انھیں بیچ کرتخت پایا،کسی نے بیرونِ ملک اثاثے بنائے،کسی نے وزارت پائی،کسی نے سیاسی پناہ کمائی۔ افتادگانِ خاک آج بھی خاک سے جڑے، اسی خاک سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ انھی بھیڑیوں کو اپنا دیوتا مانتے ہیں… اور ہم ایسے بزدل بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کسی ’بلوچستان لیکس‘ کا جس کی روشنی ان جعلی دیوتاؤں کے چہروں سے نقاب نوچ ڈالے…اس دھرتی کا بچہ بچہ ’خبر‘ کے توسط سے ہی سہی، یہ سچائی جان پائے، اپنے لوٹنے والوں کے چہرے پہچان پائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔