ستیاناس ہو پانامہ لیکس کا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 اپريل 2016

قبرص کے بادشاہ کری سس نے سولن کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور پھر بیش قیمت لباس اور ہیرے جواہرات سے لد پھند کر شاہانہ کروفر کے ساتھ تخت پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ سولن آیا، کری سس کو دیکھا اور اس کے جاہ و حشم اور دولت و ثروت کی کوئی پروانہ نہ کی۔

کری سس کو امید تھی کہ سولن اس کی شان و شوکت اور اس کے ذوق کی تعریف کرے گا لیکن ادھر سے مایوس ہوکر اس نے حکم دیا کہ سولن کو اس کے خزانے دکھائے جائیں اور جب اس کے بعد بھی سولن نے اس کی دولت کی کوئی پروا نہ کی تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے سولن سے پوچھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت کون سا آدمی ہے؟ اسے امید تھی کہ سولن اس کا نام لے گا لیکن سولن نے کہا، میرے ملک میں ٹیلس نامی ایک شخص بہت خوش قسمت تھا، کیونکہ وہ نیک تھا اور صاحب نصاب تھا، اچھے بچوں کا باپ تھا اور اس نے اپنے ملک کے لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں جان دے دی۔ پھر کری سس نے پوچھا کہ اس کے بعد دوسرا کون زیادہ خوش قسمت ہے، تو سولن نے جواب دیا کہ دوسرے نمبر پر وہ دو بھائی آتے ہیں جنھوں نے اپنی ماں کی خدمت میں جان دے دی۔ اب کری سس سے اور برداشت نہ ہو سکا اور وہ پھٹ پڑا، کیا تم ہم کو اس فہرست میں کبھی شامل نہ کرو گے؟

اس پر سولن نے کہا، اے بادشاہ! ہم صرف ان ہی کو خوش قسمت کہتے ہیں جن کی زندگی کے آخری لمحے تک خوش قسمتی ان کے ہمرکاب رہی ہو، ہم انھیں خوش قسمت نہیں کہتے جن کی زندگی کی دوڑ ابھی ختم نہ ہوئی ہو، کیونکہ انسانی زندگی کو ایک صورت پر قرار نہیں ہوتا اور تغیر و تبدل اس کے لیے مستلزم ہے۔ یہ جواب سن کر کری سس نے سولن کے خلاف بڑی نفرت اور حقارت کا اظہار کیا لیکن جب شہنشاہ سائرس نے اس کے ملک کو فتح کر لیا، اسے گرفتار کر لیا اور زندہ جلادینے کا حکم دے دیا تو کری سس کو سولن کی بات یاد آئی، جب وہ چتا پر بیٹھا تو اس نے ایک دردناک نعرہ مارا ’’ہائے سولن‘‘۔

جب انسان زندگی میں کامیابی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہا ہوتا ہے تو اسے زندگی کی تمام سچائیاں، حقیقتیں، ایمانداری، خلوص، محبت، وفا، انکساری، تحمل، برداشت بے معنی لگنے لگتی ہیں، بوجھ لگنے لگتی ہیں، تو پھر وہ انھیں اوپر سے ایک ایک کر کے پھینکنا شروع کر دیتا ہے، کیونکہ وہ انھیں Extra Baggage سمجھنے لگتا ہے، جو اس کے خیال میں اور اوپر جانے میں رکاوٹیں بن رہی ہیں، کیونکہ اس وقت وہ صرف جیت کا گھوڑا ہوتا ہے، اسے اس وقت صرف جیت چاہیے ہوتی ہے، ہر صورت میں، ہر قیمت پر صرف جیت۔ اس وقت وہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، جو تمام انسانی جذبات و احساسات سے عاری اور خالی ہوتا ہے اور پھر مکمل کامیابی سے صرف ایک زینہ پہلے وہ اپنے آپ کے لیے 99 والا سانپ بن جاتا ہے اور جیسے ہی وہ لڑھکتا ہوا زیرو پر پہنچتا ہے تو پھر وہی دردناک نعرہ مارتا ہے ’’ہائے سولن‘‘۔

آپ اپنی ملکی تاریخ یا دنیا بھر کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں، تمام کے تمام کردار زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آپ کو یہ ہی ’’ہائے سولن‘‘ کہتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ دو چار تو چھوڑیے، آپ کوئی ایک ہی کردار ڈھونڈ لائیں جس نے اس کے الٹ نعرہ مارا ہو یا جس کا انجام خوشگوار ہوا ہو؟ یہ ہی بات آج ہمارے حکمرانوں کو سمجھنے کی ہے۔ اصل میں جس طرح دو اور دو چار ہوتے ہیں اور کبھی بھی پانچ نہیں ہو سکتے، اسی طرح زندگی گزارنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جو نہ کبھی بدلے ہیں اور نہ ہی کبھی بدلیں گے۔ آپ جب بھی ان اصولوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اصول تو ٹوٹ نہیں پاتے، البتہ آپ خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر آپ ٹوٹے پھوٹے ہوئے ’ہائے سولن‘ کا دردناک نعرہ مار رہے ہوتے ہیں۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے تک ہمارے تمام کردار کس قدر خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے اور اپنے آپ کو دنیا کے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان سمجھے بیٹھے ہوئے تھے اور اس قدر اچھل کود مچا رکھی تھی کہ دیکھنے والے دم بخود ہوئے پڑے تھے اور وہ باقی سب کو انتہائی نالائق، احمق، بے وقوف اور ناکارہ کا درجہ دے رہے تھے اور خوشامدیوں کے نرغوں میں بیٹھے واہ واہ سنتے تعریفوں پہ تعریفیں سنتے پھولے نہ سماتے تھے اور اپنی عقل و دانش پر جھوم جھوم رہے تھے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹوں اپنی واہ واہ کر رہے تھے اور ساتھ ہی ان کے ناز و اداؤں کی تو بات ہی نہ کریں۔

ان کی اداؤں کا ذکر تو کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ ہائے کیا وقت تھا، ہر طرف سے واہ واہ، سبحان اﷲ، ماشاء اﷲ کی صدائیں آتی تھیں، ہر طرف سے تعریفیں ہی تعریفیں سنائی دیتی تھیں۔ پھر ستیاناس ہو اس پانامہ لیکس کا، جس نے ہر رنگ کو بے رنگ کر کے رکھ دیا۔ صدائیں اور آوازیں ماضی کا ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئیں۔ اب تو کسی کا دل بیٹھا جا رہا ہے، تو کسی کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے، کسی کو اپنے بزرگوں کی نصیحتیں یاد آ رہی ہیں، تو کسی کو تو اپنے بزرگ خواب میں آ کر لعنت ملامت کر رہے ہیں، کوئی تو جیل کے پاس ہی سے گزرتا ہوا ڈر رہا ہے تو کسی کو غیر ملک میں بھی سکون نہیں مل رہا ہے اور کوئی دن رات توبہ توبہ کرنے میں مصروف ہے۔

سب کے سب ہی شیطان کو دن رات برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں، اس بات پر تو اب سب ہی ایمان لا چکے ہیں کہ شیطان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور وہ ہی انسان کو ورغلاتا، للچاتا اور غلط راستے پر ڈالتا ہے اور جو بھی اس کے نرغے میں آ جاتا ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ برا ہو اس وقت کا، بیڑا غرق ہو اس وقت کا، نجانے کیوں یہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔ آخر یہ وقت انسان کا دشمن کیوں ہے، جب اچھے وقت نے جانا ہی ہوتا ہے تو یہ کم بخت اچھا وقت آخر آتا ہی کیوں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔