شادی کی تقریبات اور حکومتی اقدامات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 21 اپريل 2016
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

رہائش و روزگار کے بعد شادی بیاہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ بلکہ انسان کرایہ کے مکان میں تو گزر بسر کر سکتا ہے اور عوام کی بڑی اکثریت کرایہ کے مکانوں یا کچی پکی جگہوں پر تعمیر کی گئی رہائش گاہوں میں زندگی بسر کر رہی ہے، مگر شادی بیاہ کے معاملے کو طول تو دیا جا سکتا ہے مگر اس سے فرار ناممکن ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یا ذمے داری اس کی اپنی اور پھر اولاد کی شادی کرنا ہوتی ہے۔ اس مرحلے سے ہر شخص کو نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔

انسانی زندگی کی لازمی خوشی کا یہ مرحلہ بہت دقت طلب ہو چکا ہے، جس کے مسائل و مصائب میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خوشی کے اس موقع پر انسان خوشی کے بجائے قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی آیندہ نسل بھی مقروض پیدا ہوتی ہے، خاص طور پر بیٹی کی شادی کے موقع پر والدین گھر بیچ دینے یا گروی رکھ دینے تک پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان معاشی مسائل کی وجہ سے خانگی تعلقات میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں، میاں بیوی کے علاوہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے تعلقات خراب اور تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں، جس کے معاشرے پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں نمود و نمائش، غیر ضروری رسوم و تقریبات نے اس کے اخراجات کو بے تحاشا بڑھا دیا ہے، اب یہ تمام غیر ضروری چیزیں سماجی ضرورت بن چکی ہیں۔ مایوں، مہندی، برأت، نکاح، رخصتی، ولیمہ، آتش بازی، بینکوئٹ، اسٹیج کی سجاوٹ، قیمتی پھولوں کا استعمال، ساؤنڈ و لائٹنگ سسٹم اور فوٹو گرافی وغیرہ اور مختلف النوع قسم کے کھانوں کی وجہ سے متوسط و غریب طبقہ کے افراد بھی ایک شادی پر کم از کم 15 لاکھ تک خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو، جس کا سفید پوش طبقہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے صبح سے شام تک معاشی جدوجہد میں لگا ہو، وہ ان اخراجات کا کس طرح متحمل ہو سکتا ہے۔

لہٰذا اس کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ کسی بھی جائز و ناجائز سے پیسہ حاصل کرے یا اپنی اولاد خصوصاً بیٹیوں کو بڑھاپے کی دہلیز پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ ملک میں کوئی ایسا ادارہ یا این جی او نہیں جو ایسے افراد کا سروے کرے، ان کی کچھ مدد کرے، حکومت جو مختلف قسم کی امدادی اسکیمیں جاری کرتی ہے وہ بھی اس پہلو کو نظرانداز کر دیتی ہے۔

شادی ایک مذہبی و سماجی رسم ہے جس کو نمود و نمائش اور بے جا رسومات و اخراجات نے مشکل ترین بنا دیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ جب نکاح مشکل ہو گا تو غلط کاریاں آسان ہوں گی۔ آج ہمارا معاشرہ اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ معیارات، خواہشات اور خوب سے خوب تر کی تلاش کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، پھر عمر نکل جانے پر چار و لاچار بے جوڑ رشتے کیے جاتے ہیں، کوائف کے سلسلے میں غلط بیانیاں کی جاتی ہیں، تعلیم، عمر، آمدنی، ذات، مراتب و دیگر معاملات میں جھوٹ بولنا اور تصنع اور بناوٹ کرنا ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔

میاں بیوی کا رشتہ خالصتاً اعتماد پر قائم ہوتا ہے، جب اس کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی جائے گی تو وہ کیونکر قائم رہ سکتا ہے؟ اگر رہ بھی جائے تو کس نوعیت کا ہو گا؟ اسی وجہ سے میاں بیوی کے تنازعات اور طلاقوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ طلاق کے بعد والدین پر ایک مرتبہ پھر بیٹی کی شادی کرنے کا بوجھ پڑ جاتا ہے۔

اسلام میں تو نکاح کو آسان بنایا گیا ہے، لڑکی پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا تھا، ولیمہ میں لڑکے کی حیثیت کے مطابق دودھ، کھجور، یا بکری کے گوشت پر چھوٹی اور سادہ سی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔ مہر بھی حیثیت کے مطابق ہوا کرتا تھا۔ ایک غریب صحابی جس کے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ نہیں تھا آپؐ نے اس صحابی کو کہا کہ تم اپنی بیوی کو سورۃ فاتحہ یاد کرا دینا یہی تمہارا مہر ہے۔ آج کراچی جیسے شہر میں ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متمول گھرانوں کے نوجوان سادگی سے نکاح کی تقریب کرتے ہیں اور ولیمہ میں مخصوص تعداد میں رشتے داروں اور دوست و احباب کو گھر میں بلا کر ان کی ضیافت کر دیتے ہیں، بعض تو دلہن کے ہاتھ کی کوئی ڈش بنا کر بھی پیش کر دیتے ہیں۔ ایسے نوجوان قابل ستائش و قابل تقلید ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے، اس حکومت کی کلیدی آئینی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایک فلاحی اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لائے اور ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے مسلمان اسلامی اقدار و تشخص کے تحت زندگیاں بسر کر سکیں۔ لیکن ہمارے حکمران اپنی آئینی و منصبی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

دور رس اور طویل المدتی اقدامات کرنے کے بجائے وقتی، عجلتی اور نمائشی قسم کے اقدامات کرتے رہے ہیں، شادی بیاہ میں جہیز، نمود و نمائش، آتش بازی اور کھانے پر پابندی وغیرہ سے متعلق کئی مرتبہ قانون بنائے گئے جو عصری تقاضوں سے مطابقت رکھتے تھے، نہ ان پر عملدرآمد کرایا جا سکا۔ حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے شادی سے متعلق ایک اور بل پاس کیا ہے جس کے تحت نکاح، مایوں، مہندی، بارات اور ولیمہ میں مہمانوں کی صرف ایک ڈش سے تواضع کی اجازت ہو گی، آتش بازی پر پابندی ہو گی، سڑکوں، بازاروں اور پارکس وغیرہ میں سجاوٹ کی اجازت نہیں ہو گی، خلاف ورزی کے مرتکب پر 50 ہزار سے لے کر 20 لاکھ روپے تک جرمانہ اور ایک ماہ قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

اس قانون میں کچھ ترمیمات کر کے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، مثلاً یہ کہ مایوں اور مہندی پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے، نکاح کی تقریب کو سادہ اور محدود کر کے لڑکی والوں کو سہولت مہیا کی جا سکتی ہے، جو جہیز و دیگر اخراجات کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، دوسرے یہ کہ جہیز کے سامان کی مالیت پر پابندی اور اس کا نکاح نامے میں اندراج لازمی قرار دیا جائے، صرف ولیمہ کے کھانے کی اجازت ہونا چاہیے، اس کے لیے بھی مہمانوں کی ایک مخصوص تعداد کا تعین ہونا چاہیے کیونکہ ولیمہ مسنون بھی ہے اور میل ملاپ کی سماجی ضرورت و روایت بھی ہے، جس کے لیے 300 مہمانوں کی تعداد مناسب ہے، جس میں تمام رشتے داروں اور نزدیکی دوست و احباب کو باآسانی شامل کیا جا سکتا ہے۔

تقریباً تمام شادی ہال اور لانز کو بینکوئٹس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہ شادی ہال یا لان جو 50 ہزار میں مل جاتا تھا اب 2 لاکھ میں میسر آتا ہے جو شادی کا سب سے بڑا خرچہ اور ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں۔ شادی ہال کے مالکان 20 سے 30 لاکھ روپے خرچ کر کے ہال کو بینکوئٹ میں تبدیل کر دیتے ہیں اور 50 ہزار کے بجائے 2 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ 300 مہمانوں کی مشروبات سے ضیافت پر 15 ہزار تک کا خرچہ آتا ہے، کھانے کی صورت میں یہ خرچہ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بینکوئٹ کو 2 لاکھ روپے کی ادائیگی عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔