ہمارا خوفزدہ اشرافیہ
لندن کا مشہور و معروف اسٹور ہیرالڈ لندن کے بازاروں سے مہنگا بھی ہے اور سلطنت برطانیہ کی وجہ سے بہت مشہور بھی
لندن کا مشہور و معروف اسٹور ہیرالڈ لندن کے بازاروں سے مہنگا بھی ہے اور سلطنت برطانیہ کی وجہ سے بہت مشہور بھی۔ برطانیہ عظمیٰ کی عظمت تو چلی گئی لیکن اپنی کئی نشانیاں چھوڑ گئی جس میں ایک یہ اسٹور بھی ہے جہاں سے ایک آدھ مرتبہ خریداری لندن کا ہر سیاح ضروری سمجھتا ہے خواہ وہ آپ کا یہ نادار کالم نگار ہی کیوں نہ ہو یا آپ کا کھرب پتی وزیراعظم۔ ہمارے آپ کے وزیراعظم نے کسی بیماری سے آرام پا کر جو ہم کروڑوں پاکستانیوں کی دعائوں کا نتیجہ تھا اپنے ایک صاحبزادے کے ساتھ اس اسٹور سے خریداری کی اور ایک قیمتی گھڑی خریدی۔ ایک بار جب میں ایک عام سی گھڑی کا ضرورت مند تھا جو میری ضرورت تھی تو برطانیہ میں مقیم پاکستانی دوست نے جو ذہناً طے کرکے آئے تھے کہ وہ میری کسی خریداری کا بوجھ اٹھائیں گے چنانچہ انھوں نے دکاندار سے کہا کہ رولیکس کی گھڑی دکھائیں لیکن دکاندار نے کہا کہ ہم کسی پاکستانی کو یہ گھڑی نہیں بیچ سکتے۔
کمپنی نے منع کر رکھا ہے گھڑی آپ یہاں سے پسند کر لیں اور پاکستان جا کر خرید لیں۔ اب جب خبر ملی کہ ہمارے وزیراعظم نے رولیکس کی گھڑی خریدی ہے تو مجھے اپنا تجربہ یاد آیا لیکن وہ کون سی کمپنی ہو سکتی ہے جو کسی وزیراعظم اوروہ بھی ارب پتی کے ساتھ کوئی بہانہ کر سکے ورنہ اس کمپنی کو پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹنا پڑ جاتا اور بقول نپولین انگریز تو ہیں ہی دکاندار اور اتنے بڑے گاہک کو انکار کون کر سکتا ہے۔ ویسے یہی ہیرالڈ اسٹور عرب رئوسا کی آمد اور شاپنگ کی خواہش کی خبر پا کر اتوار کو بھی کھلا رکھا جاتا ہے کیونکہ انگریزوں کے لیے تجارت کا یہ ایک بڑا موقع ہوتا ہے۔
یہ اسٹور لندن شہر کے بہترین اور قیمتی علاقے میں واقع ہے۔ ہمارا سفارت خانہ بھی اس کے قریب ہی ہے اور پاکستانیوں کے لیے ایک ہوسٹل بھی سفارت خانے کے ساتھ ہے، میں ایک بار اسی ہوسٹل میں چند دن مقیم رہا جہاں پاکستانی کھانا ملتا ہے۔ میں صبح ناشتہ ہیرالڈ اسٹور میں کرتا تھا جس کا نشہ دن بھر اترتا نہیں تھا۔
ہیرالڈ والے فخر کریں گے کہ ان کا ایک گاہک پاکستان کا وزیراعظم بھی تھا جو یہ اسٹور خرید بھی سکتا تھا۔ ویسے یہ اسٹور بکتا رہتا ہے۔ میرے گزشتہ لندنی دورے میں یہ اسٹور ایک مصری سیٹھ نے خرید لیا تھا پتہ یوں چلا کہ اسٹور میں داخل ہوئے تو اس کے ہال میں قلوپطرہ کا مجسمہ نصب تھا۔، کسی فرعون کا مجسمہ بھی اور پرانی مصری اشیاء بھی نمائش کے لیے موجود تھیں مگر وہ سب کچھ بھی موجود تھا جو اس اسٹور میں ہوا کرتا ہے اور خریداروں کی آمدورفت جاری تھی۔ ہمارے محترم میاں صاحب اسی مشہور عالم اسٹور میں گئے تھے۔
جہاں سے انھوں نے نہ جانے کتنے لاکھ کی ایک گھڑی خریدی۔ یہ گھڑی اس اسٹور میں سب سے مہنگی ہو گی، اگرچہ میاں صاحب بیماری کی وجہ سے قدرے تنگ دست ہوں گے لیکن ان کی بیماری اور علاج کا بل تو ہم پاکستانیوں نے ادا کرنا ہے جو ایسے بل ادا کر کے اپنے آپ کو بھی اپنے حکمرانوں کی طرح طبقہ رئوسا میں شمار کر لیتے ہیں اور اپنی غریبی بھول جاتے ہیں۔ میں ایک بار لندن میں تھا تو مرحوم خان عبدالولی خان نے اصرار کیا کہ میں ان کے ڈاکٹر سے آنکھیں چیک کرا لوں۔ چنانچہ میں نے وقت لے لیا اور فیس کا بندوبست بھی کر لیا لیکن جب میں ڈاکٹر کے کلینک سے باہر نکلا تو مجھے ایک پاکستانی حکمران مل گئے اور میرا جی چاہا کہ میں ڈاکٹر کا بل ان صاحب کو یہ کہہ کر دے دوں کہ آپ اپنے بلوں میں اسے بھی شامل کر لیں لیکن اس کی پے منٹ مجھے ابھی دے دیں تاکہ میرا خرچ چلتا رہے اور آپ بعد میں قومی خزانے سے وصول کرتے رہیں۔
ہمارے حکمران بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہیں جن سے وہ پاکستان سے ہی وقت لے لیتے ہیں اور ڈاکٹر کی اجازت سے واپس آتے ہیں اور یہ تمام خرچہ ہم آپ ادا کرتے ہیں ٹیکسوں کے ذریعے جب کہ شک ہے کہ یہ لوگ اپنی دولت کا ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ جو کسی نے پانامہ لیکس کا پھڈا ڈال دیا ہے اس نے ہمارے رئوسا کو پریشان کر دیا ہے اور دولت ان کے لیے بظاہر ایک آزمائش بن گئی ہے لیکن یہ دولت انھیں بچا لے گی اور حسب سابق اس مشکل اور آزمائش سے نکال لے گی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ پانامہ لیکس خود نہ پکڑی جائے۔
اور جو لوگ دولت مندوں کی اس باز پرس پر خوش ہو رہے ہیں انھیں رونا نہ پڑ جائے۔ ہمارے عام لوگوں کو دولت کی طاقت کا اندازہ نہیں وہ اس پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ وہ دن رات اپنے سامنے دولت کے کھیل تماشے دیکھتے رہتے ہیں۔ قومی الیکشن ہوں تو دولت انھیں اسمبلیوں میں بٹھا دیتی ہے اور بھوکی ننگی قوم کا نمایندہ بنا دیتی ہے ان کا وہاں دل نہ لگے تو ان کی دولت انھیں حکمرانی کا مزا چکھانے کے لیے انھیں حکومتی کرسی پر بھی بٹھا دیتی ہے۔ غرض یہ دولت کیا ہے جو نہیں کر سکتی اور دولت مند اس سے کون سا لطف ہے جو نہیں لے سکتے۔
ان دنوں پوری قوم نے ایک تماشا دیکھا ہے کہ 'پانامہ لیکس' نہ جانے کہاں سے نازل ہوئی ہے اس پر کوئی پاکستانی مہر بھی ثبت نہیں ہے اور فی الوقت وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جو ہمارے بعض دولت مندوں کا نام لے کر انھیں پریشان کر رہا ہے۔ اس فرضی قسم کی دھمکی سے ڈرنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے لیکن ہمارے کئی دولت مندوں کو ان کے اندر کا خوف پریشان کر رہا ہے جس کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہے اور پاناما کی طرح جس کا جی چاہے انھیں پریشان کر دے بلکہ ان سے مناسب حد تک مال بھی اینٹھ لے۔ چور کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے لیکن ہمارے چوروں کی تو داڑھی ہی تنکوں سے بنی ہوئی ہے۔