دشمنان اقبال سے

اوریا مقبول جان  جمعـء 22 اپريل 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

لاہور کی عالمگیری مسجد کے بیرون دروازے کی سیڑھیوں کی ایک جانب شاعر مشرق‘ مفکر پاکستان‘ عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار علامہ محمد اقبال کی قبر سے جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلمان ملکوں سے لاہور آنے والے لوگ ایک احترام اور عقیدت کے جذبے سے سرشار د عا کے لیے ہاتھ اٹھا رہے ہوتے ہیں جب کہ انھی سیڑھیوں کی دوسری جانب آپ کو ایک ویران اور لوگوں کی توجہ سے کوسوں دور ایک قبر ملے گی۔ یہ قبر تاج برطانیہ کے وفادار اور یونینسٹ پارٹی کے رہنما‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار سکندر حیات کی ہے۔

روزانہ لاکھوں لوگ اس مقام سے گزرتے ہیں‘ عالمگیری مسجد کی پر شکوہ عمارت کے جاہ وجلال سے مسحور ہوتے نظر آتے ہیں۔ دروازے کے اوپر کمروں میں موجود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تبرکات کو بصد احترام زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کے صحن میں موجود وضو کے حوض کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں ‘ لاہور کے شاہی قلعے کے عالمگیری دروازے اور اس کے سامنے لان میں موجود حضوری باغ کی بارہ دری کو حیرت سے دیکھتے ہیں‘ لیکن کوئی اس قبر کے بارے میں دریافت تک نہیں کرتا کہ یہ کس کی ہے‘ یہاں کیوں دفن ہے۔

اس قبر پر سردار سکندر حیات کا کتبہ بھی تحریر ہے لیکن میں نے وہاں کھڑے ہو کر کسی کو وہ کتبہ پڑھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ یہ ہے عبرت کا مقام‘ یہ ہے وہ موازنہ جو میرا اللّہ اپنی نشانی کے طور پر واضح کرتا ہے۔ اسی لاہور شہر میں میرے اللہ نے موازنے کے لیے ایسی دو اور قبروں پر لوگوں کے ہجوم کی آمد سے واضح کیا ہے کہ جو اس کے ساتھ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں۔ اللہ ان کی موت کے بعد بھی عزت و تکریم کی حفاظت کرتا ہے اور جو دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں انھیں کبھی تو دنیا میں ہی اس کی بے وفائی کا منظر دکھا دیتا اور موت کے بعد تو ان سے احترام کا رشتہ ایسا ٹوٹتا ہے کہ دنیا ان کی خوبیوں کے بجائے ان کے عیوب کا تذکرہ زیادہ کرنے لگتی ہے۔

لاہور شہر میں یہ دو قبریں راوی دریا کے آر پار ہیں۔ ایک مغل سلطنت کے سب سے طاقتور اور عاشق مزاج بادشاہ جہانگیر کی قبر ہے جس پر اس کی لاڈلی بیوی نور جہاں نے قیمتی پتھروں سے مزیں شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔ جسے انگوری باغ میں دفن کیا گیا جو بذات خود ایک خوبصورت سیر گاہ تھی۔ احتیاطاً قبر کے تعویذ پر آیت الکرسی بھی تحریر کر دی‘ جہانگیر کے اس مقبرے پر سیر و تفریح کے لیے آنے والوں کی ٹولیاں جوق در جوق آتی ہیں۔ تصویریں کھنچواتی ہیں‘ اس کے لان میں بیٹھ کر پکنک مناتی ہیں‘ نئے شادی شدہ جوڑے ہنی مون کی سیر کے لیے ا س مقبرے کو بھی شامل رکھتے ہیں۔

عشاق جوڑے مقبرے کے اردگرد تنہا مقام پر اپنے لیے نشاط انگیز لمحے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ اس کی قبر پر آنے والے وہاں پر کندہ کام کی جاذبیت میں کھوئے ہوتے ہیں‘ تعویز پر ہاتھ پھیرتے ہیں‘ لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جو جہانگیر کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ مجید امجد نے جہانگیر کے مقبرے میں ان سیر و تفریح کے متوالوں اور مست عشاق کی پھیلائی ہوئی گندگی کو سمیٹنے والے لوگوں کا کیا نقشہ کھینچا ہے۔

اور انھیں دیکھو۔ یہ جاروب کشان بے عقل
صبح ہوتے ہی جو چن چن کے اٹھا پھینکتے ہیں
گھتلیاں۔ عشرت و دزدیدہ کی تلچھٹ سے بھری
کہنہ زینوں میں پڑی‘ تیرہ دریچوں میں پڑی

لیکن دوسری جانب اس ولی کامل‘ درویش الہٰ مست سید علی بن عثمان ہجویری ؒ کا مزار ہے جنہوں نے اللہ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کیا۔ غزنی کے پہاڑوں کے دامن سے نکلے اور راوی کے کنارے ایک ٹیلے پر اپنا ٹھکانہ بنایا۔ رشد و ہدایت کے اس سرچشمے سے لاکھوں فیض یاب ہوئے۔ آج اس مختصر سی قبر جس پر کوئی قیمتی پتھر نصب نہیں ہیں‘ نہ اسے کسی بادشاہ کے معمار نے عالمی شہرت یافتہ عمارت کے طور پر تعمیر کیا ہے۔ لیکن وہاں چوبیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت جاری رہتی ہے‘ لوگ ہاتھ اٹھا کر ان کے درجات کی بلندی کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ درویش کی کرامت کہ آج بھی روزانہ پچاس ہزار مفلس و نادار اور بھوکے اس کے لنگر سے دو وقت کھانا کھاتے ہیں۔ یہ وہی داتا گنج بخشؒ ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا۔

سید ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیرسنجر را حرم
خاکِ پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت

(ہجویر کے یہ سردار امتوں کے مخدوم ہیں‘ جن کی تربت سنجر کے بزرگوں کے لیے ا حترام کا مقام ہے۔ ان کی وجہ سے پنجاب کی خاک کو زندگی ملی۔ اس سورج کی وجہ سے سے ہماری صبح تابندہ ہوئی)۔

یہ موازنہ صرف لاہور میں نہیں بلکہ آپ کو ہر جگہ ملے گا‘ دلی میں سڑک کی ایک جانب نصیر الدین ہمایوں کا مقبرہ ہے اور دوسری جانب نظام الدین اولیاء ؒ کا مرقد اور کیفیت وہی ہے جو جہانگیر اور سیدنا علی ہجویریؒ کی قبور کی ہے۔

ایک آباد اور قرآن کی آوازوں سے مہکتی ہوئی اور دوسری ویران۔ نظام الدین اولیاءؒ کے مزار کے آس پاس دو بڑے شاعر دفن ہیں۔ ایک غالب کا مزار ہے جس کے دروازے پر تالہ لگا ہوتا ہے‘ جالیوں میں سے جھانک کر دیکھو تو قبر پر مٹی کی تہیں جمی ہوتی ہیں۔ چند ٹولیاں آ کر تصویر بنا لیں تو ٹھیک ورنہ کوئی زحمت کر کے دروازہ کھلوا کر قبر پر فاتحہ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ دوسری جانب تھوڑی ہی دور طوطی شکر مقال حضرت امیر خسروؒ کی قبر ہے۔ وہ خسرو جس نے برصغیر پاک و ہند میں شاعری کو خوبصورتی دی۔ جس کی اردو نما ہندی کی شاعری آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ لیکن خسرو کو زندہ جاوید رکھنے اور اس کی قبر کو بقۂ نور بنائے رکھنے میں اس کی فارسی میں کہے گئے عشق رسول میں ڈوبے اشعار ہیں۔

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

(لامکان کی وہ محفل جس میں مجھے جانے کا شرف حاصل ہوا‘ وہاں اللہ خود میر مجلس ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شمع محفل)۔ اللہ سے کیا گیا وہ عہد جو خسرو نے نبھایا‘ اللہ نے اس کو موت کے بعد بھی اس کی عزت و ناموس کی رکھوالی کی۔ دلی کے علاقے مہرولی میں قطب مینار کے سائے تلے کئی سلاطین دہلی دفن ہیں لیکن سوائے عشقیہ تصویر بازی اور تفریحی سیر سپاٹے کے وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ ان قبروں کی جانب دیکھتے تک نہیں‘ بس قطب مینار کے سائے تلے تصویر بناتے ہیں‘ لیکن ساتھ ہی خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی قبر ہے کہ جہاں فاتحہ پڑھنے والے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کا ہجوم موجود ہوتا ہے۔

مغلوں نے بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کئی سو سال حکومت کی۔ کابل کے باغ میں بابر‘ لاہور میں جہانگیر‘ اسکندرہ میں اکبر‘ آگرہ میں شاہ جہاں دفن ہوئے‘ سب کی قبریں ایسے ہی کھیل تماشے کا سامان ہیں۔ البتہ ایک کچی قبر ہے جو اورنگ آباد کے ساتھ خلد آباد میں حضرت زین چشتیؒ کی خانقاہ کے باہر ہے۔ مزار میں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جبہ مبارک رکھا ہوا ہے۔ سیڑھیوں کے نیچے لکھا ہوا ہے۔ جبہ مبارک کے احترام میں درود پڑھتے اندر داخل ہوں۔ آپ جب درود پڑھتے دروازے پر آتے ہیں تو سامنے اللہ سے اپنا عہد نبھانے والے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی قبر ہے۔ جہاں فاتحہ پڑھنے اور قرآن خوانی کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اس کچی قبر کے اوپر ایک بوٹی اگتی ہے جسے پورا شہر تبرک کے طور پر لے جاتا ہے اور شفاء کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دو قومی نظریے کے بانی اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

درمیان کار زار کفر و دیں
ترکش مارا خدنگ آخریں
(دین اور کفر کے معرکے میں یہ شخص میرے ترکش کا آخری تیر تھا)۔

یہ سب اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ یہ سال اقبال کے دشمنوں کی حکمرانی کا سال ہے۔ وہ اقبال کی 9 نومبر کی تعطیل یہ کہہ کر ختم کرتے ہیں کہ چھٹیاں زیادہ ہو گئیں‘ لیکن ہولی‘ دیوالی اور ایسٹر کی تین چھٹیاں کر دیتے ہیں۔ پہلی دفعہ 23 مارچ کی پریڈ سے اقبال کی تصویر غائب کر دی جاتی ہے ۔ اور کل اقبال کی برسی پر نہ تو کوئی سرکاری تقریب تھی اور نہ میڈیا میں اس کا کوئی تذکرہ‘ وہ میڈیا جو ایان علی اور قندیل بلوچ کے سحر میں ڈوبا ہے وہاں اقبال کا ذکر کیسے ممکن۔ لیکن اقبال سے یہ دشمنی نئی نہیں۔ ہر وہ شخص جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے خوفزدہ ہے‘ اقبال کا دشمن ہے۔

کبھی کیمونسٹ اقبال کو شاعر نہیں مانتے تھے‘ آج لبرل سیکولر اس کا ذکر لوگوں کے ذہنوں سے محو کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اقبال سرکار کی سرپرستی میں شاعر کے طور پر پہنچانا جاتا ہے۔ وہ جس کو ایران میں بچہ بچہ جانتا اور اس کے شعر گنگناتا ہو‘ تاجکستان کا ترانہ ’’از خواب گراں خیز‘‘ اقبال سے محبت کا علمبردار ہو‘ ترکی والے اقبال کے مزار سے مٹی لے کر جائیں اور قونیہ میں اس کا مزار بنائیں‘ اس اقبال کو کون شکست دے گا۔ نواز شریف اور اس کی پانامہ لیکی حکومت۔ مزار اقبال ویسے ہی آباد رہے گا لیکن شاید آپ کی قبروں کا راستہ بتانے والا بھی کوئی موجود نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔