نفاذِ اردو: ’’ہو رہا ہے، ہوجائے گا‘‘۔۔۔۔حکومت کی جملے بازیاں

انوار فطرت / غلام محی الدین  اتوار 24 اپريل 2016
 انگریزی زبان کے حامیوں کے اعتراضات سطحی اور استدلال بودا ہے ۔  فوٹو : فائل

انگریزی زبان کے حامیوں کے اعتراضات سطحی اور استدلال بودا ہے ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  ملک میں اردو کے عملی نفاذ کے حوالے سے سال 2015 میں عدالتِ عظمی نے جو فیصلہ صادر کیا تھا، اُس پر عمل درآمد کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ حکم بھی’’ہو رہاہے، ہوجائے گا‘‘ وغیرہ جیسی صدا بہار حکومتی جملہ بازیوں کی نذر ہو چکا ہے۔ خود اعلیٰ عدالتوں کے نوٹیفیکیشن بھی انگریزی میں ہی جاری ہوتے ہیں۔

ہم اپنی زبان کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہیں مل رہا۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان میں اُس شخص کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے، جو غلط سلط انگریزی فرفر بولتا ہو۔ اچھی اردو لکھنے، بولنے اور سمجھنے والے کی کامیابی کے امکانات نہیں ملتے۔ کیا سرکاری، کیا غیر سرکاری، کسی بھی شعبے میں چلے جائیے، آپ کو اردو بولنے والے کی پذیرائی نہیں ملے گی۔ تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں، جن میں اردو بولنے پر پابندی عاید ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ 1956، 1962 اور 1973 کے تمام دساتیر میں اردو کو پاکستان کی قومی، سرکاری اور دفتری زبان قرار دیا گیا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ قوم جب خود ہی اردو کو وقعت نہیں دے گی، تو اقوامِ عالم کیوں تکریم دیں گی؟ ہر قوم اپنی شناخت کے جتن کررہی ہے۔ بتایا جاتا ہے ’’زبان قوم اور ملک کی بنیادی اکائی ہوتی ہے‘‘۔۔۔ ہوتی ہوگی، ہمیں کیا؟ انگریزی کے اثر و نفوذ کا عالم ملاحظہ ہو کہ اب ہمارے معاشی طور پر گئے گزرے گھرانوں میں بھی تقریبات کے دعوت نامے اردو میں چھپوانے سے گریز کیا جاتا ہے، لوگ ندامت محسوس کرتے ہیں۔

بولنے والوں کی تعداد پر جایے، تو اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ سات زبانوں میں اردو تیسری ہے۔ بھارت اور ایران، چین، جاپان، امریکا، جرمنی، برطانیہ؛ غالب، اقبال اور فیض کو اردو میں پڑھنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔ ہم انہیں بھی انگریزی ہی میں پڑھیں گے تاکہ آقاؤں کی نظر میں بار پائیں۔ کمتری کا یہ گھناؤنا احساس ہماری شکست خوردگی کا شاخسانہ ہے۔

چند دہائیاں پہلے اخبار، ریڈیو اور ٹی وی چینل جیسے اداروں میں ایک ماہرِ لسانیات کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا، جو اسکرپٹ کی زبان اور تلفظ درست کرایا کرتا تھا۔ اب اردو میں انگریزی کے پیوند لگ رہے ہیں، ایک جملہ اس بھونڈی پیوند کاری کے بغیر ادا نہیں ہوتا۔ اندازہ کیجے! سوشل میڈیا پر اس بات پر دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ’’اب درخواست کے آخر میں فدوی لکھنا پڑے گا‘‘۔ بتایے! آپ اس لفظ پر ندامت فرما رہے ہیں یا اپنے بڑے بوڑھوں پر شرما رہے ہیں، یہ لفظ ان ہی سے ہم تک آیا ہے، ’’سر‘‘ لکھنے میں کیا تفاخر ہے؟۔

مقتدرہ قومی زبان بورڈ نے دفتری، عدالتی نظام میں رائج انگریزی الفاظ کے متبادل، اسلوب دفتری زبان، خلاصہ نویسی جیسے موضوعات پر کئی کتابیں شایع کردی ہیں، کوئی ایک نظر ڈالے تو۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر یہ لکھ دیتے کہ اردو میں ترجمہ بر محل نہیں ہوتا، متبادل الفاظ مشکل ہوتے ہیں تو بات سمجھ میں آ جاتی کہ آپ اس ’’بے چارہ طبقے‘‘ سے ہیں، جسے اردو سے سات کوس دور رکھا گیا۔

بہتوں کو کہتے سنا کہ اردو ابھی علمی زبان بننے کی استطاعت نہیں رکھتی۔۔۔جس نے بھی کہی، خوب کہی۔ کیا اردو، جاپانی، چینی، کوریائی زبانوں سے بھی گئی گزری ہے؟۔ جامعۂ عثمانیہ کے ڈاکٹر عثمانی کی مثال سامنے ہے، خود بھی اردو میں ’سائنس‘ پڑھی اور پڑھائی بھی اسی زبان میں، کبھی شکایت نہ ہوئی کہ وہ اردو کی ناقابلِ فہم اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جو زبان پر نہیں چڑھتیں۔ بارِ خاطر نہ ہو تو ہم آپ کو ذرا للکار لیں کہ کوئی ماہر اپنے مضمون کی تمام تر اصطلاحات پر قادر نہیں ہوتا۔ آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جائیے اور ذرا اس پینتالیس حرفی لفظ

Pneumonoultramicrosc
opicsilicovolcanoconiosis
کا تلفظ دریافت کر لیجے، (نیومونوالٹرامائیکروسکوپک سلیکوولکانوکونی اوسس)، یعنی ’وہ نمونیہ، جو آتش فشانی ریت کے برادے سے پیدا ہوا‘۔ میں اس کا ترجمہ ’’ذات الجنبِ ریگی‘‘ کرتا ہوں، ماہرین اس سے بھی فصیح ترجمہ کر سکتے ہیں۔ انگریزی میں ایسی سیکڑوں اصطلاحات ہیں۔

نفاذِ اردو میں کیا دشواری ہے؟
سچ یہ ہے کہ اردو کے نفاذ میں کوئی تیکنیکی دشواری درپیش نہیں۔ یہ رونا رونے والوں سے کسی نے دریافت کیا کہ یہ تکنیکی دشواریاں کیا ہیں؟ اگر صرف ترجمہ ہی تکنیکی دشواری ہے تو اس دشواری سے نمٹنے کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے؟ ایک گھسی پٹی شکایت یہ ہے کہ فنڈز دستیاب نہیں۔ کارپوریٹ کلچر کے راکھے جانتے ہیں کہ اردو نافذ ہوگئی تو لُوٹ کی شرح میںکمی آجائے گی، عامیوں، ہالیوں موالیوں کے بھی زبان اُگ آئے گی، پھر یہ بھی کہ یہ بالادست طبقہ عمر بھر انگریزی بول بول کر منھ ٹیڑھا کروائے بیٹھا ہے۔

اب کس منھ سے کعبے جائے؟۔ جب نفاذِ اردو کا فیصلہ سامنے آیا تو یہ طبقہ اردو اور نفاذِ اردو کے حامیوں پر چڑھ دوڑا اور جو سوال داغا تو اس سے ان کی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔ پوچھا ’بسکٹ اورکار کو کیا کہوگے؟۔ کر لیجے بات! ایسے ہی کسی موقع پر میرزا صاحب سٹپٹائے ہوںگے ’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘۔ یہیں پر بس نہیں، فرمایا ’’اردو مسلمانوں کی زبان ہے‘‘ لیجے! اب زبانیں بھی ہندو، مسلمان ہو گئیں، کوئی مانے گا کہ انگریزی ’کرسٹان اور فارسی مجوسی ہے؟۔ جواز ملاحظہ ہو ’’سارے جدید علوم انگریزی میں ہیں، اس کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی‘‘۔ یہ اعتراض بھی اُٹھا کہ قومی ترانے میں بس ایک لفظ اردو کا ہے؟۔ انگریزی کے حامیوں کے اعتراضات سطحی اور استدلال بودا ہے۔

مقتدرہ قومی زبان والوں کا دعویٰ ہے کہ بس حکم کی دیر ہے۔ اب اْردو جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر اْردو رسم الخط میں کام کے حوالے سے جو تا ثر پایا جاتا ہے کہ اِن پیج کے سوا کام نہیں ہو سکتا، اْردو معلومات کو گراف، چارٹ، جدول میں اُس طرح پیش کرنا ممکن نہیں، جیسے انگریزی میں؛ وہی قصہ ہائے پارینہ۔ خوش خبری یہ ہے کہ جنابِ عطش درانی اور دیگر ماہرین نے اب ایسے سافٹ ویئر تیار کر لیے ہیں، جو ان پیج ایپلی کیشن کو مائکرو سافٹ ورڈ اور ایکسل کے ساتھ جوڑ کر ان سافٹ ویئرز پر اردو میں کام کو بہت آسان بنا چکے ہیں۔ نیز اِن پیج کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہوچکا ہے۔

کچھ تجاویز
جو لوگ اردو کو نافذ کروانا چاہتے ہیں وہ آپس میں مل کر تنظیمیں بنا لیں۔ منظم ہونے سے کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی تمام تنظیموں کے درمیان اشتراکِ عمل ہونا چاہیے۔
دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں، ہمیں اپنے دستخط اْردو میں کرنے چاہییں۔
اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ) اْردو میں چھپوانے چاہییں۔
اپنے چیک ہمیں اْردو ہندسوں میں لکھنے چاہییں، بنک قانوناً ایسے چیک قبول کرنے کے پابند ہیں۔
ہمارے یہاں دعوت نامے اس زبان میں چھاپے جاتے ہیں، جو بلانے والے کی بھی نہیں اورہ بلائے جانے والے کی بھی نہیں، ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
اپنے موبائل فون کی ترتیب ہمیں اْردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اردو میں کرنے چاہییں۔

ہمارے دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اْمور اْردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائین بورڈ اردو (یا انگریزی کے ساتھ اْردو) میں لکھوانے چاہییں۔

ہمیں حسب استطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِ اْردو کے لیے وقف کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر اَجر کی توقع رکھنی چاہیے۔ ہم نفاذِاْردو کے مقصد میں کامیاب ہوگئے، تو ملک کی تقدیر بدلنے میں ہمارے مال کا حصہ بھی شامل ہوگا۔

ہمارے ایک دن کے وقت کا ایک فی صد تقریباً ۴۱ منٹ بنتا ہے اور مہینے کا ایک فی صد تقریباً سات گھنٹے۔ اس وقت میں اپنے اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں کے ساتھ اور دفتر کے ساتھیوں سے اس موضوع پر بات کریں اور انہیں اْردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان امور پر عمل کرنے میں، آغاز میں کچھ تکلیف تو ہوگی لیکن سات سمندر پار جانے کے لیے پہلا قدم تو لینا ہی پڑتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں، جو اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا۔

افسوس! ہمارا حکمران گونگا ہے
ڈاکٹر فتح محمد ملک صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اردو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، کئی یادگار کتابوں کے مصنف ہیں، ماہرِتعلیم ہیں، کئی ملکی غیرملکی جامعات میں پڑھا چکے ہیں، مقتدرہ قومی زبان کے مسند نشیں بھی رہ چکے ہیں۔ نفاذِ اردو کے سوال پر فرماتے ہیں:

’’یاد ش بخیر، پاکستان کے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف اپنے دورۂ امریکہ کی اختتامی تقریب میں امریکی صدر سے انگریزی زبان میںلکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی پرچیوں کو پڑھتے رہے۔ امریکی صدر بولتے رہے اور ہمارے وزیراعظم پڑھتے چلے گئے۔ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر یہ منظر بار بار دیکھا اور ہر بار دل میں یہ تمنا بیدار ہوئی کہ کاش ہمارے وزیراعظم اپنی قومی زبان اُردو میں گفتگو کرتے اور امریکی صدر ترجمان کی وساطت سے اُن کا مافی الضمیر سمجھتے۔ آج سے سالہا سال پیشتر ہمارے ایک وزیراعظم جرمنی کے سرکاری دورے کے دوران جرمن صنعتکاروں اور تاجروں کے ایک اجتماع سے انگریزی زبان میں مخاطب تھے۔ میرے قریب بیٹھے ایک صاحب نے سوال کیا :

In which language is he speaking?

جب میں نے یہ سوال سُنا اَن سُنا کر دیا تو اُن صاحب نے دوبارہ یہی سوال دُہرایا۔میں نے اُن کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا تو سمجھا کہ واقعتاً اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ بات یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اِس غلط فہمی میں مُبتلا ہے کہ اُسے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے۔

نتیجہ یہ کہ جب یہ لوگ انگریزی میں خطاب کرتے ہیں تو سُننے والے سمجھ جاتے ہیں کہ اِن بیچاروں کو انگریزی نہیں آتی۔ قومی طرزِ احساس سے محروم اپنے سیاسی قائدین کا خیال کرتا ہوں تو یہ سانحہ یاد آجاتا ہے کہ جب افغانستان کے موجودہ صدر منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد پہلی بار پاکستان آئے تو اُنہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز اُردو زبان میں کیا تھا۔ ان کے جواب میں جب ہمارے اُس زمانے کے صدر نے انگریزی زبان میں لب کُشائی کی تو جناب حامد کرزئی کو بھی انگریزی میں گفتگو کرنا پڑی۔ تب سے لے کر اب تک پاک افغان مذاکرات زبانِ غیر میں کیا شرحِ آرزو کرتے‘؟ کے مصداق ہو کرر ہ گئے ہیں۔

یہاں مجھے ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی ہے ۔ آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر چین کے وزیراعظم چَو این لائی، راولپنڈی میںایک پریس کانفرنس سے اپنی قومی زبان چینی میں مخاطب تھے۔ اُن کا چینی مترجم اُن کے ہر جملے کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتا چلا جا رہا تھا۔ ایسے میں چَواین لائی ذرا کی ذرا رُکے اور مترجم کی غلطی کی چینی زبان میں ہی اصلاح کی۔ مترجم نے وہ بات ازسرِ نو بیا ن کر کے اپنی غلطی پر معذرت کر لی۔ جب پریس کانفرنس ختم ہوئی تو پاکستان ٹائمز سے وابستہ بزرگ صحافی ایچ کے برکی نے چین کے وزیراعظم سے بصد ادب و احترام پوچھا کہ جب خود آپ کو انگریزی زبان پر ایسی شاندار گرفت حاصل ہے۔

تو آپ خود انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ اِس پر چین کے وزیراعظم نے بیساختہ جواب دیاکہ ’’ ہم گونگے نہیں ہیں، ہماری اپنی ایک زبان ہے ، ہماری قومی زبان، ہم اپنی قومی زبان میں گفتگو پر نازاں ہیں۔‘‘…افسوس صد افسوس کہ ہمارا حکمران طبقہ گونگا ہے اِس لیے جب اُس کا کوئی فرد امریکی صدر سے بات چیت کی ’’سعادت ‘‘حاصل کرتا ہے تو بے تکلف گفتگو کی بجائے کاغذکی چھوٹی بوٹی پرچیوں پر لکھی لکھائی عبارت کو دیکھ دیکھ کر غوں غاںکرنے لگتا ہے۔‘‘

عدالت کا فیصلہ موزوں نہیں
ڈاکٹر عطش درانی نے اردو اصطلاحات سازی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے ترجمہ، اصطلاحات سازی اور لغات کے شعبے اور اردو ابلاغیات کے شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد کم و بیش تین سو ہے۔نفاذ اردو کے عدالتی فیصلے پر ان کا تبصرہ کچھ یوں ہے:۔

’’عدالت کافیصلہ موزوں نہیں ہے، آئین کا لکھا دہرا دیا گیا اور بس، یہ کوئی Mandatory بات نہیں۔ ہمارے یہاں ایک غلط تصور بار پائے ہوئے ہے کہ اردو زبان شاعر اور ادیب نافذ کریں گے۔ زبان میں ادب کا حصہ صرف 5 فی صد ہے۔ ادب میں کُل آٹھ دس ہزار الفاظ ہی استعمال ہوتے ہیں، جب کہ اصطلاحات ہی 6 لاکھ ہیں، اوپر سے ہمارا نظامِ تعلیم خود نفاذِ اردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

تعلیمی اداروں میں اردو زبان کہاں پڑھائی جاتی ہے؟ اردو یونی ورسٹی بس نام کو ہے، وہاں صرف اردو ادب پڑھایا جاتا ہے، کوئی مضمون اردو میں نہیں پڑھایا جاتا۔ میں کہتا ہوں اردو والے خود اس کے دشمن ہیں۔ میں نے اردو ترجمے کا سافٹ ویئر بنا لیا تھا، اس سافٹ ویئر کی وجہ سے بڑی بڑی ضخیم کتابوں کا ترجمہ بٹن دباتے ہی ممکن ہو گیا تھا۔ اس کو فروغ دینے کے مقصد سے میں نے حکومت سے 32 کروڑ روپے منظور کرائے، مقتدرہ میں اس سلسلے کے ماہرین کی دس آسامیاں بھی پیدا کیں۔ یہ دس ماہرین مقتدرہ میں اب بھی موجود تو ہیں لیکن ان سے کوئی کام نہیں لیا جا رہا، اب مجھے داد تو خیر کیا ملنا تھی، الٹا جواب طلبی ہو گئی اور وہ فنڈز واپس کرا دیے گئے۔ میں آپ کو بتاؤں نفاذِ اردو کی تحریک چلانے والوں کا رویہ آمرانہ ہے۔

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ نفاذِ اردو کے لیے آپ کو ایک بار پھر قوم کے پاس جانا ہو گا۔ عوام کی رائے کبھی مستقل نہیں ہوتی۔ ایک مثال سے بات واضح کرتا ہوں۔ میں نے تار (Telegram) کو اردو میں مروج کرنے کی کوشش کی، پورے ملک میں مشینیں لگوائی گئیں لیکن ہوا کیا، برسا برس کے بعد معلوم ہوا کہ اردو میں درجن بھر تار ہی بھجوائے گئے، سو 2006 میں یہ سلسلہ بند کر دیا گیا، اسی طرح ہم نے کوشش کرکے موبائل فونوں میں اردو میں پیغام رسانی کی سہولت رکھوائی لیکن لوگ انگریزی یا رومنائیزڈ اردو ہی میں میسیج کرتے ہیں۔

سو عوام کی رائے معلوم کرنا اب ضروری ہوگیا ہے، حکومت کے پاس لیکن کوئی لسانی پالیسی نہیں ہے۔ عوامی رائے پر حکومتی پالیسی بننی چاہیے، جس میں زبانوں کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں، ہم انگریزی سے بھی مستفید ہوتے رہیں اور اردو بھی قومی حیثیت سے برقرار ہو۔ بھارت نے پالیسی بنالی ہے تو ہم آج تک کیوں نہیں بنا پائے۔ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اردو 24 ماہ کے اندر اندر نافذ ہو سکتی ہے۔

عدالت کے حوالے سے کہا:دیکھیے! میں پاکستانی ہوں، آئین میں میرے بنیادی حقوق طے ہیں، جو مجھے ملنے چاہییں، ان کے حصول کے لیے مجھے عدالت میں جانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ کینیڈا وغیرہ جیسے ملکوں میں لسانی محتسب کے ادارے ہیں، جو لسانی زیادتیوں اور لسانی بدعنوانیوں پر محاسبہ کرتے ہیں۔ سو عدالت کے فیصلے کے حوالے سے میں پھر کہوں گا کہ عدالت کا کام آئین کو دہرانا نہیں ہے، حکم دینا ہے۔

سرکارلیت و لعل سے کام لے رہی ہے
پروفیسر جلیل عالی صاحب ملک بھر میں ایک ممتاز شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ماہرِ تعلیم ہیں۔ نفاذ اردو کے حوالے سے کہتے ہیں :

۱۹۷۳ کے آئینی توسیعی فیصلے پر عمل درآمد کروانے کی غرض سے اگرچہ جنرل ضیاء الحق نے کہنے کو دفتری اور ذریعۂ تعلیم کے طور پرآئندہ ۱۹۸۸ میں قومی زبان اردو کے نفاذ کا اعلان تو کر دیا اور اس سلسلے میں ملک بھر میں اضلاعی سطحوں پر مجالسِِ زبانِِ دفتری کی تشکیل بھی کروا دی تھی۔

آغاز میں قدرے جوش و خروش بھی نظر آیا، دفاتر کے بہت سے اہل کاروں نے اردو ٹائپ کاری سیکھنے میں بھی دلچسپی لی مگرمقتدرہ اردو زبان کے فعال چیئرمین ڈاکٹر وحید قریشی کی طرف سے اس مشن کو تحریکی انداز میں آگے بڑھاتے دیکھ کر بیروکریسی کا ماتھا ٹھنکا اور انہیں نہ صرف ڈانٹ پلائی گئی بلکہ بیماری اور ناتوانی کا بہانہ بنا کر منصب ہی سے فارغ کر دیا گیا۔ان کے بعد آنے والے چیئر مین نے پہلی ہی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر کے کہ ’’میرا کام دفتر کی چار دیواری کے اندر اصطلاحاتی تیاری ہے۔

اردو کا نفاذ حکوت کی صواب دید ہے‘‘ حکام ِ بالا کو ذہنی آسودگی نذر گزاری۔مجھے یاد ہے میں نے جب اس وقت کے وزیرِ تعلیم سے استفسار کیا ’’اگر آپ چند سال بعد میٹرک کا امتحان صرف اردو میںلینے والے ہیں تو اتنی کثرت سے انگلش میڈیم سکولوں کی فصلیں کیوں کاشت ہو رہی ہیں؟‘‘ تو وہ طرح دے گئے اور پھر وقت آنے پر انگلش میڈیم بچوں کی مجبوری کے بہانے اردو، انگلش دونوں زبانوں میں پرچے حل کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی۔ اس کے بعد کی تاریخ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو کوہر مقام سے پیچھے ہٹانے اور بے وقعت کرنے کی روداد ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز میںقومی زبان اردو کے نفاذ کے بارے میں حکمران طبقے کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے۔انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو کے نفاذ سے ان کی بالا دستی کو شدید جھٹکا لگے گا ۔اگر صرف مقابلے کے امتحانات ہی اردو میں دینے کی اجازت ہو جائے تو نچلے طبقوں سے غیر معمولی صلاحیتوںوالے افراد کو آگے آنے سے کون روک سکتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے انٹر میڈیٹ کی سطح پر جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، اس کا معیار ماضی کے مڈل درجے کے برابر بھی نہیں، اوپر سے امتحان میں قدرتِ زبان جانچنے کی بجائے اوبجیکٹو سوالات کی سہولت شامل کر دی گئی ہے۔ آج صورت ِ حال یہ ہے کہ عدالت نے تو نفاذِ اردو کے احکامات صادر فرما دیے ہیں مگر سرکار نے اس سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں کی اور لیت لعل سے کام لے رہی ہے۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک میں سب سے زیادہ تعداد میں اردو اخبار پڑھے جاتے ہوں، سب سے زیادہ اردو فلمیں دیکھی جاتی ہوں، سب سے زیادہ اردو ٹی وی پروگرام دیکھے جاتے ہوں، سیاسی قائدین عوامی رابطے کے لیے سب سے زیادہ جو زبان استعمال کرتے ہوں،جس میں سب سے زیادہ ادبی کتابیںشائع ہوتی ہوں،سوشل میڈیا میں بھی جس کے باشندے، جس زبان کو سب سے زیادہ استعمال میں لاتے ہوں، اساتذہ اور طلبا و طالبات سائنس و ٹیکنالوجی کے مباحث میں بھی انگریزی اصطلاحات کے سوا سب سے زیادہ جس زبان کو تشریح و تبادلے کا ذریعہ بنارہے ہوں،سوشل میڈیا کی کارو باری کمپنیاں بھی اپنے آلات میں جس زبان کے سہولتی سافٹ ویئر فراہم کرنا ضروری سمجھتی ہوں، اس کے نفاذ میں صرف مفاد پرست مقتدر طبقات ہی نہیں بلکہ اسے اپنے تخلیقی کام کا وسیلہ بنانے والے بہت سے قلمکار بھی رکاوٹ کا باعث بنیں۔

مجھے یادہے جب پنجاب کے ایک عوامی وزیرِ اعلیٰ نے اراکین ِاسمبلی کی اکثریتِ رائے کے ذریعے صوبے میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا ارادہ کیا تو اسلام آباد میں ایک چھوٹے سے جلوس میںانگریزی خواں بالائی طبقے کے افراد کے ساتھ ہمارے پنجابی پیارے اردو قلمکار بھی اردو کے خلاف پنجاب میں پنجابی کے نعرے لگا رہے تھے، چنانچہ انتشار کے خدشے کا بہانہ بنا کر ملک کے کرتوں دھرتوں نے کوئی پیش رفت نہ ہونے دی۔ صوبوں میں صوبائی زبان کے مطالبے کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے مگر اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ نعرہ صرف اس وقت کیوں لگایا جاتا ہے جب اردو کے آگے آنے کا امکان پیدا ہوتاہے۔

عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کی خاطر گریز پا حکمرانوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے سول سوسائٹی میںکوئی خاص تحریک موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں سید عبداللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی بڑی شدّت سے یاد آرہے ہیں۔

ماہرین کی آراء اور ردعمل
پاکستان میں انگریزی کے بجائے اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے پر ڈاکٹر قاسم کا کہنا ہے ’’یہ کام سپریم کورٹ کا نہیں، پارلیمنٹ کا ہے کیوں کہ یہ زبان کی منصوبہ بندی یا لینگوئج پلاننگ کا سبجیکٹ ہے۔

سپریم کورٹ نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ آپ کا آئین آپ سے جو کہ رہا ہے، وہ کرو۔ فیصلہ وہی ہے جو پارلیمنٹ نے پہلے کر دیا تھا۔ ہم اتنے عرصے جو ناکام رہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زبان کی منصوبہ بندی کے ماہرین کافی نہیں ہیں۔ ماضی میں ہمارے ہاں اداروں کے سربراہ ایسے لوگ بنے، جن کا بیک گراؤنڈ زبان کی اہمیت اور منصوبہ بندی سے متعلق نہیں تھا، اب بھی صورت حال ویسی ہی ہے۔

ماضی میں اُردو کو اتنی سپورٹ حاصل نہیں تھی لیکن اب پہلے سے حالات بہتر ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ اُردو رائج ہو۔ اگر ہم اداروں میں تربیت یافتہ لوگ نہیں لائے تو صورت حال بدلے گی نہیں۔ جب سے سپریم کورٹ نے اُردو رائج کرنے کا حکم جاری کیا ہے، مختلف سرکاری محکموں میں انگریزی اصطلاحات کے اردو متبادلات تلاشنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ڈکشنریاں چھانی جا رہی ہیں لیکن بات نہیں بن رہی۔ یہ تبھی ممکن ہو گا، جب زبان کی منصوبہ بندی کرنے والے تربیت یافتہ ماہرین اس کام میں شامل ہوں گے۔ کام والے لوگ پاکستان میں موجود ہیں، تھوڑی بہت تربیت دے کر ان کو فعال کیاجا سکتا ہے۔  جو لوگ اُردو کو بلیغ زبان نہیں سمجھتے، یہ اُن کی خام خیالی ہے،

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کہتے ہیں ’’اپنی زبان کس کو پیاری نہیں لگتی؟ اس بارے میں طرف داری برحق لیکن سخن فہمی بھی ضروری ہے۔ اردو کی زلف گرہ گیر کے ہم سب اسیر ہیں۔ اردو کے حسن و خوبی کا تذکرہ کون نہیں کرتا۔ اس کے لطف واثر اور شیرنی اور دل نشینی کی کشش کون محسوس نہیں کرتا، کون نہیں جانتا کہ اردو برصغیر کی یا جنوبی ایشیا کی ایسی زبان ہے، جس میں اخذ و قبول کا حیرت انگیز ملکہ ہے اور جس کا دامن طرح طرح کے پھولوں سے بھرا ہوا ہے، جس کی جادو اثری میں شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ عربی، تینوں کا ہاتھ ہے۔کون نہیں جانتا، جب نئی تاریخی حقیقتیں ابھرتی ہیں، تو نئے سماجی تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور نئی سچائیاں وجود میں آتی ہیں۔ اردو ایسی ہی ایک سچائی ہے‘‘۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی پیش کردہ امثال دیکھیں، فرمایا ’’اردو اپنے لب و لہجہ، رکھ رکھاؤ، روز مرہ محاوروں، اندازِ بیان، موضوع ومواد اور مختلف الفاظ کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے ایک مکمل زبان ہے۔ ۔۔۔۔ جو اس بات پر نالاں و پریشاں ہیں کہ انگریزی کے متبادل کہاں سے آئیں گے اور انگریزی کے الفاظ کیوں مستعمل ہیں۔ انگریزی میں ریل کے معنی لوہے کی پٹری کے ہیں، اردو میں ریل کو ٹرین کے معنی پہنا دیے گئے۔ بعد میں ایک سنسکرت کا لفظ گاڑی لگا کر ریل گاڑی بنا لیا۔ ڈاک خانہ، بیرنگ ٹکٹ، بسکٹ، انگریزی سے نکل کر اب اردو کے لفظ ہیں اور اب اردو تلفظ کے ساتھ ہی بولے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ احباب اپنی کم علمی اور کم فہمی کو اردو پر بندوق کی طرح تان کر انگریزی اور اردو کی جنگ نہیں چھیٹریں گے‘‘۔

وحید قریشی صاحب ایک زمانے میں اکادمی ادبیات کے سربراہ تھے لیکن وہ بھی اردو کو ملک کی دفتری زبان بنانے میں ناکام رہے۔ ایک صاحب نے جب اْن سے ان کی ناکامی کا سبب دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ میں تو شد و مد کے ساتھ کام کر رہا تھا کہ ایک روز ایک بہت بااثر افسر شاہانہ کا ٹیلی فون آیا اور پیغام دیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ بہت تیز جارہے ہیں۔ یہ سیٹ ایسی تیزی کی متقاضی نہیں۔ اس بات کی تصدیق استادِ محترم خواجہ محمد ذکریا سے بھی کی جاسکتی ہے کہ اُن کے پاس ایسی معلومات کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔

ڈاکٹر رشید امجد نے ایک گفتگو میں بتایا کہ گورڈن کالج (راولپنڈی) میں اپنے پورے کیریئر کے دوران مجھے  بیسیوں بار مختلف بیوروکریٹس، جرنیلوں اور اشرافیہ سے یہ جملہ سننے کو ملا کہ اس ’’بلڈی اردو‘‘ کی وجہ سے اس کا بیٹا فیل ہو گیا۔ اکثر جملے تو یوں بھی ہوا کرتے تھے’’آپ آگ کیوں نہیں لگا دیتے اس فضول زبان کو، آخر اس کا فائدہ کیا ہے؟۔‘‘

یہ واقعہ سنتے چلیے! آنکھیں کھل جائیںگی۔ پاکستان کے ایک معروف معالجِ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے، جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ وہاں غلطی سے اْردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندہ کیا جاتا تھا، انٹر انگریزی میں کیا، ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکا گیا تو وہاں میکسیکو سے بھی ڈاکٹر آئے ہوئے تھے، انہیںانگریزی بالکل نہیں آتی تھی، میں اپنی انگریزی پر بہت نازاں تھا لیکن چھے ماہ نہ گزرے تھے کہ میکسیکنز نے میری برتری خاک میں ملا دی۔

انہوں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ میں منھ دیکھتا رہ گیا۔ تب افسوس ہوا کہ جو کام چھے مہینے میں ہوسکتا ہے، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبال ، غالب ، میر ، اکبرالٰہ آبادی سے دور رہا۔کہتے ہیں ’’اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود ، مجھے اب بھی اْردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ سہل ہے کیوںکہ یہ میری اپنی زبان ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔