عقل سے دشمنی کا نتیجہ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 23 اپريل 2016

ایک جنگل میں شیر نے جست لگا کر بندر کو دبوچ لیا اور اس سے پوچھا بتائو جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ حضور آپ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ بندر کے جواب پر شیر نے اسے چھوڑ دیا پھر شیر کو ایک زیبرا نظر آیا، شیر نے اسے بھی دبوچ لیا اور اس سے بھی وہی سوال کیا کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ حضور شیر کے سوا جنگل کا بادشاہ کون ہوسکتا ہے۔ زیبرا کے اس جواب پر شیر نے اسے بھی چھوڑ دیا پھر شیر کی ملاقات ہاتھی سے ہوئی۔

شیر نے گرج کر، دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کی اور پھر اس سے بھی وہی سوال پوچھا، بتائو جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ ہاتھی نے جواب دینے کے بجائے شیر کو اپنی سونڈ میں لپیٹا اور اٹھا کر بیس فٹ دور پھینک دیا۔ شیر نے گرنے کے بعد خود کو سنبھالا اور اٹھ کر مخالف سمت میں یہ کہتا ہوا چل دیا جس بیوقوف کو جواب کا ہی نہیں پتا اس سے الجھنا کیسا۔یہ ہی کچھ حال ہماری سیاست میں بھی ہوتا ہے۔

سیاستدان اقتدار ملنے کے بعد فوراً آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر ہر اہم جگہ دھاڑنا شروع کر دیتے ہیں اور ابتدا میں چھوٹے موٹوں کو دبوچ کر وہی سوال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں، جواب ظاہر ہے وہیملتا ہے جو اصلی شیر کو ملا تھا، پھر آہستہ آہستہ ان کی ہمت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور پھر ایک روز وہ بھی وہی غلطی کر بیٹھتے ہیں جو جنگل کے شیر نے کی تھی، پہلے وہ انتہائی طاقتور کے سامنے گرجتے ہیں پھر دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو نکلنا ہوتا ہے۔

اصل میں جب آپ پر برا وقت شروع ہوجاتا ہے تو پھر آپ صحیح سوال غلط آدمی سے پوچھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور غلط سوال صحیح آدمی سے پوچھنے لگ جاتے ہیں اور پھر نتیجے پر قسمت کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں قصور آپ کا نہیں ہوتا، دراصل جب آپ کی دشمنی عقل سے ہوجاتی ہے تو پھر انہونیاں ہی انہونیاں ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور پھر آپ اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ میں نے کیا ہے، میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی کرسکتا تھا۔ عقل سے دشمنی کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی ظاہری طاقت پر بھروسہ کرنے لگا جاتا ہے۔

سابق صدر مصر انور سادات کے قتل کے بعد امریکا کے ٹائم میگزین نے 19 اکتوبر 1981 کو اس واقعے کے بارے میں خصوصی مضمون شایع کیا تھا۔ اس مضمون کا آغاز اس نے نپولین کے ایک قول سے کیا۔ نپولین نے اپنے آخری زمانہ میں سوال کیا ’’کیا تم جانتے ہوکہ دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے؟‘‘ اس کے بعد اس نے خود ہی جواب دیا کہ ’’وہ چیز طاقت کی یہ بے بسی ہے کہ اس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جاسکتا بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کر لیتا ہے‘‘۔

انور سادات نے مصر میں ہر قسم کی طاقت حاصل کر لی تھی مگر 6 اکتوبر 1981 کو وہ عین اس وقت قتل کردیے گئے جب کہ قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کے ساتھ فتح سوئز کی تقریب منارہے تھے۔ انور سادات کی عالیشان نشست گاہ میں آنیوالے تمام لوگوں کی جانچ مخصوص آلات کے ذریعے کی جارہی تھی حتیٰ کہ پریڈ میں حصہ لینے والے تمام فوجیوں کی رائفلوں کو کارتوس سے خالی کردیا گیا تھا مگر انور سادات کی فوج ہی کا ایک آدمی پریڈ سے نکل کر تیزی سے ڈائس کی طرف آیا اور قبل اس کے حفاظتی عملہ اس کو روکے وہ انور سادات کو اپنی گولی کا نشانہ بنا چکا تھا۔

یہ واقعہ تلوار کے اوپر دماغ کی فتح کا واقعہ تھا۔حضرت امام غزالیؒ کہتے ہیں، خداوند تعالیٰ نے عقل کو بہت خوب صورت شکل میں پیدا کیا اور اس کو فرمایا جائو، وہ چلی گئی پھر حکم ہوا آئو اور وہ آگئی پھر خدا نے عقل سے کہا کہ میں نے تمام دنیا میں کوئی چیز تجھ سے بہتر پیدا نہیں کی، تمام مخلوق کو سزا اور جزا تیرے ہی ذریعے سے ہو گی۔ قدرت جب کچھ کرنیوالی ہوتی ہے تو وہ اشارے دے دیتی ہے، آندھی سے پہلے تیز ہوا شروع ہوجاتی ہے، آسمان کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے، زلزلے سے پہلے اس جگہ سے پرندے اڑ جاتے ہیں، بارش سے پہلے گہرے سیاہ بادل آسمان پر چھا جاتے ہیں۔

جو لوگ ان اشاروں کو سمجھتے ہیں وہ محفوظ پناہ گاہوں اور اپنے اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اگر کسی کی عقل سے دشمنی ہو تو وہ سڑک یا میدان کے بیچوں بیچ کھڑا رہتا ہے پھر انجام کے بعد اپنے نصیب کو رونا شروع کر دیتا ہے۔ آئیں ذرا ہم اپنے ذہنوں پر زور ڈالیں۔ کالج کے زمانے میں کیمسٹری کے استاد لیباریٹری میں ایسے ایسے تجربے کرکے دکھاتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے، ان تجربوں کے نتیجے ہمارے لیے حیران کن ہوتے تھے لیکن ہمارے استاد کے لیے وہ ایک عام سی بات تھی کیونکہ انھیں پہلے سے معلوم ہوتا تھا کہ کس محلول کو کس محلول سے ملائیں گے تو کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ بالکل اسی طرح سیاست ہے۔

یہ بھی قدرت کی طرح کچھ ہونے سے پہلے اشارے دے دیتی ہے اور جو سیاست کے استاد ہیں انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ تبدیلی سے پہلے کون کون سے حالات و واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ ہم خود بھی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے ہمیں تاریخ میں سفر کرنا ہوگا۔

آپ 1958 میں ایوب خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کر لیں اور جب آپ یحییٰ خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے، پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کے، اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے اور میاں نوازشریف کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کر لیں گے تو پھر آپ بھی کچھ کچھ سیاست کے استاد ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس لیے پاکستان کے موجودہ حالات بالکل سیدھے سادے سے ہیں، جو کچھ طے ہے وہ ہوکر رہے گا۔ آپ لاکھ برا مانیں، لاکھ مچلیں، لاکھ اکڑیں۔

جو طے ہے، وہ طے ہے۔ ایک اور بات اچھی طرح سے ذہن نشین رکھیے گا، جو حضرات ڈٹ جائیں، جمے رہیں، طاقت کا استعمال کریں، جیسے مشورے دے رہے ہیں وہ حضرات سب سے پہلے خود محفوظ جگہوں کا معائنہ کرتے پھر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سارے سیانے ایک جیسا سوچتے ہیں اور سارے بے وقوف ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہیں۔ اس لیے اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کریں، آندھی کے سامنے کھڑے ہونے کا نقصان آپ کو ہی ہونا ہے نہ کہ آندھی کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔