حکومتی من پسند ٹرمز آف ریفرنس پر جوڈیشل کمیشن کو کون مانے گا؟

رحمت علی رازی  اتوار 24 اپريل 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاناما پیپرز کا عقدہ کیا کھلا، پاکستان میں قیاس و گمان کا طومار سا بندھ گیا۔ یہ سیاسی پنڈتوں کے حسنِ نظر کا کمال تھا یا کندہ ناتراش جمہوری مخالفین کی طنطنہ بازی تھی کہ ابتدائی چند ایام میں تو یوں محسوس ہونے لگ پڑا تھا جیسے پانی نیزوں پر چڑھ چکا ہے اور سب اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ لیے راجا اندر کے اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔

کنگھی چوٹی کیے ٹاک شوز پر بیٹھے ستارہ شناسوں نے وہ حال بینیاں کیں کہ سارا ماحول ہی دم بخود ہو کر رہ گیا‘ پھر پاناما لیکس میں نورانِ چشم کے نام نامی ظاہر ہونے پر وزیراعظم کو خیالوں میں یوں فرشتے دکھائی دینے لگے گویا طرفۃ العین میں آسماں ٹوٹ کر زمین پر آ پڑیگا۔ نوازشریف کے رختِ لندن باندھنے کے بعد تو سیاسی اُفق کا سورج نصف النہار پر آ کر ٹھہر ہی گیا، جسکی تمازت برطانیہ کی سرد ہواؤں کو بھی گرماتی ہوئی دکھائی دی۔ اپنی کھال میں مست حکمرانوں پر غشی کیوں طاری ہے کہ یہ شکم پرور تو عمر بھر کی روٹیاں سیدھی کرنے کے لیے لاغر عوام کی ہڈیوں سے گودا تک چاٹ جاتے ہیں اور انہیں جب مچھر بھی کاٹے تو خون نہیں نکلتا۔

پاکستان میں حکمرانی کرنا کمزور آدمی کا کام نہیں رہا۔ میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موصلوں سے کیا ڈرنا؟ جناب سرکار جب بات ہی کچھ نہیں تو پھر آپ کے دانتوں کے نیچے پسینہ کیسا؟ آپ اپنی پارسائی ثابت کرنے میں غلطاں و پیچاں ہیں تو کس لیے، کہ پھول کو اپنی گلنابی اور چاند کو اپنی مہتابی ثابت کرنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ وزیراعظم ہونے سے کوئی اعظم یا عظیم نہیں ہو جاتا‘ ہاں! آپ کو مغلِ اعظم بنانے کے لیے آپ کے مشّاق درباری قوم کے خون پسینے کا کمال حق ادا کر رہے ہیں جو باچھیں تان تان کر جناب کی قصیدہ خوانی پر تانیں توڑ رہے ہیں‘ یہ ایاز طبع غلام ٹولہ حضور کی پشت پر کیا خوب غوزیں لڑاتا ہے اور جب کوئی احتساب کی بات اٹھائے تو اس کی ذات میں الٹی فی نکالنے لگ جاتا ہے‘ اور گوشمالی کے تذکرہ پر لاٹھی پونگا کرنیکی دھمکیاں الگ دیتا ہے۔

ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نوازشریف جیسا سادہ اور بھولا نہیں دیکھا جو سونٹھ کی گانٹھ لے کر پنساری بن بیٹھنے کا دعویدار ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جب سیاست میں قدم رکھا تھا تب آپ کی مالی حیثیت کیا تھی اور آج کیا ہے؟ آخر آپ نے کونسا ایسا طلسمی کاروبار جمایا کہ لٹ پٹ کر جلاوطن ہونے کے ما بعد بھی آپ پاکستان کے چند امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان صحیح ہی تو کہتے ہیں کہ شریف برادران کے پاس کونسا ایسا پارس ہے کہ وہ مٹی کو بھی چھوتے ہیں تو سونا ہو جاتی ہے؟ شریف خاندان ایک طویل عرصہ سے پاکستان کی سیاست پر مسلط ہے‘ اس دوران انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا وہی جانیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے عزت کھو کر بھی صرف پیسہ ہی پایا اور وہ پیسہ کن کن خفیہ گپھاؤں میں انڈے بچے دے رہا ہے اس کا پتہ لگانا کسی لیکس کے بس کی بات نہیں۔

پاناما پیپرز میں نوازشریف کا نام خواہ براہِ راست شامل نہیں تاہم جو آف شور کمپنیاں اور ان سے منسلک جائیدادیں و رقوم ان کے بچوں کی ملکیت ظاہر کی جا رہی ہیں اس میں کئی ایک کے قانونی مالک نوازشریف خود ہیں اور یہی مخمصہ ان کی پریشانی کا اصل سبب بھی ہے۔ چوہدری نثار اپنی پریس کانفرنس میں یہ وضاحت کر بھی چکے ہیں کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ لندن والے فلیٹس وزیراعظم نوازشریف کے ہیں اور بڑے عرصے سے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ چار فلیٹس لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں واقع ہیں۔ حسین نواز تو مریم صفدر کو اپنی آف شور کمپنیوں کا ٹرسٹی ظاہر کرتے ہیں مگر پاناما پیپرز میں محترمہ کو برٹش ورجن آئی لینڈز میں قائم ہونے والی دو فرموں ’’نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ‘‘ اور ’’نیسکول لمیٹڈ‘‘ کا مالک بتایا گیا ہے۔

نیلسن انٹرپرائزز 1994ء اور نیسکول 1993ء میں قائم کی گئی جب مریم صاحبہ ابھی زیرتعلیم تھیں۔ لندن کی کچھ جائیدادیں بھی ان کمپنیوں کی ملکیت بتائی جا رہی ہیں جنہیں رہن رکھ کر جون 2007ء میں حسین نواز اور مریم نواز نے جنیوا کے ایک بینک سے ایک کروڑ 38 لاکھ ڈالر قرض لیے جو 2014ء میں سود کے ساتھ واپس کر دیے گئے‘ جولائی 2014ء ہی کو ان کمپنیوں کو خفیہ اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کے لیے ایک ایجنٹ کے سپرد کر دیا گیا۔ حسین نواز فروری 2007ء میں برٹش ورجن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ ہونے والی ہینگان پراپرٹی ہولڈنگز کے تنہا وارث ہیں‘ اس کمپنی نے اگست 2007ء میں لائبیریا میں قائم ہونے والی ایک اور کمپنی کو ایک کروڑ 2 لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔

علاوہ ازیں حسن نواز کے نام بھی جدہ اور انگلینڈ میں کئی فیکٹریاں اور کمپنیاں ہیں جن کے لیے رقوم مبینہ طور پر پاکستان سے منی لانڈرنگ کی گئیں۔ پاناما میں رجسٹرڈ ایک کمپنی جسے وزیراعظم کے بیٹے ہینڈل کرتے ہیں، برطانیہ میں موجود اس جائیداد کی ملکیت رکھتی ہے جو حقیقت میں نوازشریف فیملی کی ملکیت بتائی جاتی ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے حوالے سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ نوازشریف نے اپنے اثاثوں میں یہ بدیسی جائیدادیں کیوں ظاہر نہیں کیں۔ کیا الیکشن کمیشن کو انہیں اپنے اور لواحقین کے اثاثے چھپانے کے جرم میں نااہل قرار نہیں دے دینا چاہیے؟ مگر الیکشن کمیشن یہ سب کریگا کیسے؟ کیونکہ وہ بھی سارے اخلاقی جواز کھو چکا ہے۔

پاناما لیکس پر نوازشریف کی جھنجھلاہٹ اور چیں برجبیں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ دال ہی کالی ہے۔ علالتِ طبع کا بہانہ بنا کر عازمِ لندن ہونا اور وہاں بیٹھ کر بیٹوں سے خفیہ صلاح مشورے اور فلیٹوں کی ملکیت اپنے نام سے ہٹانے اور ثبوت غائب کروانے کے لیے دوستوں کے ذریعے وکیلوں سے رابطے ان کی بیقراری کا خود منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بڑے میاں کی بدحواسی اور خودساختہ جلاوطنی کے ناکام منصوبے نے ان کے ہمت و حوصلہ کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔

ان کی ذات الزامات کی زد پر تھی اور عوام ان پر انگلیاں اٹھا رہے تھے مگر اہم سوالوں کے جوابات دینے کے بجائے انھوں نے قوم سے ایک اسپاٹ، سطحی اور کھوکھلے خطاب کو ترجیح دی اور جب سیاسی مخالفین کی طرف سے دھونس دھرنے کا بے جا خوف انہیں اپنے محلات کا گھیراؤ کرتا دکھائی دیا تو اپنے پیچھے ایک قائم مقام سیٹ اپ ترتیب دیکر براستہ ماسکو لندن میں شفایاب ہونے جا نکلے۔ جس طرح انھوں نے اپنی معمر والدہ کی دست بوسی کی اور جس طرح ان سے دعائیں لے کر سفر پر روانہ ہوئے، یوں لگا جیسے وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کسی فوجی محاذ پر جا رہے ہیں۔

اس منظر کی جو تصویر نیٹ پر جاری کی گئی وہ اور بھی مظلوم ماحول کی عکاس دکھائی دی‘ نواز پتر کی آنکھوں میں جھلکتے آنسو، چہرے پر مردنی کے آثار، پیشانی پر فقیرانہ تفکر، شکل سے ٹپکتی بیچارگی اور قابلِ رحم باڈی لینگویج نے انہیں ایسا ظلم رسیدہ مجسمہ بنا کر پیش کیا جو پاکستانی عوام کی نفسیاتی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتا ہو۔ سراسیمگی اور گھبراہٹ کا یہ عالم، گویا شریفوں کو کسی سنگین مقدمہ کا سامنا ہے اور انہیں عدالت سے سخت ترین سزا کے فیصلے کا خوف لاحق ہے۔

کیا وزارتِ عظمیٰ ایسے شخص کے شایانِ شان ہے جو الزامات کے ڈر سے اپنا شخصی وقار ہی کھو بیٹھے۔ انھوں نے قائم مقام سیٹ اپ کی نیابت بھی سونپی تو اپنی دختر نیک اختر اور سمدھی منیم جی کو، یعنی ان کی احتساب سے مفروری کی صورت میں وہ محترمہ وزیراعظم ہونگی جن کا نام پاناما پیپرز میں اظہرمن الشمس ہے‘ اور بالفرضِ محال اگر عدالت ان کی راہ میں بھی آڑے آئی تو پھر اسحاق ڈار سے زیادہ وفادار سیاسی جانشین اور کون ہو سکتا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ شریفوں کے ماضی کے پلان میں خاطرخواہ حد تک تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔

2013ء کے انتخابات میں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کی ایک نشست سے اس حیلہ پر الیکشن جتوایا گیا تھا کہ خادمِ اعلیٰ کی وزیر خارجہ بننے کی دیرینہ خواہش تھی۔ اسی طرح حمزہ شہباز بھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی پیدائشی حسرت کے مریض ثابت ہوئے۔ جب حمزہ شہباز کو پنجاب کا خادم الخادمین اور خادمِ اعلیٰ کو وفاقی وزیر داخلہ کے لیے شریفانہ طور پر نامزد کیا گیا تو چوہدری نثار جو وزیراعظم بننے کا ارمان دل میں دبائے بادلِ نخواستہ وزیر داخلہ ہونے پر بھی مکتفی تھے، پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مانگ بیٹھے‘ اور شہباز شریف کو یہ گوارا نہ ہوا کہ کوئی غیر شریف تختِ لاہور کا وارث بنے‘ سو انہیں بھائی کی حکم برداری پر خود کو واپس پنجاب تک محدود کرنا پڑا۔

حسین نواز اور حسن نواز چونکہ خاندانی دولت کے انبار سمیٹنے میں ایسے محو ہیں کہ انہیں کاکلِ سیاست سنوارنے کی فرصت ہی نہیں۔ کیپٹن صفدر بھی نوازشریف کے سیاسی جانشین بننے سے رہے‘ آ جا کر مریم ہی اپنے بابا کی اکلوتی ولی عہد بچتی ہیں۔ حمزہ شہباز تایا جانی کو اپنا سیاسی روحانی استاد بھی اسی لیے مانتے ہیں کہ پاپا جانی تو جیتے جی پنجاب کا کھہڑا چھوڑنے سے رہے، لہٰذا بہتر ہے کہ جب خواہش ہی کرنی ہے تو وزارتِ اعلیٰ ہی کی کیوں، وزارتِ عظمیٰ کی کیوں نہ کی جائے‘ اور ویسے بھی خادمِ اعلیٰ کے جانشیں کے لیے سلمان شہباز میں کون سی کمی ہے۔

مفادات کا یہی ٹکراؤ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی نفسیاتی دھینگامشتی پر منتج ہو کر شریفوں میں ایک غیرمرئی خلیج کا سبب بن چکا ہے، حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک نوازشریف دونوں نوخیزوں کی لیڈرشپ بلڈنگ کر رہے تھے۔ نواز شریف کی یہ ذاتی خواہش تھی کہ وہ مریم بی بی کو بینظیربھٹو کے پائے کی سیاستدان بنائیں‘ مریم بھی محترمہ شہید کو اپنا سیاسی آئیڈیل سمجھتی ہیں، شاید اسی شعوری میلان کی وجہ سے انھوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن کے عہدہ کا بھی انتخاب کیا تھا۔ نواز کابینہ میں وزارتِ خارجہ آج بھی بے مالی چمن کا درجہ رکھتی ہے‘ انھوں نے کسی ممبر قومی اسمبلی کو اس لائق نہ جانا جسے وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا جا سکے۔

مریم نواز کا یہ مدعا تھا کہ وہ خواتین کوٹہ کے ذریعے یا کسی ضمنی نشست سے الیکشن جیت کر عملی سیاست کا آغاز وزیر خارجہ کی حیثیت سے کریں‘ وزیراعظم کا بھی یہی ارادہ تھا جس کے لیے فارن آفس میں ان کی تربیت کا پروگرام بھی زیر غور تھا مگر پھر اچانک محکمہ اطلاعات کے معاملات ان کے سپرد کر دیے گئے جس میں انھوں نے اپنی ناتجربہ کاری اور غیرسنجیدگی کا بے پایاں مظاہرہ کیا‘ اور بطورِ خاص میڈیا کے اشتہارات کی تقسیم میں غیر جانبداری برتنے کے بجائے ان کے درباری ساتھیوں نے پسند و ناپسند کو ترجیح دی‘ ان کے اس اقدام سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاناما لیکس میں مریم نواز کا نام آنے پر ان کا سیاسی کیریئر آغاز سے پہلے ہی انجام پذیر ہو گیا ہے حالانکہ حسین نواز نے کافی شور مچایا کہ مریم کے نام پر کسی آف شور کمپنی کے تحت کوئی اثاثے نہیں اور وہ صرف کچھ بیرون ملک اثاثوں کی ٹرسٹی ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ غیرقانونی اور کرپشن سے بنائی گئی جائیداد کا ٹرسٹی ہونا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا کہ اس کا مالک ہونا۔ نوازشریف اپنے لیے شاید اتنے پریشان نہ تھے جتنا وہ بیٹی کا نام منکشف ہونے پر تھے‘ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مریم اب بینظیر کے لیول کی سیاستدان تو بننے سے رہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں شریف خاندان میں غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل مریم نواز سے غیرمعمولی توقعات تھیں مگر انہیں وزارت اطلاعات کے بے مقصد معاملات میں اُلجھا کر ضایع کیا گیا‘ ان کے کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ تعلیم، صحت اور بہبودِ خواتین کے پراجیکٹس کے علاوہ شوکت خانم جیسے آئیڈیل اسپتال کی طرح لاوارث، غریب اور مجبور عوام کے فری علاج کے لیے جدیدطرز کے اسپتال بنوانے میں دن رات ایک کرتیں، عقل سے عاری ’’لگڑ بگڑ‘‘ درباریوں سے بھی دُور رہتیں اور اپنا انٹرنیشنل امیج بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ کے معاملات کو ترجیح دیتیں‘ بہ ایں ہمہ متنازعہ، بے مقصد، مضحکہ خیز اور بچگانہ ٹویٹس جاری کرنے کے بجائے اہم عالمی و قومی اخبار نویسوں، ایڈیٹروں اور کالم نگاروں سے پیہم گائیڈلائن لیتیں تو عوام بھی پھر تمام تحفظات کے باوجود انہیں دل و جان سے قبول کر لیتے۔

ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اب بھی محتاط ہو جائیں اور اپنا رکھ رکھاؤ بہتر بنانے کے لیے زیرک صحافیوں اور راجا ظفر الحق جیسے سینئر سیاستدانوں سے رہنمائی لیں تو ہو سکتا ہے کہ پھر ان کی عالمی سطح کی متاثرکن لیڈر بننے کی خواہش پوری ہو جائے۔ افسوس تو یہ ہے کہ شریف خاندان کے ذاتی تضادات اور اندرونی تصادم کی درونِ پردہ کہانی پاناما انکشافات نے عیاں کر دی ہے‘ اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ لندن یاترا سے قبل وزیراعظم نے پرائم منسٹر ہاؤس میں ہونیوالے تمام فیصلوں کا اختیار اپنی صاحبزادی کے ہاتھوں میں منتقل کر دیا تھا جسکا مطلب تھا کہ وہ قائم مقام وزیراعظم کی حیثیت میں کام کرینگی۔

پاناما لیکس کے بعد حمزہ شہباز کا بھی اپنے روحانی گُرو کے حق میں کوئی دفاعی یا صفاتی بیان سامنے نہیں آیا اور اطلاع ہے کہ وہ بھی کسی خود ساختہ بیماری میں مبتلا ہیں۔ شریف خاندان میں پھوٹ کے حوالے سے مریم نواز کو بھی ٹوئٹ کرنا پڑا کہ شریف خاندان پہلے کی طرح متحد ہے اور پھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ارے بھئی! اگر ایسا کوئی ہنگام نہیں تو پھر وضاحتوں کا سہارا کیوں؟ مریم نواز نے بھلے ہی اپنے پیارے پاپا کی صحت یابی کے لیے دل سے دُعا نہ کی ہو مگر پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں چند ہی دنوں میں ابنِ مریم کی تاثیرِ مسیحائی سے شفا مل گئی۔

ایلیٹ بیماریوں کا سیزن پاکستان میں پانچواں موسم شمار ہونے لگا ہے‘ آجکل زیادہ تر سیاستدان اسی کی لپیٹ میں ہیں‘ ہمارے حکمران بھی کمال مخلوق ہیں! سیاست جن کے لیے عبادت ہے، عوام کی خدمت جن کا شعار ہے، لوگوں کے بہترین علاج معالجے اور دل و جگر کی ٹرانسپلانٹ کے لیے دنیا کی جدید ترین مشینری و ٹیکنالوجی جنھوں نے پاکستان کے اسپتالوں میں مہیا کروا دی ہے، جب ان کے اپنے سر میں درد بھی ہوتا ہے تو وہ یورپ کے مہنگے ترین شفاخانوں میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ یہ موسمی بادشاہ پاکستانی عوام کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہیں، جن کی روحانی بلیدگی تو حرمین شریفین میں ہوتی ہے، شفا ان کو مغربی دوا خانوں سے ملتی ہے جب کہ دولت سمندر پار کمپنیوں میں اور حکمرانی پاکستان پر کر کے انہیں آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

ہم تو کہیں گے کہ جس نے بھی پاکستان میں سیاست کرنی ہے اس کے خاندان کی دولت پاکستان میں ہی ہونی چاہیے وگرنہ انھیں نااہل قرار دے دینا چاہیے۔ جب نوازشریف لندن کے ایک اسپتال میں زیرعلاج تھے تو زرداری اسی شہر کے مضافات میں ایک مساج سینٹر میں روحانی گداز محسوس کر رہے تھے‘ چوہدری شجاعت زیورچ کی ایک مالیاتی علاج گاہ میں مختلف ڈاکٹروں کے انٹرویو کر رہے تھے جب کہ چوہدری نثار بھی اہلیہ کے علاج کی غرض سے چوہدری شجاعت کے آس پاس ہی جرمنی میں کسی لاج نما اسپتال کی تلاش میں تھے۔ ان سب کی بیماریاں تقریباً ملتی جلتی تھیں مگر چوہدری نثار اس ڈایاگناسٹک مہم کا حصہ تھے جس کے لیے عمران خان نواز شریف سے کچھ ہی دور ایک مہنگے ترین ریستوران میں شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ کر رہے تھے۔

حکومت مخالف بیمار انگلینڈ میں کیوں اکٹھے ہو گئے، اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے سرتاج عزیز نوازشریف کے پاس پہنچے تو چوہدری نثار نے بھی وہاں سرپرائز انٹری دے ماری‘ اسی بہانے نوازشریف کی خیریت بھی دریافت کر لی اور جن سے معافی مانگنی تھی ان سے ان کے ہوٹل میں جا کر معافی بھی مانگ لی۔ پھر چوہدری نثار اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت کی غرض سے امریکا جا نکلے مگر فواد حسن فواد یہ ماننے کو تیار نہیں اور انہیں یقینِ کامل ہے کہ وہ نوازشریف کی پاکستان سے عدم موجودگی میں ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کی تشکیل کی ڈکٹیشن اور وزارتِ عظمیٰ کے آشیرباد کے لیے امریکن اسٹیبلشمنٹ کی ضیافتیں اُڑا رہے ہیں۔

جب نوازشریف لندن میں تھے تو ہر دو گھنٹے بعد انہیں اپنے پرسنل سیکریٹری کا فون موصول ہو رہا تھا‘ انہیں جب آخری فون موصول ہوا کہ مقتدرہ آپ کے معیوب انداز میں ملک چھوڑ کر بھاگ جانے پر برہم ہے تو نوازشریف نے فواد حسن فواد کو فی الفور لندن طلب کر لیا جنھوں نے نوازشریف کو مقتدرہ کے فیصلے سے آگاہ کیا اور انہیں میدان میں رہ کر جنگ لڑنے کے لیے پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ وزیراعظم کا لندن میں پڑاؤ کا تب تک ارادہ تھا جب تک دھرنے والے جاتی امراء اور پرائم منسٹر ہاؤس میں انہیں نہ پا کر مایوس گھروں کو نہ لوٹ جاتے مگر مہربانوں کے پیغام نے انہیں واپس آنے پر مجبور کر دیا۔

وہ جب وطن واپسی کی تیاری کر رہے تھے تو جنرل راحیل شریف کا ایک انتہائی اہم بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے پاکستان کی ترقی اور خودمختاری کے لیے ہر سطح پر بلاامتیاز احتساب کی ضرورت پر زور دیا‘ انھوں نے واضح کیا کہ ملک میں امن و استحکام کرپشن کے خاتمہ سے منسوب ہیں اور کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر دائمی دامن نہیں آ سکتا‘ آنیوالی نسلوں کو ایک پر امن ملک دینے کے لیے فوج احتساب کی ہر بامقصد کوشش کی بھرپور معاونت کریگی۔ ہماری نظر میں آ رمی چیف کے اس بیان کی ٹائمنگ انتہائی اہم تھی اور یقینا ان کا یہ بیان پاناما پیپرز میں کیے گئے انکشافات کے تناظر میں تھا۔

کچھ سیاسی نابالغوں نے اسے سیاسی بیان قرار دیکر فوج کے عزائم پر انگلی اٹھائی اور وزیر اطلاعات نے تو اپنی روایتی ڈگڈگی بجاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ کرپشن ختم کرنے کی آڑ میں کسی کو سیاست نہیں کرنے دینگے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر رکھا تھا، جس پر حزبِ اختلاف کی کوئی بھی جماعت رضامندی ظاہر نہیں کر رہی تھی، جنرل راحیل شریف نے بلاامتیاز احتساب کی بات کر کے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ اس نوعیت کے عدالتی کمیشن سے سوائے قوم کو دھوکہ دینے کے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہو پائیگا اور یہ کمیشن بھی جوڈیشل کمیشنوں کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ کرنے کے مترادف ہو گا۔

بلا امتیاز احتساب کا مطلب ہے سب کا احتساب! اس محاورے سے فوج نے ان لوگوں کو بھی پیغام دیا جن کے نام شریف فیملی کے ساتھ پاناما لیکس میں شامل ہیں‘ یہ پیغام ان کے لیے بھی تھا جن کے کیسز نیب میں پڑے ہیں‘ یہ پیغام ان کرپٹ عناصر کے لیے بھی تھا جنھوں نے پاکستان کے کسی بھی ادارے یا سیاست میں رہ کر کرپشن کی ہے۔ آرمی چیف نے احتساب کے عمل میں تعاون کی پیشکش کر کے اس تاثر کو اور بھی پختہ کر دیا کہ احتساب حکمرانوں کے بس کی بات نہیں‘ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ فوج کو احتساب آپریشن میں شریک کر لیا جائے کیونکہ جب نیب جیسا ادارہ بھی اس معاملہ میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور حکومت خود اسے مخاصمانہ نیت سے دیکھتی ہے تو پھر فوج کے علاوہ کونسا ایسا آپشن ہے جسے احتساب کے لیے استعمال کیا جاسکے۔

جو لوگ آرمی چیف کے بیان پر بھویں چڑھا رہے تھے اور طرح طرح کے تجزیے کر رہے تھے، ان کے منہ اگلے ہی روز بند ہو گئے جب جنرل راحیل نے چھ فوجی افسران کو کرپشن ثابت ہو جانے پر بیک جنبشِ قلم ملازمت سے فارغ کر دیا۔ حکمران ہنوز چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھنے کی تاریخ سوچ رہے تھے اور جنرل راحیل نے یہ کام عملی طور پر کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ آرمی نے گھر سے صفائی مہم کا آغاز کر کے حکمرانوں کو پھر ایک بار پیغام دیا ہے کہ حکومت بھی سب سے پہلے گھر سے احتساب شروع کرے‘ جب تک حکمران خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرینگے وہ کسی اور کا گریبان کیسے پکڑ سکتے ہیں۔

یہ کمیشن کارآمد نہ ہونگے جب تک حکومت اپنی نیت درست نہیں کر لیتی۔ ہم راحیل شریف کی اس بات کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ کراچی کی مثال آپ کے سامنے ہے، جہاں کرپشن اور دہشت نے دو سگی بہنیں ہونے کا ثبوت دیا‘ اور جب رینجرز نے کرپشن کی جڑیں کاٹیں تو دہشت گردی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی‘ آج کراچی کا 80 فیصد امن بحال ہو چکا ہے۔

فوج اس وقت دہشت گردی کے خلاف ملکی بقا کی جنگ میں ہمہ تن مصروف ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ دہشت گردوں کی جڑیں کرپٹ عناصر سے ملی ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر سیاسی شخصیات ہیں‘ اگر حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور بلاامتیاز احتساب سے چشم پوشی کی تو وہ وقت سالوں کے فاصلے پر نہیں بلکہ مہینوں کی بات ہے جب فوج دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب شروع کر دیگی۔

اگر فوج یہ اقدام اٹھاتی ہے تو عوام کی بھرپور حمایت اس کے ساتھ ہو گی کیونکہ ظلم و جبر، بیروزگاری، مہنگائی اور بے امنی کے ستائے ہوئے لوگ بے مقصد کاموں میں الجھے سیاسی حکمرانوں کے بجائے اب فوج کو اپنا مسیحا سمجھنے لگ گئے ہیں‘ اس وقت جنرل راحیل شریف عوام میں زبردست مقبول ہیں اور ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکمرانوں کے ستائے ہوئے مجبور و مقہور عوام اپنے نجات دہندہ کو خود ہی آواز دے اٹھیں۔ یہ آرمی چیف کے قول و عمل کی ہم آہنگی ہی تھی جس کی تپش نے وزیراعظم کو قوم سے ایک اور خطاب پر مجبور کیا۔ ان کا خطاب انتہائی غیرمتوازن، خود پر لگنے والے الزامات کے ردِعمل اور غیرمتوقع بے بسی اور غصے کے ملے جلے اظہار سے بھرپور تھا‘ اس بار پھر انھوں نے وہی روایتی رونا رویا اور بھٹو سے لے کر مشرف تک اپنے ساتھ ہونیوالے مظالم کو عزیز ہموطنو کو یاد دلایا۔

سوال یہ ہے کہ اگر انہیں قوم سے یہی کہنا تھا کہ جو الزامات ان پر آج لگائے جا رہے ہیں وہ بیس سال پرانے ہیں‘ انھوں نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے اور کمیشن میں ان پر ایک بھی الزام ثابت ہو جائے تو بلاتاخیر گھر چلے جائینگے وغیرہ وغیرہ، تو یہ ایک پریس ریلیز یا پریس کانفرنس کے ذریعے بھی کہہ سکتے تھے، اس کے لیے قوم سے خطاب کی ضرورت نہیں تھی۔ وزیراعظم کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ قوم سے خطاب انتہائی ہنگامی حالات میں کیا جاتا ہے، یا پھر وہ صحافیوں کے چبھتے سوالوں سے بچنے کے لیے بار بار خطاب کا سہارا لیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر چیف جسٹس کو جو خط لکھا گیا ہے اس کے ٹرمز آف ریفرنس کو حزبِ اختلاف کے تمام سیاستدانوں نے مسترد کر دیا ہے‘ اب اگر چیف جسٹس وزیراعظم کی خواہش پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دے بھی دیتے ہیں تو یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ چند ججز پر مشتمل کمیشن پاناما لیکس میں افشاء کیے گئے بیرون ملک خفیہ اثاثوں کی تحقیقات میں کامیابی حاصل کر سکے گا؟ اور کیا اسے اس وائٹ کالر کرائم میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے دنیا کے بہترین فرانزک آڈٹ ماہرین دستیاب ہوپائینگے؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ فرانزک ایکسپرٹ حکومت کے زیراثر آئے بغیر خفیہ اثاثوں کا پتہ لگا پائیں گے؟

وزیراعظم نے تو زبانی کلامی خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی اپنا استعفیٰ بھی قوم کو پیش کر دیتے یا اس وقت تک چھٹی پر چلے جاتے جب تک کمیشن کوئی حتمی رائے نہ دیدیتا‘ اس سے یقینا وہ عوام کی غیر معمولی ہمدردیاں سمیٹ سکتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔