چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔۔۔

شاہ حسین ترین  جمعرات 15 نومبر 2012
گیس کا گھٹتا پریشر کوئٹہ کے شہریوں کا دیرینہ مسئلہ ہے۔   فوٹو : فائل

گیس کا گھٹتا پریشر کوئٹہ کے شہریوں کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ فوٹو : فائل

کوئٹھ:  سردیاں شروع ہوتے ہی کوئٹہ میں گیس کی قلت کے مسئلے نے سراٹھا لیا ہے۔

مختلف علاقوں سے گیس کے پریشر میں کمی کی شکایات موصول ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پشتون آباد، سریاب، سیٹلائٹ ٹائون، کاسی روڈ، ہدہ، جوائنٹ روڈ، کیچی بیگ، سرکی روڈ اور شہر کے دیگر علاقوں میں صبح اور شام کے اوقات میں گیس پریشر خاصا کم ہو جاتا ہے، اور چولھے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔

موسم سرما کے اِن دنوں میں گیس کے پریشر میں کمی کے باعث ایک جانب شہریوں کو کھانے کی تیاری میں شدید مشکلات درپیش ہیں، وہیں ٹھنڈ سے محفوظ رہنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ کوئٹہ میں نومبر ہی کے مہینے سے سردی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دسمبر، جنوری اور فروری میں موسم میں شدت آجاتی ہے۔ موجودہ صورت حال کے پیش نظر عوام نے ابھی سے متبادل ایندھن کا انتظام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ متعلقہ ادارے کی جانب سے بعض علاقوں میں گیس کی نئی پائپ لائن بچھانے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سردیوں میں گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ بڑی حد تک حل کرلیا گیا ہے، مگر سردیوں کے آغاز ہی میں اگر گیس کا پریشر کم ہونا شروع ہو جائے، تو آنے والے مہینوں میں مزید بگاڑ کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔

گیس کا گھٹتا پریشر کوئٹہ کے شہریوں کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ حکام کے تمام تر دعووں کے باوجود اس برس بھی کئی علاقوں کے مکین، جو ماضی میں بھی یہ عذاب سہہ چکے ہیں، اِس مسئلے کے سبب مشکلات کا شکار ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ چند برس کے دوران اِس مسئلے میں شدت آئی ہے۔ واضح رہے کہ کوئٹہ کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں نومبر سے مارچ تک شدید سردی پڑتی ہے، جنوری اور فروری میں درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے گرجاتا ہے۔ ایسے میں اگر گیس جیسی بنیادی ضرورت نایاب ہوجائے، تو اﷲ ہی حافظ! گھریلو صارفین کے علاوہ کمرشل صارفین، ہوٹل اور تندور مالکان بھی اِس مسئلے سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتال اور طبی مراکز بھی اِس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ مریضوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عوامی حلقوں کے مطابق چند ماہ قبل شہر کے جن علاقوں میں گیس کے پائپ تبدیل کیے گئے تھے، وہاں آبادی کے حجم اور مسائل مدنظر نہیں رکھے گئے۔ اندازے کی بنیاد پر نئے پائپ بچھائے گئے، شہر کے ان علاقوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جن کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی اس مسئلے کی جانب توجہ نہیں دی گئی، اب سردیاں سر پر ہیں، اور کوئٹہ کے باسیوں کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ آنے والے سردترین مہینوں میں کیسے گزارہ ہوگا۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب کبھی گیس کا پریشر کم ہوتا ہے، متبادل ایندھن کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مایع گیس اور لکڑی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جو مسائل میں گِھرے، سردی سے ٹھٹھرتے شہریوں کے کرب کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔

کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سرد ترین شہروں زیارت، قلات اور پشین میں بھی یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اِسی وجہ سے زیارت کے صنوبر کے جنگلات ایندھن کے حصول کے لیے کاٹے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ زیارت شہر کے لیے گیس کی منظوری صنوبر کے جنگلات کے تحفظ کو بنیاد بنا کر ہی دی گئی تھی، مگر کم گیس پریشر کی وجہ سے جنگلات کا تحفظ اب خواب معلوم ہوتا ہے۔

قلات بھی انتہائی سرد علاقہ ہے۔ وہاں کے باسیوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ قلات کے سیاسی وسماجی حلقوں کے مطابق شہر میں موسم سرما کے دوران گیس بالکل غائب ہوجاتی ہے۔ اُنھوں نے متعلقہ ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ درجۂ حرارت کے نقطۂ انجماد سے گرنے سے قبل ہی اِس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔