ضرب عضب کے بعد ضرب احتساب…

موجودہ ملکی صورتحال پر آئینی ، عسکری و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
 فوٹو؛ فائل

موجودہ ملکی صورتحال پر آئینی ، عسکری و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو فوٹو؛ فائل

پاناما لیکس کے بعد سے ملک کا سیاسی ماحول کافی گرم ہے جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ہمیں دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کرپشن کے پیسے کا کسی نہ کسی طرح دہشت گردی سے تعلق نکلتا ہے۔ چند روز قبل آرمی چیف نے کرپشن کے خاتمے کے لیے بلا تفریق احتساب کی بات کی اور احتساب کرنے والوں کو تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔

جنرل راحیل شریف نے احتساب کا آغاز اپنے ادارے سے کیا اور کرپشن پر چھ فوجی افسران کوبرطرف کردیا گیا۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا اور پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کے لیے خط بھی لکھ دیا گیا۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’موجودہ ملکی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین آئینی امور نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر سجاد نصیر
(تجزیہ نگار)
بین الاقوامی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈالر بحران کا شکار ہے اور کیپٹلسٹ سسٹم میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ حالات نارمل کرسکے ۔ بیس سال میں امیر اور غریب میں بہت فرق آگیا ہے، امراء کم جبکہ غریب لوگ زیادہ ہیں اور اس غربت کو دہشت گردی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ چین ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے، اس نے اپنابینک تشکیل دے دیا جبکہ کچھ ممالک نے یہ کہا ہے کہ وہ ڈالر کے بجائے کسی اور کرنسی میں تجارت کریں گے۔

اس تناظر میں پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ ان پر ایک سال سے کام ہورہا تھا اور بہت سارے ممالک کے حکمران اس کی زد میں آئے ہیں۔ اب امریکی کانگریس اس حوالے سے قانون سازی کرے گی اور پاناما میں آف شور کمپنیوں کا پیسہ امریکا ودیگر ممالک میں منتقل کردیا جائے گا تاکہ ان کی خسارے میں جاتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے۔ماضی میں مغربی طاقتوں نے ہمارے ملک میں کرپشن کوسپورٹ کیا مگرپاناما لیکس کے بعد اس میں تبدیلی آگئی ہے اور امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حکومت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

مختلف ادوار میں کرپشن کو اتنا پھیلا دیا گیا کہ اب وہ سسٹم کا حصہ بن چکی ہے۔ پاناما لیکس سکینڈل کو آئے ہوئے 15دن ہوگئے ہیں مگر سول سوسائٹی اور مذہبی جماعتیں باہر نہیں نکلیں، اس کا مطلب ہے کہ کرپشن ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف تحریک کو لیڈ کون کرے گا؟ کیونکہ اس وقت ساری جماعتیں تو اقتدار میں ہیں اور اداروں میں بھی مرضی کی تقرریاں کی گئی ہیں۔

ا س وقت فوج کو سرحدپار سے خطرات کا سامنا ہے، بھارت اور افغانستان کے حوالے سے مسائل سب کے سامنے ہیں، ’’را‘‘ کا ایجنٹ بھی پکڑا گیا مگر امریکا نے بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی محاظ پر مشکل حالات کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ فوج ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن بھی کررہی ہے جبکہ سول ملٹری تعلقات بھی سب کے سامنے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں فوج تمام معاملات نہیں دیکھ سکتی۔ خرابیاں بہت زیادہ ہیں، فوج اس گند میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے چند مخصوص بڑے کرپٹ افراد کیخلاف کارروائی کرے اور بعدازاں اصلاحات لاکر اداروں کو فعال بنایا جائے جو اس کام کو مکمل کریں۔

پروفیسر ہمایوں احسان
(تجزیہ نگار)
یہ کہنا غلط ہے کہ آف شور کمپنیاں جائز ہیں، یہ تو ایک لیگلائزڈ برائی ہے اور بڑی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے ابھی تک اس حوالے سے قانون سازی نہیں ہوئی لیکن اب ترقی یافتہ ممالک نے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں گے۔ پہلے برائیاں اخلاقی ہوتی ہیں لیکن بعد میں قانونی شکل اختیار کرلیتی ہیں تاہم کسی بھی قیادت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرے۔ پاناما لیکس کے 199لوگوں کا احتساب فوج کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن اسے چاہیے کہ پہلے بنیادی اکائی کا احتساب کرے اور بعدازاں اس کا دائرہ کار پھیلایا جائے۔

فوج نے کہا کہ سہولت کار وں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے لیکن سہولت کار تو قانون کی پکڑ میں نہیں آتا کیونکہ اگر وہ کسی مجبوری میں ان کی مدد کررہا ہے تو وہ بری ہوجائے گا لیکن اگر وہ ان دہشت گردوں کو پالنے والا ہے تو وہ ان دہشت گردوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا اور آسانی سے قابو نہیں آئے گا۔ جے آئی ٹی اور تفتیش کے دیگر نظام کرپٹ لوگوں کو سپورٹ کررہے ہیں لہٰذا میرے نزدیک معاملات کی بہتری کے لیے فوج کو تفتیشی نظام میں شامل ہونا ہوگا۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں وقت کم رہ گیا ہے، عوام اس پر پریشان ہیں کہ ان کے بعد معاملات کیسے ہوں گے لہٰذا آرمی کو چاہیے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی دے کر عوام کو مطمئن کرے۔

ملک کی چھ بڑی سیاسی جماعتیں کرپشن میں ڈوبی ہیں اور سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے معاملات خراب ہیں۔ کراچی آپریشن اور چھوٹو گینگ کے معاملے میں سول حکومت کا کردار منفی ہے، مقامی سیاسی قیادت پر ان کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا ہے، میں مقامی کا لفظ ہدف کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہاں گورننس اتنی بہتر ہے کہ مقامی قیادت تو 5روپے کی کرپشن نہیں کرسکتی لہٰذا یہ سیاسی قیادت ہے مقامی نہیں۔ یہاں مفاد کا معاملہ ہے اور سیاستدان اپنے مفادات پر مبنی سیاست کررہے ہیں۔میرے نزدیک کسی بھی کمیشن کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک فوج اس کی نگرانی نہیں کرے گی۔ اس وقت عوام احتساب چاہتے ہیں، اگر ہم نے یہ وقت ضائع کردیا اور کرپشن کے خاتمے کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرسکے تو ڈر ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں ہمیں اپنی من مانی شرائط لگا کر پابندیوں میں جکڑ دیں گی۔

بریگیڈئیر(ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)
بدقسمتی سے ہماری قیادت میں ویژن نہیں ہے، ان کے فیصلے ان کے اپنے گرد گھومتے ہیں اور وہ خود کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں سسٹم مضبوط ہوتا ہے اور وہ کمزور لوگوں کو ساتھ لیکر چلتا ہے مگر ہمارے ہاں سسٹم بھی آلودہ ہے اور قیادت بھی۔

یہ آلودگی صرف سیاست میں ہی نہیں بلکہ ہمارے اداروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ افسوس ہے کہ ابھی تک ہم نے ملکی مفاد میں کوئی جامع قومی پالیسیاں نہیں بنائیں تاکہ مسائل کو حل کیا جاتا ، میرے نزدیک یہ قیادت کی نہیں بلکہ سسٹم کی ناکامی ہے۔ گزشتہ 13سال سے ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے، ضرورت یہ تھی کہ ہم پہلے ہی انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی بناتے جس میں کرپشن اور دہشت گردوں کی فنڈنگ بھی شامل کی جاتی۔ چونکہ ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی اس لیے یہ چیز سسٹم میں شامل ہوگئی اور پھر ایان علی کیس سمیت منی لانڈرنگ کے دیگر کیس سامنے آئے ۔ یہ چیزیں آہستہ آہستہ اس نہج پر پہنچ گئی ہیں کہ آرمی چیف کو یہ بیان دینا پڑاکہ کرپشن کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہوگی۔

میرے نزدیک پاکستان میں بلا تفریق کارروائی ممکن نہیں ہے ۔پاناما لیکس میں صرف نواز شریف کے بیٹوں کا نام نہیں بلکہ ان کے علاوہ 199 افراد کا نام سامنے آیا ہے، مگر افسوس ہے کہ اسے صرف سیاسی مسئلہ بنادیا گیا اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آمنے سامنے ہو گئے جبکہ باقی سب لوگ ایک طرف چلے گئے۔اہم بات یہ ہے کہ ان 199 لوگوں کا احتساب کس نے کرنا ہے؟ ان میں تو بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ ان کا احتساب توحکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر حکومت ان کا احتساب نہیں کرتی تو یہ ملک کے ساتھ غداری ہوگی۔آف شور کمپنیاں غلط کام نہیں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان میں لگایا گیا پیسا کس طرح کمایا اور کس طریقے سے وہاں پہنچایا گیا، کہیں اس میں ٹیکس چوری تو نہیں کی گئی۔

بدقسمتی سے اب باقی کے 199لوگوں کو معصوم قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے لہٰذا جب اس طرح کے حالات ہوں گے تو آرمی چیف کو ایسا بیان دینا پڑے گا۔ اس وقت امریکا کو پیسے کی ضرورت ہے لہٰذا معیشت کو بہتر کرنے کے لیے پاناما لیکس، امریکا کی سازش ہے اور اب وہ آف شور کمپنیوں میں موجود 3ہزار ٹریلین ڈالر ضبط کرلے گا اور اس طرح اس کی معیشت کو سنبھالا مل سکے گا۔

یہ معاملہ ابھی یہیں نہیں رکے گا بلکہ ابھی اس کی ایک اور قسط آنے والی ہے جبکہ لیکس میں سامنے آنے والوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے ہم پر بھی عالمی دباؤ بڑھے گا۔ آرمی چیف نے احتساب کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے کسی کو لٹکا دینا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وسائل کے ساتھ ساتھ جو ڈیٹا فوج کے پاس موجود ہے وہ بھی ان اداروں کے ساتھ شیئر کیا جاسکتا ہے۔اب سول سوسائٹی اور عوام کو بھی اپنے حق کے لیے کھڑے ہونا ہوگا لیکن اگر عدالتیں ، ادارے اور لوگ یونہی سوتے رہے تو ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

ڈاکٹر زمرد اعوان
( پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج)
2014ء کی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے 174 ممالک میں سے پاکستان کا126 واں نمبرہے اور نیب کے تحت 12بلین روپے کی کرپشن روزانہ ہورہی ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے آرمی چیف کے بیان کے تین پہلو ہیں، پہلا یہ کہ کرپشن کا تعلق دہشت گردی سے ہے، دوسرا انہوں نے بلا تفریق احتساب کی بات کی اور تیسرا یہ کہ فوج کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں کو تعاون فراہم کرے گی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرپشن کا تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے۔

دنیا بھر میں کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے پیسے کا تعلق دہشت گردی کے ساتھ جڑا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ تعلق کس حد تک ہے۔ پاکستان میں بلاتفریق احتساب کا جائزہ لیںتو ایفیڈرین سکینڈل، حج سکینڈل، ایان علی اور اوگرا سکینڈل میںوزراء کے نام سامنے آئے لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میگا سکینڈل میں کون لوگ ملوث ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری عدالتیں ہمیشہ سے انہیں رعایت دیتی آئی ہیں جو بلاتفریق کارروائی پر سوالیہ نشان ہے۔

اگر سولین ادارہ کرپشن کررہا ہے تو سولین حکومت کا احتساب کرنے اور حکومت ہٹانے کا آئینی طریقہ کار موجودہے جو سول حکومت کی طرف سے نہیں اپنا گیا جس کی وجہ سے خلاء پیدا ہوا جسے پر کرنے کے لیے آرمی چیف کی جانب سے کرپشن کیخلاف کارروائی کا بیان آیا ہے میرے نزدیک یہ سول حکومت کی ناکامی ہے ۔ پاناما لیکس کے مسئلے پر اپوزیشن میں اتفاق نظر نہیں آرہا ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ق) و دیگر جماعتوں سے کسی بڑے اقدام کی توقع کی جارہی تھی مگر انہوں نے پی ٹی آئی کو رائے ونڈ دھرنا نہ دینے کا کہا ہے۔

ہمارے ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا نام کرپشن کے کیسز میں آیا ہے مگر وہ اس ملک پر حکمرانی کررہی ہیں لہٰذا یہ جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔پاناما لیکس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے دو مرتبہ قوم سے خطاب کیا اور ان کی تقریر کے تین پہلو ہیں۔ اول یہ کہ انہوں نے میڈیا کوتھریٹ کیا کیونکہ میڈیا نے پاناما لیکس سمیت پراپرٹی کے معاملات کو بھی ہائی لائٹ کیا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے عمران خان کے الزامات پر وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ ان کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ سول ‘ملٹری قیادت ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہے۔

الیکشن کمیشن نے سیاستدانوں کے اثاثے جاری کرکے پاناما لیکس کے معاملے کو نیوٹرلائز کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ آرمی چیف نے اپنے گھر سے احتساب شروع کرکے کرپشن کے خاتمے کی کوشش کی ہے۔

وزیراعظم خطاب کرکے خود کو مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں، اگر وہ اس میں ملوث نہیں ہیں تو ان کو اس طرح صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بحرحال ان کے خاندان کا نام اس میں آیا ہے اس لیے وزیراعظم کا تعلق اس لیکس سے بنتا ہے۔ میرے نزدیک حکومت اگر اگلے 15سے بیس دن میں دانشمندی کا مظاہرہ کرے گی تو بچ سکتی ہے۔ تمام مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم کو چاہیے کہ استعفیٰ دے دیں اور پھر قومی حکومت بنائی جائے۔

جس کی ایما پرکمیشن تشکیل دیا جائے جوشفاف تحقیقات کرے۔ وزیراعظم نے عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کتنے دن بعد اس کی رپورٹ آئے گی اورکب شائع کی جائے گی۔ وزیراعظم کے لیے مشکل حالات ہیں کیونکہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں مل رہی، بلاول بھٹو نے بھی اپنے ٹویٹ میں نواز شریف کو مستعفی ہونے کا کہا ہے۔ وزیراعظم نے عمران خان کے خلاف بلیم گیم شروع کردی ہے جو کسی بھی طور درست نہیں بلکہ یہ بطور سیاستدان اور لیڈر ان کے وقار کو خراب کرے گی۔

سلمان عابد
(دانشور)
پاکستان کو درپیش بڑے مسائل میں سے کرپشن اور مافیا پر مبنی سیاست ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جنرل راحیل شریف شروع دن سے ہی کرپشن کو سیاست سے الگ کرنے اور کرپشن اور دہشت گردی میں لکیر کھینچنے کی بات کررہے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں کرپشن کا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہورہا ہے اور دہشت گردوں کو مالی، سیاسی اور انتظامی مدد ملتی ہے جس کے بغیر وہ اپنی کارروائیاں نہیں کرسکتے۔

جمہوری حکومتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر مسائل حل کریں گے اور دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ جمہوری حکومتیں مسائل کے حل کا حصہ ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری حکومتیں تو خود مسائل کا حصہ ہیں۔ افسوس ہے کہ ہماری حکومت نے کرپشن کے معاملے کو چھیڑا ہی نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت شفاف احتساب کی جو بات ہوئی اس پر بھی کوئی کام نہیں ہوا لہٰذا اب جو خلاء سیاسی حکومتوں نے پیدا کیا ہے وہ کسی نے تو پورا کرنا ہے ،اس کے لیے چاہے آؤٹ آف دی باکس ہی کیوں نہ جانا پڑے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ مسلم لیگ (ن) وفاق اور پنجاب میں،پیپلز پارٹی سندھ ، تحریک انصاف خیبرپختونخوا جبکہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی حکومت میں ہیں اور یہ جماعتیں اپنی اپنی سطح پر کرپشن کے خلاف شور مچاتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں حکمران جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کی کرپشن کی فائلیں ہیں، الزامات بھی لگائے جاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف احتساب کیوں نہیں کیا جاتا ؟ افسوس ہے کہ کرپشن کو بطور ’’ٹول‘‘ استعمال کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سیاست کرپشن زدہ ہے۔ اب بلا تفریق احتساب کی بات کی جارہی ہے تو سوال یہ ہے کہ احتساب بلا تفریق کیسے ہوگا؟ کیونکہ کرپشن نے توسب کو اس کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاستدان، فوجی، بیوروکریٹس، جج، صحافی، بزنس مین، سرمایہ دار سمیت سب لوگ کرپشن کی سیاست کا حصہ بنے ہیں تو بھر احتساب کیسے ہوگا اور بلاتفریق احتساب کون کرے گا۔

میرے نزدیک اس کا حل قانون کے دائرے میں رہ کر نہیں ہوسکتا۔ جنرل راحیل شریف کے کرپشن کے خلاف اقدامات کے پیچھے میرے نزدیک دوطرفہ پریشر ہے۔ ان پر فوج کے اند اور باہر سے بھی پریشر آرہا ہے،اس کے علاوہ ان کی ریٹائرمنٹ میں وقت کم جبکہ کام زیادہ ہے اور اس میں سیاسی مداخلت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے کراچی میں سیاسی مخالفت ہوئی اور پھر پنجاب میں بھی حکومت آپریشن کے لیے تیار نہیں تھی لیکن اب سب نے دیکھ لیا کہ چھٹو گینگ کتنا بڑا خطرہ تھا۔جب سندھ میں آپریشن ہوا تو بلاتفریق آپریشن کا پریشر بڑھتا گیا کہ پنجاب میں آپریشن کیوں نہیں ہورہا جبکہ پنجاب حکومت خود کو معصوم بنا کر پیش کررہی تھی۔

جب یہ پریشر بڑھا، نیب متحرک ہوئی تو سب نے دیکھا کہ کس طرح اسے چپ کرادیا گیا۔ کافی عرصہ سے یہ بحث ہورہی تھی کہ فوج احتساب سے بالاتر ہے اور سیاسی فریقین سوال اٹھاتے تھے کہ ہمارے احتساب کی تو سب بات کرتے ہیں لیکن طاقتور طبقات اور فوج کے احتساب کی بات کوئی نہیں کرتا۔جنرل راحیل شریف نے سب سے پہلے فوج کے اندر سے احتساب شروع کرکے تمام سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب فوج سمیت کوئی بھی احتساب سے بالا تر نہیں ہوگا۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فوج نے نہ صرف کڑا احتساب کیا ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی کی ہے۔چند دن قبل جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ کرپشن کو ختم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اب انہوں نے اس کا عملی نمونہ پیش کردیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں، قیادت اور حکومت، فوج کے احتساب کے بعد خو دکو احتساب کے لیے پیش کریں گی اور اس عمل کو بڑھایا جائے گا؟ یہ سوال ابھی بھی مبہم ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اس سے بچنے کی کوشش کررہی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے فوج نے ضرب عضب کیا ہے‘ اسی طرح اب ضرب احتساب کے عمل کی قیادت بھی فوج نے سنبھال لی ہے۔حکومت پہلے بضد تھی کہ ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن بنائے گی لیکن تمام سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کے دباؤ پر حکومت کو اب چیف جسٹس کو خط لکھنا پڑا جس میں ٹی او آر بھی لکھ دیے گئے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس اس پر متفق ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ٹی او آرقبول نہیں کرتے تو ایک نیا ڈیڈ لاک پیدا ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف یہ کہہ رہی ہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کے بغیر احتساب نہیں ہوسکتا، لگتا ہے کہ یہ معاملہ عدالتی جنگ سے زیادہ سیاسی جنگ کی نظر ہوگا جبکہ حکومت اور وزیراعظم پر دباؤ بڑھے گا۔ عمران خان ایک لہر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہم کڑے احتساب کے حامی ہیں اور آرمی چیف کے احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس مرتبہ جنرل راحیل شریف نے کرپشن کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا بلکہ انہوں نے عمومی طور پر بات کی اور یہ بھی کہا کہ جو بھی اس کے خاتمے میں آگے آئے گا ہم اس کا ساتھ دیں گے ۔

میرے نزدیک پہلا مسئلہ کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ اداروں کی آزادی کا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے بندر بانٹ کے ذریعے اداروں کو مفلوج کردیا ہے۔ ہم کینسر کے مرض کا علاج ڈسپرین کی گولی سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب اگر حکومت نے احتساب کے عمل کا آغاز نہ کیا تو پھر ہمیں کڑوی گولی کھانا پڑے گی۔ کرپشن کے معاملے پر پیپلز پارٹی نے بہت زور و شور سے بات کی لیکن جیسے ہی یہ معاملہ آصف زرداری کی کورٹ میں گیا تو سب خاموش ہوگئے ۔ عمران خان کرپشن کے معاملے کو کس حد تک لیڈ کرسکیں گے یہ ایک اہم سوال ہے لیکن جو بھی جماعت کرپشن کے خلاف آگے آئے گی اسے سیاسی طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ عوام بلاتفریق احتساب چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔