اے بہن مجھے معاف کردو!

عارف رمضان جتوئی  پير 25 اپريل 2016
کیا کبھی سوچا ہے تم نے کہ آج اگر ایک بہن اور ایک بیٹی کے ساتھ بُرا ہوگا تو کل پوری نسل اپنی قسمت پر آنسو بہائے گی؟

کیا کبھی سوچا ہے تم نے کہ آج اگر ایک بہن اور ایک بیٹی کے ساتھ بُرا ہوگا تو کل پوری نسل اپنی قسمت پر آنسو بہائے گی؟

کراچی کے علاقے قیوم آباد میں ڈی ایچ اے بائی پاس کے قریب دو محافظوں نے شہر کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنے کی غرض سے ناکہ لگایا ہوا تھا۔ اتنے میں انہیں ایک مشکوک رکشہ نظر آیا جسے انہوں نے روکا اور اسنیپ چیکنگ کی تو شک یقین میں بدل گیا۔ اس میں معاشرے کی ستائی ہوئی صنف نازک سوار تھی، عورت ہونا بھی شاید ایک قصور ہے اور یہی قصور اس وقت ان دونوں اہلکاروں کو بھی نظر آگیا تھا اور پھر وہ اپنے ہوش انسانی کھو بیٹھے اور آن کی آن میں عزت تار تار ہوگئی۔

متاثرہ خاتون کے گھر والوں نے کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے میں پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت کی، جس کے بعد پولیس نے دونوں اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا۔ گزشتہ دنوں پیش آنے والا یہ واقعہ ناجانے کیوں ہر پولیس اہلکار کو دیکھتے ہی یاد آنے لگ جاتا ہے۔

بہت عرصہ قبل ایک واقعہ ایک طالبہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ جمعہ کے روز دوپہر 12 بجے کی وقت زہرا اپنے کالج سے باہر نکلی اور پاس کھڑے ایک رکشے والے کو ہاتھ کے اشارے سے بلا کر دھیمی سی آواز میں اسے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور بڑے آرام سے رکشہ میں بیٹھ گئی۔ ڈرائیور نے رکشہ اسٹارٹ کیا اور زہرا کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ڈرائیور کی نظریں رکشے کے شیشے سے بار بار زہرا کے معصوم اور خاموش چہرے پر پڑتیں اور پھر ہٹ جاتیں۔ وقفے وقفے سے یہ سلسلہ بھی رکشے کی طرح چل رہا تھا۔ زہرا بے خبر اپنے گھر کے آنے کا انتظار کررہی تھی اس نے ایک مرتبہ بھی ڈرائیور کی للچائی ہوئی ہوس زدہ نظروں کا کوئی مطلب اخذ نہیں کیا تھا۔

اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک لمحہ بھر کے لئے ڈرائیور دِکھنے والا شیطان صفت یہ انسان اس کی زندگی میں تلاطم برپا کردے گا، اور اس کے ہنستے کھیلتے چہرے کو نیم مردہ کردے گا۔ بس پھر وہ کچھ ہوا کہ جس کا معصوم زہرا نے اپنے تصور میں بھی نہیں سوچا تھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ کراچی کے امیر ترین علاقے ڈیفنس میں اپنی قیمتی ترین چیز گنوا چکی تھی۔ نشے کی حالت میں زہرا اپنے ساتھ بیتے ناقابل سماعت جملوں کو مشکل سے جوڑ جوڑ کر بتارہی تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں جب اسے ڈیفنس میں پھینکا گیا تب وہاں سے ایک خاندان کا گزر ہوا، جس نے زہرا کو دیکھا اور متعلقہ تھانے کو اطلاع کی جس کے بعد پولیس نے زہرا کے والدین تک اس بات کو پہنچایا۔

یہ مختصر سی کہانی کراچی کے گنجان آباد علاقے نارتھ کراچی کی رہائشی 16 سالہ زہرا عباس کی ہے جو کالج سے گھر جاتے ہوئے رکشہ ڈرائیور نے گھر چھوڑنے کی بجائے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ میڈیا پر چلنے والی چند خبروں کی نتیجے میں زیادتی کے لفظ کو مبینہ کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے۔ زیادتی کے یہ کیسز دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ اگر بات ملک کی سطح پر کی جائے تو ان کیسز کی تعداد اب بڑی حد تک بڑھ چکی ہے تاہم خطے کی سطح پر ہندوستان صف اول میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے بارے میں وہاں کی فلم انڈسٹری میں ایک جملہ بڑا مشہور ہے اور وہ ہے ’’یہاں کے لڑکے جیسے چھٹے سانڈھ ہیں‘‘۔

خیر یہاں تو اپنی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، دوسروں کی بات کیا کرنی۔ زیادتی کے کیسز کبھی لاہور میں ہوتے ہیں تو اس کے اگلے روز کراچی میں سامنے آتے ہیں۔ کبھی بچی کراچی سے اغوا ہوتی ہے تو ایبٹ آباد کے پہاڑوں میں اس کا وجود ملتا ہے، کبھی فیصل آباد میں ننھی کلی کے مسلے جانے کی خبر گردش کرتی ہے۔ اغواء، زیادتی اور پھر لاش کا ملنا اب ڈراؤنا خواب بنتا جارہا ہے۔ کراچی میں اغواء کو جرائم کی دنیا میں فائدہ مند کاروبار کے طور متعارف کرایا جاتا ہے۔ یہاں کبھی اغواء برائے تاوان ہوتا ہے اور کبھی لاش ملتی ہے تو زیادتی کے نشان نمایاں ہوتے ہیں۔

آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ کہیں ہم دوبارہ جاہلیت کے دور میں تو نہیں جارہے ہیں؟ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا تھا، بچیوں کی ولادت کو باعث زحمت اور نحوست جیسے القابات سے نواز کر عورت ذات کی تحقیر کرنا معاشرتی بیماری بن چکا تھا۔ آج بھی کچھ مختلف نظر نہیں آتا، لڑکیوں کی پیدائش کو زحمت گرداننا، بیوی کو محکوم سمجھنا عام ہے، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عصمت و عزت کی پیکر معصوم بہن کا بھائی اپنی بہن کو سات پردوں میں دیکھنا چاہتا ہے مگر دوسروں کی عزت کو چوراہے میں نیلام کردیتا ہے۔

کیا ہم نے سوچا کہ ایک لڑکی کی عزت اور عصمت کے تحفظ کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے؟ ان چند جملوں کے توسط سے حکومتی ایوانوں کو مخاطب کرنے کی بجائے خود سے کچھ باتیں کرنا مقصود ہے۔ ان مسائل کا حل سوچنے سے پہلے اگر ہم اسلام سے رہنمائی حاصل کریں تو شاید ہمارے مسائل کا حل ان میں مل جائے گا۔ والدین اور سرپرست اعلیٰ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو اکیلے سفر کرنے پر مجبور نہ کریں۔ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیجئے، ان کی حفاظت کا جو ذمہ اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے اسے تندہی سے ادا کریں۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت پر خوب توجہ دیں، جو بھی اس قسم کی حرکت کرتا ہے آخر وہ کسی ماں کی گود سے پرورش پاتا ہے۔ کسی باپ کے شفقت کے نیچے پروان چڑھتا ہے۔ والدین کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن کو انہوں نے پیدا کیا ہے ان کی اخلاقی تربیت کرنا بھی ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ وہ اپنے بچوں کو کیوں بہن کی شناخت کرنا نہیں سکھاتے؟ وہ کیوں نہیں بتاتے کہ کسی کی عزت کا تحفظ دراصل اپنی عزت کی رکھوالی ہے۔

آج اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بہن کو کوئی بُری نظر سے نہ دیکھے تو اپنی نظر میں حیاء پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کبھی سوچا ہے تم نے کہ آج اگر ایک بہن اور ایک بیٹی کے ساتھ بُرا ہوگا تو کل پوری نسل اپنی قسمت پر آنسو بہائے گی۔ مجھے اپنی بہن کی وہ بات یاد ہے جب اس نے کہا بھائی فلاں جگہ کچھ لڑکے مجھے گھور رہے تھے، میں نے اسے کچھ کہنے کے بجائے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔ وہ حیران ہوئی اور پوچھا تم نادم کیوں ہوتے ہو؟ میں نے کہا بہن اگر میں کسی کی بہن کو نہ دیکھتا تو آج میری بہن مجھ سے یہ شکوہ نہ کرتی۔ اس لیے انہیں نہیں مجھے معاف کردو۔

جب سب کچھ آپ ہی ہیں تو خود کی اصلاح کیوں نہیں کرتے، بھائی ہو ناں ایک بہن کے، ہو تو بیٹے ناں ایک ماں کے، ایک بیٹی کے باپ تو ہو ناں، پھر کیوں کھلواڑ کر رہے ہو اپنی ہی عزتوں کے ساتھ؟ کیوں نیلامی اور بولی لگا دی ہے اپنی عزتوں کی؟ خدارا کچھ تو سوچیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عارف رمضان جتوئی

عارف رمضان جتوئی

بلاگر ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں اور گزشتہ سات برسوں سے کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی سے تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔