کرپشن ہوئی لیکن ثابت تم کرو!

ایاز خان  منگل 26 اپريل 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

بچپن میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بڑے اور کامیاب لوگوں کی سوانح عمری پڑھا کرو۔ والدین ایسا کہتے تو ان کا مقصد ہوتا تھا ان کا بچہ بھی بڑا ہو کر کامیابی کے آسمان کو چھوئے۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس دور کے ماں، باپ اپنے بچوں کو کیا تلقین کریں۔

وہ انھیں کون سی لیکس پڑھنے کی طرف راغب کریں۔ وکی لیکس، پانامہ لیکس (ون) جو آچکی ہے اور (ٹو، تھری) جو ابھی آنے والی ہیں۔ کیونکہ بڑے اور کامیاب لوگوں کی اکثریت ان دنوں اسی قسم کی ’’کتابوں‘‘ میں پائی جاتی ہے۔ ایسی ’’کتابوں‘‘میں پائے جانے والے بڑے لوگ اپنے بچوں کی تربیت میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہوں گے کہ وہ بڑے ہو کر ان سے بھی زیادہ کامیاب افراد بن جائیں۔ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کی بنیاد پر بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لیکس کا حصہ بننے والے تمام افراد کے بچے اگر ان سے زیادہ کامیاب نہیں تو ان کے ہم پلہ ضرور ہیں۔ کل کے کامیاب لوگ اگر اپنے بچوں سے قرض لینے پر مجبور ہیں تو پھر آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہونہار اولاد ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

پانامہ لیکس نامی نئی ’’کتاب‘‘ کا چرچا پوری دنیا میں ہے۔ یہ لیکس اب تک کئی سر لے چکی ہیں۔ بہت سی پگڑیاں مشکل میں ہیں اور متعدد شملے نیچے ہو چکے ہیں۔ فی الوقت دنیا کو اس کے حال پر چھوڑکر وطن عزیز کے ماضی، حال اور مستقبل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ان لیکس کا اتنا خوف ناک اثر ہوا ہے کہ ہمارے بڑے تمام ترکوششوں کے باوجود ان سے جان نہیں چھڑا پا رہے ۔

پانامہ لیکس کے میڈیا کی زینت بننے سے پہلے ہی ان سے نمٹنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔ حسین نواز نے نجی چینلز کو انٹرویوز میں نہ صرف لندن کے اپارٹمنٹس کی ملکیت کا اعتراف کیا بلکہ آف شور کمپنیوں کی ملکیت بھی مان لی۔ خیال یہ تھا کہ جب میڈیا میں ان لیکس کا ذکر ہو گا تو بڑے آرام سے لوگوں کو سمجھا دیا جائے گا کہ دیکھیں یہ انتہائی قانونی کام ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعظم کے بیٹے کو یہ تسلیم کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ الحمداللہ یہ سب ان کا ہے۔

حسین نواز کے بڑے بھائی حسن نواز نے 1999ء میں بی بی سی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ محض ایک کرایہ دار ہیں اور ان اپارٹمنٹس کے مالکان کا نام تک نہیں جانتے، انٹرویو لینے والے نے دعویٰ کیا کہ یہ اپارٹمنٹس دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ وہی آف شور کمپنیاں ہیں جن کا ذکر پانامہ لیکس میں کیا گیا ہے۔ حال ہی میں جب حسین نواز آف شور کمپنیوں اور جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے تھے تو ان کی ہمشیرہ مریم نواز ایک نجی چینل سے گفتگو میں بڑے پرزور انداز میں کہہ رہی تھیں کہ میڈیا والے پتہ نہیں کہاں سے ان کی اور ان کے بھائیوں کی جائیداد نکال لاتے ہیں۔ مریم بی بی نے دو ٹوک انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کی یا ان کے بھائیوں کی کوئی جائیداد نہیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی والا معاملہ ہے۔

کیا کریں کہ حسین نواز کے انٹرویو کے بعد بھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو جو کہ ایک باپ بھی ہیں میدان میں آنا پڑا‘ انھوں نے اپنے بچوں کی وضاحت کے لیے قوم سے خطاب کر دیا۔ اس خطاب کے لیے وزیر اعظم نے اپنے مصاحبین سے مشورہ ضرور کیا مگر اس کا فیصلہ وہ شاید پہلے سے کر چکے تھے۔ پانامہ لیکس کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ صرف 27دن کے عرصے میں وزیر اعظم کو قوم سے تین خطاب کرنے پڑے۔ ان میں سے ایک خطاب البتہ گلشن اقبال پارک میں دھماکے کی وجہ سے تھا جس کی تیاری کی ایک آڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر بڑے انہماک سے دیکھی جا رہی ہے۔ یہ آڈیو دیکھی تو لا محالہ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ حکومتی رٹ کتنی کمزور ہو چکی ہے۔ کسی اینکر کی آڈیو منظر عام پر آجانا اتنی بڑی بات نہیں، وزیر اعظم کے خطاب کے دوران بننے والی آڈیو کا باہر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں تھا۔

ممکن ہے یہ بھی کسی سیاسی مخالف کی کارستانی ہو۔ پانامہ لیکس البتہ مقامی سیاسی مخالفین کا کام نہیں ہے یہ بین الاقوامی مخالفین کا کارنامہ ہے۔ حکومت کے قریبی دانشور ان دنوں قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر کسی حکمران نے لوٹ مار یا منی لانڈرنگ کی ہے تو اسے نہیں پکڑاجا سکتا اس لیے بہتر ہے کہ اس کو بھلا کر آگے بڑھا جائے مگر یہ بات عمران خان کو کون سمجھائے۔ کپتان کی تحریک انصاف کے 20سال پورے ہو گئے ہیں اور وہ اب سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ عوام کی بڑی تعداد کو ساتھ ملا کر وہ وزیر اعظم نواز شریف کو وزارت عظمیٰ چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر مجھے خواجہ سعد رفیق کا وہ بیان یاد آ رہا ہے جس میں انھوں نے پھبتی کسی تھی کہ عمران خان کو بچپن سے وزیر اعظم بننے کا شوق ہے۔ عمران خان کا تو مجھے پتہ نہیں کیا بننے کا شوق تھا البتہ نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کامیاب بزنس مین، اداکار یا کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ قدرت اور جنرل جیلانی کو البتہ کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب آج تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ایک بار پھر مشکل میں ہیں۔

میاں صاحب کی حکومت اپوزیشن کا مطالبہ مان چکی ہے کہ چیف جسٹس کوکمیشن بنانے کے لیے خط لکھا جائے لیکن اب جب کہ خط لکھا جا چکا ہے تو اس کمیشن کو بننے سے پہلے ہی مسترد کیا جا رہا ہے۔ تازہ جھگڑا ٹی او آرز یعنی ٹرمز آف ریفرنس پر ہے۔ حکومت نے جو ٹرمز آف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوائی ہیں ان پر وسعت اللہ خان سے بہتر تبصرہ کون کر سکتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’شکر ہے ٹرمز آف ریفرنس میں شام کی خانہ جنگی، سعودی امریکا تعلقات میں کشیدگی‘‘، بلوچستان میں مبینہ بھارتی دہشتگردی اور ایکواڈور میں آنے والے زلزلے کے پانامہ لیکس سے تعلق کی تحقیقات کا کام شامل نہیں کیا گیا‘‘۔ ہمارے ہاں الزام پر مستعفی ہونے کی روایت نہیں ہے لیکن اپوزیشن کا یہ مطالبہ اپنے اندر خاصا وزن رکھتا ہے کہ پہلے وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور پھر دیگر کی باری آئے۔

وزیر اعظم کا 22 اپریل کا قوم سے خطاب 1993ء میں قوم سے کیے گئے خطاب کی یاد دلاگیا۔ تب انھوں نے کہا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے، اس بار کہا وہ گیڈر بھبھکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر تصادم کی راہ اپنا لی ہے۔ گذرے ہفتے آرمی چیف نے بھی کرپشن کے خلاف ایک بیان دیا تھا۔ پھر انھوں نے اپنے دو جرنیلوں سمیت 6افسروں کو کرپشن پر برطرف کر دیا۔

جنرل راحیل شریف کے اس اقدام سے سیاستدانوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا تھا۔ اب اگر اگلے چند روز میں آرمی چیف اور ان کے کور کمانڈر اپنے اثاثوں کو قوم کے سامنے رکھ دیں تو کیا ہو گا؟۔ یقینا دباؤ میں اضافہ ہو گا لیکن تصادم کی راہ چونکہ اپنائی جا چکی ہے اس لیے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ 1999ء میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹاگیا تو مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔ نواز شریف نے 2016ء میں عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات ٹھیک نہیں لگ رہے۔ اپوزیشن بھی ان کے خلاف صف بندی کر رہی ہے۔  وہ تنہا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلے دھرنے سے وہ بچ گئے تھے اس بار نوبت دھرنے تک گئی تو بچنا مشکل ہو گا۔

اس ملک کو لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنائی گئیں، سوئس اکاؤنٹس بھی بھرے گئے۔ یہ اوپن سیکرٹ ہے۔ ایسا کرنے والے سارے کردار ہمارے سامنے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ثابت کریں۔ بس یہی چھوٹا سا مسئلہ۔ کرپشن ہوئی لیکن ثابت تم کرو۔ یہی تو سب کا مطالبہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔