امن دنیا کے عوام کا حق ہے؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 16 نومبر 2012
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہر جمہوری ملک میں آئین کے مطابق معینہ مدت کے بعد انتخابات ہوتے ہیں، عموماً عام انتخابات ہر ملک کا اپنا مسئلہ ہوتے ہیں۔ دنیا کو اس قسم کے انتخابات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، لیکن امریکا میں ہونے والے عام انتخابات کو ساری دنیا بڑی دلچسپی اور امید سے دیکھتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی ایک بلکہ واحد سُپر پاور کی حیثیت سے امریکا کی پالیسیاں ساری دنیا پر اثرانداز ہوتی ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈھائی تین سو سال سے دنیا میں جو سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اس کی سرپرستی اور حفاظت کی ذمے داری بھی امریکا ہی ادا کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب نوآبادیاتی طاقتیں کمزور ہوگئیں اور نوآبادیاتی نظام ختم ہوگیا تو ان دونوں عالمی جنگوں کے نقصانات سے بچا رہنے والا امریکا ایک بڑی طاقت اور سامراجی ملک کی حیثیت سے نوآبادیاتی طاقتوں کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بدقسمتی سے سامراجی ملک چونکہ اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے توسیع پسندی کی پالیسی پر کاربند رہتے ہیں اور اس پالیسی پر عمل درآمد جنگوں اور جارحانہ کارروائیوں کے ذریعے ہی ہوتا ہے لہٰذا جارحیت سامراجی ملکوں کی پالیسی کا محور ہوتی ہے۔

امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایک سامراجی سپر پاور کی حیثیت سے نوآبادیاتی طاقتوں کی جگہ لی تو کوریا، ویت نام جیسی تباہ کن جنگوں کا محرک بن گیا جس کا تسلسل ہم آج بھی عراق اور افغانستان کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ امریکا ایک عشرے تک عراق پر قابض رہنے کے بعد واپس جاچکا ہے اور افغانستان سے 2014ء تک واپس جانے کا اعلان کرچکا ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش حکومت کا کارنامہ کہلاتا ہے اور اوباما کی 2008ء میں کامیابی کی ایک وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ امریکی عوام کو یہ اُمید تھی کہ اوباما امریکا کو عراق اور افغانستان جیسی تباہ کن جنگوں سے نجات دلائیں گے۔ اوباما حکومت نے عراق سے اپنی فوجوں کو واپس بلاکر اور 2014ء تک افغانستان سے نکلنے کا اعلان کرکے امریکی عوام کی اُمیدوں پر پورا اُترنے کی کوشش کی ہے۔ ان جنگوں نے جہاں دنیا بھر میں معاشی ابتری کی صورتحال پیدا کردی ہے وہیں امریکی عوام کو بھی معاشی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ اوباما کی کامیابیوں کے پیچھے یہی محرکات عوام کی یہی اُمیدیں ہیں۔

بیسویں صدی عالمی اور علاقائی جنگوں کے حوالے سے دنیا کی تاریخ کی بدترین صدی مانی جاتی ہے، لیکن اسی صدی میں سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، فلکیاتی سائنس اور زندگی کے مختلف شعبوں میں جن حیرت انگیز انقلابات کو متعارف کرایا ہے اس حوالے سے بھی یہ صدی دنیا کی تاریخ کی منفرد صدی مانی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اس حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین ترقی کے ثمرات سے دنیا بھر کے عوام محروم ہیں اور اس کی وجہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام اور اس کے جلو میں چلنے والی جنگیں ہیں جو دنیا کے وسائل کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کرجاتی ہیں اور ساتھ ہی لاکھوں انسانوں کے جانی نقصانات کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔ اس تباہ کاری کا اندازہ عراق اور افغانستان کی جنگوں پر خرچ ہونے والے کھربوں ڈالر اور دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کے جانی نقصانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو افغانستان کی جنگ سے ستر ارب ڈالر کا زیر بار ہونا پڑا ہے۔

امریکا کے انتخابات 2012میں باراک اوباما کی کامیابی اس حوالے سے تو دنیا کے لیے ایک اُمید کی کرن کہلا سکتی ہے کہ اوباما نے عراق سے اپنی فوجیں واپس بلاکر اور افغانستان سے اگلے دو سال کے دوران اپنی اور نیٹو کی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے، لیکن امریکا کی سابقہ حکومت نے ان دو ملکوں کے خلاف جارحانہ جنگوں کے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا اس کا ہائی پروڈکٹ دہشت گردی کی شکل میں جس طرح پھیلتا اور پھولتا جارہا ہے اس کے تباہ کن اثرات سے دنیا کو نجات دلانا آج کا ایک اہم اور خطرناک مسئلہ بن گیا ہے۔ باراک اوباما نے حالیہ انتخابات میں اسامہ کی ہلاکت کو اپنے ایک بہت بڑے کارنامے اور دہشتگردی کی جنگ میں کامیابی کے سمبل کے طور پر تو پیش کیا ہے اور اس سے امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا عفریت نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے کہ کئی مسلم ممالک اور افریقہ اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ کیا اوباما کو ان ملکوں کے مستقبل کی بھی اتنی ہی فکر ہے جتنی امریکا کے مستقبل کی؟

اس خطے خصوصاً پاکستان میں دہشت گردی کی تباہ کاریوں اور پھیلاؤ کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں سچل رینجرز ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کی خبریں اور اس حملے سے ہونے والی تباہ کاری کے مناظر ٹی وی چینلز پر دکھائے جارہے تھے جس میں اس عمارت کی تباہی کے علاوہ 3 افراد کے جاں بحق ہونے اور 21 افراد کے زخمی ہونے کی خبریں آرہی تھیں۔ پاکستان افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پھیلتی بڑھتی دہشت گردی کے تناظر میں اوباما کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے القاعدہ کو ختم کردیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ جیت لی ہے،ایں خیال است ومحال است جنوں…کے علاوہ کچھ نہیں۔ امریکا نے افغانستان پر امریکی قبضے نے ہزاروں اساماؤں کو جنم دیا ہے جو افغانستان سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔

انتخابات جیتنے کے بعد اوباما نے اعلان کیا ہے کہ اب دس سالہ جنگ کا دور ختم ہوگیا ہے۔ ان جنگوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا کے مسائل جنگوں سے نہیں بلکہ پُرامن بات چیت سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’امن دنیا کے انسانوں کا حق ہے‘‘ بلاشبہ اوباما کے یہ اعلانات ساری دنیا کے لیے بڑے امید افزا ہیں اور اس حوالے سے بھی خوش کن ہیں کہ اوباما کے حریف رومنی اپنی انتخابی مہم کے دوران جارحانہ پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں جسے بُش حکومت کی پالیسیوں کی اتباع کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ رومنی کے مقابلے میں اوباما کی پالیسیاں بلاشبہ امید افزا ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علاقائی تنازعات، دہشت گردی کے فروغ کا سبب بننے والے مسائل کے حل کے بغیر، ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے کلچر کے خاتمے کے بغیر اور طبقاتی استحصال کے ظام کو ختم کیے بغیر دنیا میں امن اور خوشحالی کا تصور کس طرح ممکن ہے؟ دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر کی حیثیت سے دنیا اوباما سے ان سوالوں کے جواب مانگتی ہے اور آنے والے چار سالوں میں دنیا کے عوام کو ان سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے، لیکن کیا اوباما سنجیدگی اور خلوصِ نیت سے ان سوالوں کے جواب دیں گے یا یہ سوال انتخابی دھند میں غائب ہوجائیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔