چلوچلو‘ گوادر چلو

عابد میر  منگل 26 اپريل 2016
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

گوادرکا نام آتے ہی بیرونِ بلوچستان احباب کے ہاں ایک ایسے مقام کا نقشہ گھوم جاتا ہے جو اگر دبئی نہیں، تو اس سے ملتی جلتی کوئی چیزضرورہوگی۔ ایک زمانے میں تو اس کے دبئی بننے کی خبریں یوں عام تھیں، جیسے افغانستان کے ثور انقلاب کے بعد پاکستان میں سرخ انقلاب کے زعم میں بقول شخصے، سرخوں نے سرحد کے اِس پار بعد از انقلاب وزارتیں تک تقسیم کرلی تھیں۔

گوادرکا نام بھی مارکیٹ میں ابھی دس پندرہ برس قبل کچھ ایسا چلا کہ لاہور، اسلام آباد سے لوگوں نے مہنگے داموں پلاٹ خرید لیے۔ ایک ریلہ سا چل پڑا۔کراچی، لاہور،اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر، جنھوں نے خود کبھی گوادر میں قدم نہ رکھا تھا،گوادر کی زمین کا سودا کرنے لگے۔ اس مافیا کے دکھائے سبزباغ کے ہاتھوں آدھا پاکستان لٹ چکا ہوتا، اگر یہاں کچھ گروہوں کی بغاوت نے سر نہ اٹھایا ہوتا۔ سن دو ہزار چار میں گوادر میں تین چینی انجینئرز کا قتل وہ پہلا واقعہ تھا، جس کے ساتھ ہی پہلی بلوچ مزاحمتی تنظیم کا ظہور ہوا اور بلوچستان ایک نا ختم ہونے والی آگ میں دھکیل دیا گیا۔

یوں حالیہ بغاوت کا آغاز جس گوادر سے ہوا، وہ گوادر مگر اس تحریک کا مرکز کبھی نہ رہا، بلکہ یہ مرکز اس کے پہلو میں واقع تربت کی طرف منتقل ہوگیا۔ شاید اس لیے بھی کہ اہلِ گوادر استحصال   کے مفہوم سے ابھی آشنا ہی نہ تھے۔ وہ تو جب سے اس جغرافیے میں آئے تھے، اسی بھوک اور بدحالی میں رہ رہے تھے۔ بھوک کا اصل احساس تو شکم سیری کے بعد ہوتا ہے نا۔ یا لذیذ طعام کو دیکھ کر ہی اشتہا بڑھتی ہے۔ سو‘ ایسا ہی ہوا۔ یہ تو ایک آمر کے عہد میں تیزی سے بنے کوسٹل ہائی وے نے اسی برق رفتاری کے ساتھ یہاں کے عوام کے سماجی سیاسی رویوں کو بدل ڈالا۔ لوگ زندگی کی تعیشات سے آگاہ ہوئے۔ سمندر میں گھری، مچھیروں کی اس بستی کو ایک نیا جیون دان ملا۔

یہ سادہ لوح مگر کب جانتے تھے کہ یہ مایا جال ان کی آسائشوں کے لیے نہیں، ان کے پیروں تلے زمین کھینچنے کے لیے بنا جا رہا ہے۔ تبھی تو گوادرکو، دبئی بنانے کی سعی تو ہوتی رہی، مگر عوام کے دکھوں کا کوئی مداوا نہ ہوا۔ دنیا بھر میں اس کے نام کا ڈنکا بجانے والے پورٹ کے فنکشنل ہونے تک یہاں کے عوام کو بجلی جیسی بنیادی سہولت میسر نہ آ سکی۔ وہ تو جب اہل اقتدار کو اس شہر میں اپنی کمیں گاہیں تعمیرکرنا پڑیں تو بجلی کے کھمبے اور تاریں بھی ان کے ساتھ آ گئے۔

اب جب کہ ایک خون ریز دہائی کے بعد اس کی اقتصادی راہداری کی بنیاد رکھی جا چکی تو پانی جیسی ایک اور بنیادی ضرورت اس شہرِ ناپرساں میں اب تک ناپید ہے۔ یہ کیا تماشا ہے کہ جس روز  اقتصادی راہداری کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے گوادرکو ، اسلام آباد کے طرز پر خود مختار بنانے کی جا رہی تھی، عین اسی لمحے گوادر سے العطش، العطش کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ گوادر میں پینے کے پانی کی نایابی ملک کے اہم ترین ذرایع ابلاغ میں اب تک ایک منٹ کی خبر کی جگہ بھی نہیں بنا سکی۔ کیا ’خبر‘ محض سانحہ گزرجانے کے بعد ہی ممکن ہے؟

سوشل میڈیا پہ کسی دل جلے گوادری نے لکھا، کل گوادر میںمیرے ایک دوست کی گاڑی کے سامنے ایک عورت آئی اور صدا لگائی،’’خدا کے نام پہ، پانی کی ایک بوتل دے دو‘‘ اور مقامی اخبارات میں یہ خبر بھی دب کر ہی رہ گئی، جو اپنی خبریت کے باعث خصوصی اسٹوری بن سکتی تھی کہ گوادر میں ایک گھر سے چور پانی کے درجن بھرکین چوری کر کے لے گئے۔’العطش‘ کی صدائیں دیتے، پانی کی بوند بوندکو ترستے اسی گوادر میں اب  ملک بھر کے سیاسی، معاشی اور صحافتی عامل، کامل یکجا ہوئے۔ عام گوادریوں کے لیے ممنوع قرار پائے علاقے کے پنج ستارہ ہوٹل میں نشستن، گفتن، برخاستن کا شان دار مظاہرہ ہوا۔ سال بھر میں گوادرکی قسمت بدل دینے کے اعلانات دہرائے گئے۔ امن وامان کے قیام کا دعویٰ بھی ببانگِ دہل ہوا۔

گوادرکے نام پر،گوادر کے دامنِ کوہ میں ملک بھر کے سیاسی، معاشی اور صحافتی عامل کامل جب پر تکلف ظہرانے اڑا رہے تھے،گوادر کے ساحل سے رزق کماتے ماہی گیر کے گھر میں کھانے کو معمول کی مچھلی کے سوا کچھ نہ تھا۔اس کے دام میں آئی سبھی اعلیٰ نسل کی مچھلیاں مہمانوں کی خاطر تواضع کو پنج ستارہ ہوٹل پہنچا دی گئی تھیں۔گوادر کے ماہی گیر اس روز بھی اس خدشے کے ساتھ شب بھر جاگے کہ ان سے کہیں ان کا ساحل چھین نہ لیا جائے… کہ جب بھی دامنِ کوہ میں واقع پنج ستارہ ہوٹل میں ضیافتیں ہوئیں،گوادرکے ساحل کی سوداگیری کے قصے ہی سننے کو آئے۔گوادرکے ساحل پہ اُس روز بھی لہریں سر پٹختی رہیں، سر ساحل سیلفیاں لینے والوں کو مگر سمندر کی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ ان سلیفیاں لینے والوں میں سے کسی نے ماہی گیر، کسی راہ گیر سے ہی کوئی حال  نہیں پوچھا۔ کوئی رات کے اندھیرے میں غریب گوادریوں کے گھروں میں راج کرتی تاریکیوں میں نہ اترا۔ کسی کو دن کے اجالے میں جنت بازار سے بس اڈہ تک سفرکر کے اصل اور حقیقی گوادر کو دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ پنج ستارہ ہوٹل کی ضیافت بھی کیا چیز ہے۔ معدے میں نہ جانے ایسا کیا اتار دیتی ہے کہ ارد گرد کوئی بھوکا نظر ہی نہیں آتا۔

سو‘دو روز کی پر لطف دعوتیں لے کر عامل،کامل صحافی واپس لوٹے توگوادر کا وہی نقشہ بیان کیا، جو دامنِ کوہ میں واقع پنج ستارہ ہوٹل کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے سے نظرآسکتا ہے۔ حالاں کہ ایک تصویر اس ہوٹل کے اندر بھی موجود تھی، ایک اسٹوری ہوٹل کے دروازے کے اندر بھی ہوسکتی تھی۔ کوئی صحافی اگر آگے بڑھ کر ‘ہر مہمان کے لیے نہایت تعظیم سے دروازہ کھولنے والے روایتی بلوچی لباس میں ملبوس دربان سے ہی بات چیت کر لیتا۔ کوئی اُس سے بس حال احوال ہی دریافت کر لیتا، گھر بار اور بچوں کی خیریت ہی معلوم کرلیتا، آدھے گوادرکا حال معلوم ہوجاتا۔ ایک طرف گھر کا چولہا جلانے کو ہر آئے مہمان کو بلوچی وش آتک کرنے کو تیار یہ دربان اور دوسری جانب گوادر کے سوداگروں کے آگے بچھے ہوئے حرص کے مارے ہمارے حکمران، تصویر میں موجود لباس اور مرتبے کے فرق کو ذرا دیر کے لیے بھول جائیے تواِن دونوں کے مابین فرق بھی شاید بھول جائے ۔

چلیے اسلام آباد کے صحافیوں نے جو دیکھا ‘سو لکھا۔بلوچستان کے صحافیوں کا علم اورخلوص کیا ہوا؟ اس پرلطف ضیافت کے لیے بلوچستان کے سینئر اور نوجوان صحافیوں میں سے چن چن کر نہایت عامل،کامل صحافی منتخب کیے گئے تھے۔ کوئی آٹھ چیندہ صحافیوں کے حصے میں یہ اعزاز آیا۔ واپسی پہ پریس کلب میں اگلے کئی روز اسلام آباد کے صحافیوں کی ان تحریروں کی تحقیر میں گزرے کہ جنھوں نے گوادرکا غلط نقشہ کھینچا تھا، مگر کسی سے اتنا نہ ہوا کہ خود ہمت کرکے وہاں کا اصل نقشہ ہی بتا دیتا۔ کچھ لوگ اپنی کارکردگی یوں بیان کرتے رہے کہ فلاں کو ہاتھ سے پکڑ کر ایسا کہا، فلاں کو ڈنر پہ ایسا سنایا، فلاں  کے ساتھ لنچ پہ ایسی بات ہوئی…حالاں کہ سنا اور پڑھا تو یہی تھا کہ جیسے جج حضرات سے متعلق مشہور مقولہ ہے کہ اچھا جج خود نہیں بولتا،اس کا فیصلہ بولتا ہے۔

ایسے ہی اچھا صحافی خود نہیں بولتا، اس کی’خبر‘ بولتی ہے۔ بلوچستان میں تو ایک عرصہ ہوا کہ خبر،خاموشی کا لبادہ اوڑھے اخبارات کے قبرستان میں دفن ہوچکی۔ یہاں پریس ریلیز ہی اب خبر ہی کہلاتی ہے۔بلوچستان کرپٹ ترین وزرا کا صوبہ ہونے کے باوجود،کبھی کسی وزیرکی کرپشن کی ’خبر‘ آپ نہیں سنیں گے۔ کسی ادارے، کسی بیورو کریٹ، کسی سیاست دان، کسی سردار، کسی نواب سے متعلق کوئی اسٹوری فائل نہ ہوگی۔ ایسے میں بھلا کس مائی کے لال میں یہ جرأت کہ گوادر سے ’خبر ‘ لے آئے۔سرکارکے جہاز اور پنج ستارہ ہوٹل کی ضیافتوں میں ’خبر‘ نہیں ملتی، بس گوادر یاترا ہوجاتی ہے۔ وزیروں سے، سیکریٹریوں سے تعلقات ضرور بن جاتے ہیں۔ گوادرکے حالیہ سیمینار اور اس میں صحافیوں کی شرکت و’کارکردگی‘ نے چلن یہی متعارف کروایا ہے کہ سرکار کے خرچ پہ گوادر جاؤ، پر لطف ضیافتیں اڑاؤ، سمندر کنارے سیلفیاں بناؤ، تعلقات بناؤ…’خبر‘ کو بھول جاؤ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔