مرد مومن کی تلاش

نصرت جاوید  جمعـء 16 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہم پاکستانی ہمیشہ کسی ’’مرد مومن‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کرنے کے بعد ا پنے اختیارات بھرپور طریقے سے استعمال کرے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے۔

مصیبت مگر یہ بھی ہے کہ ایک نہیں تین مرتبہ ہمیں ’’ڈنڈے والے پیر‘‘ نصیب ہوئے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی صورت میں۔ ان تینوں رہنمائوں نے اس ملک پر حکومت کرنے کی اوسطاً دس دس سال کی باریاں لیں۔ تمام تر اختیارات کے بھرپور استعمال کے باوجود انھوں نے ہمیں کہاں پہنچایا؟ اس سوال پر غور کرنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔ ہماری اکثریت مرد مومن ہی کا انتظار کرتی رہتی ہے۔

جنرل مشرف کے جانے کے بعد ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے والوں کا نیا گروہ پیدا ہوا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اب کی بار ’’مرد مومن‘‘ فوج سے نہ آئے۔ ہمہ وقت مستعد اور بے باک میڈیا کی بدولت باور کیا جاتا ہے کہ مارشل لاء کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی نے جرأت کر ہی ڈالی تو آزاد عدلیہ جو موجود ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے یہ گروہ بھول جاتا ہے کہ 3 نومبر 2007 کے دن بھی میڈیا بڑا پُر شور ہوا کرتا تھا اور آزاد عدلیہ نے کسی غیر آئینی اقدام سے روکنے کا حکم بھی دے رکھا تھا۔ اس سب کے با وجود جنرل مشرف نے ایک بار پھر آئین کو ایک طرف رکھ کر وہی کچھ کیا جس کا وہ ارادہ کیے بیٹھے تھے ۔ ٹیلی وژن کی اسکرینیں سیاہ ہو گئیں اور ججوں کے گھروں کی طرف جانے والی شاہراہ پر خاردار تاریں بچھا دی گئیں۔

ان سب اقدامات کے خلاف احتجاج کے لیے جو جلسے جلوس نکلا کرتے تھے، ان کے شرکاء کی تعداد کم از کم اسلام آباد میں کبھی 500 افراد سے زیادہ نظر نہ آئی۔ جمہوریت کی دلدادہ سیاسی جماعتوں نے ایسے مظاہروں میں حصہ لینے کے بجائے 2008کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ ان انتخابات کے نتائج باہر آئے تو اس کالم نگار نے اپنے ایک صحافی دوست کے توسط سے آصف علی زرداری کو یاد دلایا کہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر کچھ اینکر حضرات کا نظر آنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ موصوف نے جھٹ سے اعلان کر دیا کہ پیمرا والے ’’بندے کے پُتر‘‘ بنیں اور آزاد میڈیا کو سو پھول کھلانے دیں۔

اسی اعلان کے چند روز بعد قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کا باقاعدہ حلف اٹھانے سے پہلے ہی یوسف رضا گیلانی نے ججوں کے گھروں کے باہر سے خاردار تاریں ہٹانے کا حکم صادر فرما دیا جس کی فوری تعمیل بھی ہو گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ گھروں میں محصور ججوں کو بحال ہونے میں ایک اور برس لگ گیا۔

میں جب بھی یہ واقعات یاد دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے پرانے زمانے کا بزدل اور موقع پرست قرار دے دیا جاتا ہے جو ’’نمودِ نو‘‘ کو پہچان ہی نہیں پا رہا۔ لہذا خاموش ہو کر ’’نئے زمانے‘‘ کو بنتا ہوا دیکھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ مگر تبدیلی کا پورا اظہار تو غالباً اس وقت شروع ہو گا جب نئی نسل کے ووٹوں سے سونامی خان تخت پر بٹھائے جائیں گے اور 90 دنوں میں ہر مسئلہ کو حل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیں گے۔ مگر سونامی برپا کرنے والا روز محشر نظر بظاہر تو اپریل اور مئی 2013 کے مہینوں کے درمیان کسی وقت سجے گا۔ ابھی تو نومبر کا وسط ہے۔ باقی کا وقت کیسے گزارا جائے؟

انتظار کے ان لمحوں میں میری تسلی کے لیے چند لوگ سپریم کورٹ کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ اصغر خان کے 16 سالہ پرانے مقدمے کے بارے میں ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آ چکا ہے۔ آصف علی زرداری اور رحمٰن ملک مگر اس فیصلے کے آ جانے کے بعد بھی ’’بکری‘‘ ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایف آئی اے کے انسپکٹروں کو اسلم بیگ اور اسد درانی کی گرفتاری کے لیے روانہ ہی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ تو نواز شریف کو بھی طلب کرنے کی ہمت نہیں پا رہے جب کہ لاہور کے شیر نے بار ہا کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے رو برو پیش ہو کر اپنا حساب دینے کو تیار ہیں۔ ان حالات میں ایک اور فیصلہ بھی آیا ہے جس کے آ جانے کے بعد سے عجیب و غریب حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

کوئی عقل کا اندھا ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ نواب اسلم رئیسانی کے زیر نگین بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس صوبے کے حالات یقیناً تشویش ناک ہیں۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر صدر ان کی حکومت اور بلوچستان حکومت کو برطرف کرنے کے بعد اپنے لگائے کسی گورنر کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ کسی جھوٹی سچی مگر انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی صوبائی اسمبلی کے بغیر اسلام آباد سے اختیار حاصل کرنے والا گورنر حالات بہتر کرنے کے لیے امن عامہ کو یقینی بنانے والے اداروں پر مکمل انحصار کرنے پر مجبور ہو گا۔ بلوچستان میں پولیس معدودے چند علاقوں میں متحرک ہوا کرتی ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں ایف سی کے اہلکاروں کو استعمال کیا جاتا ہے اور ’’گم شدہ لوگوں‘‘ کے قضیے کے ضمن میں اسی ادارے کو سب سے زیادہ ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

گورنر راج لگا تو مزید ’’گم شدگیاں‘‘ یقینی ہیں۔ ایسی گم شدگیاں پہاڑوں پر چڑھ جانے والے ’’سرمچاروں‘‘ کے مزید کام آئیں گی اور ان کے اس دعوے کو مزید مضبوط بھی کہ ’’اسلام آباد سے حکمرانی کرنے والے پنجابی‘‘ بلوچوں کو ان کے حقوق دینے کو تیار ہی نہیں۔ ان کے حامی نوجوانوں کے جلسے جلوسوں میں سب سے مقبول نعرہ ہے کہ ’’جو پارلیمان کا یار ہے غدار ہے غدار ہے۔‘‘ گورنر راج لگا تو اس نعرے میں مزید شدت آ جائے گی۔ جس کے نتیجے میں جب آیندہ انتخاب ہوں گے تو شاید اس میں حصہ لینے کی نواب اسلم رئیسانی جیسے لوگ بھی جرأت نہ کریں۔

اسلم رئیسانی سے نجات کا دوسرا راستہ یہ بھی ہے کہ موجودہ صوبائی اسمبلی میں سے ہی کوئی اور آگے بڑھے اور وزارت اعلیٰ کا ساغر تھام لے۔ مگر رئیسانی نے 45 لوگ اپنی حمایت میں دکھا دیے ہیں۔ یہ حمایت دکھانے سے پہلے موصوف اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں ہر اس شخص سے ملتے رہے جن سے ایسے کام کرنے سے پہلے ملنا ضروری ہوا کرتا ہے۔ 45 افراد کی حمایت دکھانے کے بعد انھیں ہٹانا اور مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کچھ اور صبر کر لیا جائے۔ اگر انقلاب بذریعہ انتخاب ہی لانا ہے تو اس کا آغاز بلوچستان ہی سے کیوں کیا جائے۔ ہمارے تین اور صوبے بھی تو ہیں اور ان سب میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔