کبیر خان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟

محمد نعیم  جمعرات 28 اپريل 2016
کبیر خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان انتہاء پسند رکاوٹ ہیں۔ مگر شاید ان کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انتہاء پسندی، نفرت اور عداوت تو وہ خود اپنی فلموں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔

کبیر خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان انتہاء پسند رکاوٹ ہیں۔ مگر شاید ان کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انتہاء پسندی، نفرت اور عداوت تو وہ خود اپنی فلموں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان ہمسایہ ممالک ہیں۔ دونوں ممالک کے مختلف وفود سرحد کے آر پار جانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس پار جانے والوں کے لئے ویزہ پالیسی بڑی سخت ہے اور یہاں آنے والوں کے لئے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ مگر منگل کے روز کچھ خلاف معمول ہوا، پاکستان آمد پر بھارت کے ہدایت کار کبیر خان کو اگرچہ بھارت کی طرح کسی نے نقصان تو نہیں پہنچایا مگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اُن کی پاکستان آمد پر سخت اعتراض کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان سے جو بھی یہاں آیا اس کو بڑے اور کھلے دل کے ساتھ پاکستانی میزبانوں نے خوش آمدید کہا۔ اتنی عزت دی کہ جس کو بھارتی وفود نے یاد بھی رکھا اور برملا اس کا اظہار بھی کیا۔

نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رضا مراد جیسے معروف فنکار، آشا بھوسلے جیسی سریلی گلوکارہ، مہندر سنگھ دھونی جیسے نامور کھلاڑی اور شعراء کرام کی ایک طویل فہرست۔ غرض جو بھی سرحد پار سے آیا، اس نے یہاں ہر طرح کا سکون، امن اور میزبانوں کا پیار پایا۔

جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا کوئی بھی وفد بھارت جائے، چاہے وہ کھلاڑی ہوں یا فنکار، ادیب ہوں یا شاعر انہیں وہاں بے توقیری کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے، اور شیوسینا جیسے انتہاء پسند و تنگ نظر ہندؤوں کی جانب سے جان کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ خود پاکستانیوں کے علاوہ بھارتی بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان سے آنے والوں کے ساتھ بھارت میں ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔

گزشتہ برس بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف اکسایا جاتا ہے، اور ان کا اس انداز میں برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا دشمن جانیں۔ یہی نہیں بلکہ شاہ رخ خان جیسے لوگ بھی بھارت کے دوغلے چہرے سے نقاب اتار چکے ہیں اور دنیا کو اس کی تنگ نظری سے آگاہ کرچکے ہیں۔ ٹھیک انہی دنوں جب کبیرخان دورہ پاکستان کے لیے آئے ہوئے تھے، ایک پاکستان گلوکار ہندوستان میں شیوسینا کے نشانے پر تھے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برس بھی جگ جیت سنگھ کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں غلام علی نے شامل ہونا تھا مگر سخت گیر ہندو متعصب جماعت شیو سینا نے ان کی بھارت آمد پر شدید احتجاج کیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوا، مگر غلام علی پھر بھی اپنے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اگرچہ کراچی ایئرپورٹ پر کبیرخان کے پہنچنے پر احتجاج کیا گیا لیکن کسی نے ان کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا، پُرامن انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ بھارت کی جانب سے پاکستانیوں کو گھس کے مارنے کی دھمکیاں، بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی پاکستان میں تخریبی کارروائیاں اور ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے وہ مظالم جن کے خلاف نہ ہندوستان کا میڈیا بولتا ہے، نہ کوئی ہدایت کار اس پر فلم بناتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پاکستانی عوام کبیر خان سے مانگ رہی تھی۔ یہی نہیں بلک سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا کر کبیر خان جیسے پاکستان مخالف شخص کے اس سرزمین پر قدم رکھنے کو بھی سخت ناپسند کیا گیا۔

اگرچہ کبیر خان نے پاکستان میں جس تقریب میں شرکت کی ہے وہاں اس بات کا دعویٰ کیا کہ پاکستان بجرنگی بھائی جان پسند کی گئی ہے، مگر فینٹم اور ایک تھا ٹائیگر کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ تقریب میں کبیر خان نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان انتہاء پسند رکاوٹ ہیں۔ مگر کبیر خان کو شاید یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انتہاء پسندی، نفرت اور عداوت تو وہ خود اپنی فلموں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔

بھارتی ہدایت کاروں کے لئے یہ ایک اہم اشارہ ہے کہ اگر وہ اپنی انڈسٹری کی مقبولیت کو پاکستان میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا بند کرنا ہوگا۔ کبیر خان کے ساتھ اس سلوک کے بعد پاکستانیوں کو آداب میزبانی کے بھاشن سنانے والوں کو غور کرنا ہوگا کہ پاکستانیوں کے ساتھ بھارت میں کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ بھارت والے اگر حقیقی معنوں میں پاکستان سے دوستی چاہتے ہیں تو منہ میں رام رام اور بغل میں چھری کی دورخی کو ختم کر دیں۔

جب پاکستان کی سالمیت، اس کی سرحدوں کا احترام اور پاکستانی شہریوں کے ساتھ بہتر سلوک بھارت میں شروع ہوگا تو پھر پاکستان سے بھی انہیں اچھا ردعمل اور مثبت پیغام ملے گا، کیوں کہ تالی دنوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ کبیر خان کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔