ڈرائیور نہ بن پایا، گاڑیاں دھوتا ہوں

غلام محی الدین  اتوار 18 نومبر 2012
عبدلقایوم۔ فوٹو: فائل

عبدلقایوم۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: اس کا نام عبدالقیوم ہے مگر نہ جانے کیوں لوگ اُسے جسٹس کہتے ہیں، ’’مجھے تو اِس لفظ کے معنی معلوم نہیں‘‘ میں نے جب اسے اِس کے معنی انصاف، عدل، مساوات بتائے تو اس نے حیران ہوتے ہوے سوچا ’’میں تو ایسا کوئی کام نہیں کرتا۔

گاڑیاں دھونے کا کام کرتا ہوں، گندی اور کیچڑ میں لتھڑی گاڑیاں، پوری ایمان داری سے کام کرتا ہوں تاکہ گاڑی والے صاحب خوش ہو جائیں‘‘ کتنے پیسے لیتے ہو؟ ’’ایک گاڑی صاف کرنے کے؟ صرف 50 روپے، کبھی زیادہ نہیں مانگے مگر منہگائی بڑھ گئی ہے، میرا خیال ہے اتنے ہی کافی ہیں‘‘۔

آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی پلندری سے آئے ہوے 30 سالہ عبدالقیوم کے چہرے پر معصومیت ہی معصومیت تھی، وہ سر جھکائے بتا رہا تھا ’’ہوش سنبھالا تو گھر میں غربت ہی غربت تھی، ہم پانچ بھائی اورتین بہنیں تھیں۔ اکیلا والد کمانے والا اور ہم 10 افراد کھانے والے تھے۔ پھر ایک دن والد دنیا سے رخصت ہوگئے اور یوں میں نے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔

گائوں میں محنت مزدوری نہیں تھی، ماں سے اجازت لے کر پہلے لاہور گیا، وہاں 10 دن سرتوڑ کوشش کی لیکن کام نہ ملا تو واپس گائوں آ گیا، پھر بھائیوں کے ساتھ کھیوڑا کی کان میں قسمت آزمائی کرنا چاہی مگر جسمانی کم زوری آڑے آ گئی۔ والد کراچی جا کر محنت مزدوری کرتے تھے، وہاں جا کر محنت کرنے کا سوچا مگر آج تک کراچی نہ جا سکا، کراچی تک کا کرایہ ہی نہیں بن پاتا۔ جب گھر میں خوراک کی کمی سے جان کے لالے پڑے تو ایک دن اسلام آباد آ گیا، سوچا کہ بچپن کی خواہش پوری ہو جائے گی، گاڑی کا ڈرائیوربن جائوں گا۔ وہ تو نہ بن سکا لیکن گاڑی دھونے والا ضرور بن گیا ہوں‘‘۔

عبدالقیوم نے بتایا ’’میں اسکول میں ذہین طالب علم تھا مگر غربت کے آگے میری ذہانت کا زور نہ چل سکا۔ اب میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی بھی بغیر چھت والے سرکاری اسکولوں میں ذہین طالب علم شمار ہو رہے ہیں مگر ان کی ذہانت بھی میری غربت کے آگے دم توڑ رہی ہے۔ بیوی صبح سویرے بری امام کے جنگل سے لکڑیاں کاٹنے چلی جاتی ہے اور بچے اسکول۔ میں چائے کی پیالی پی کر گھر سے محنت مزدوری کرنے نکل کھڑا ہوتا ہوں، پیچھے جھونپڑی میں سوائے اللہ کے نام کے کچھ نہیں ہوتا۔ مزدوری اگر مل جائے تو دن میں دو سے تین سو روپے تک کما لیتا ہوں ورنہ خالی ہاتھ واپس جھونپڑی میں جانا پڑتا ہے۔ عبدالقیوم عرف جسٹس نے کہا کہ گاڑی دھونے کا پائوڈر روز بہ روز منہگا ہو رہا ہے، صاف کپڑا جو پہلے 10 روپے کا آ جاتا تھا اب 30 روپے کا ہو چکاہے، موسم گرم ہو یا سرد ہر حال میں گاڑی دھونا لازم ہے ورنہ بیوی اور بچوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑتاہے‘‘۔

بچپن کی خواہش کا ذکر کرتے ہوے عبدالقیوم نے کہا ’’میں سوچا کرتا تھا کہ اپنا گھر بنائوں گا، بوڑھی ماں کو الگ کمرہ بنا کر دوں گا، ڈرائیور بن جائوں گا تو گاڑی میں ماں کو شہر شہر کی سیر کرائوں گا لیکن میں تو ابھی تک گاڑی چلانا بھی نہیں سیکھ سکا۔ اب بھی گائوں شدت سے یاد آتا ہے، مگر سوال یہ بھی ہے کہ وہاں جا کر خالی ہاتھ کروں گا کیا۔ عیدین پر گائوں اس لیے نہیں جاتا کہ ایڈوانس بکنگ کرانا پڑتی ہے، پھر کرایے بھی ان دنوں زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے جب لوگ عید کے بعد آ رہے ہوتے ہیں تو میں گائوں جاتا ہوں، کرایہ کم لگتا ہے۔

بری امام نورپورشاہاں کے علاقہ میں گھاس پھوس کی جھونپڑی میں رہنے والے عبدالقیوم نے بتایا کہ گھر میں بجلی کا ایک بلب اور ایک پیڈسٹل پنکھا ہے مگر بجلی کا بل ہے کہ 2 ہزار روپے سے کم نہیں ہوتا۔ گھر میرے پاس ٹی وی، ریڈیو نام کی کوئی شے نہیں، صرف 3 چارپائیاں ہیں جن پر ہم 6 افراد سوتے ہیں۔ اب سردیاں آ رہی ہیں، مگر ہمارے پاس گرم بستر نہیں، صرف 4 پرانے کمبل ہیں انہی میں جاڑا گزر جائے گا، سردی سے اگر کوئی فرد بیمار ہو گیا تو اُس کو الگ کمبل دے دیا جائے گا پھر باقی مل جل کر گزارہ کریں گے‘‘۔

عبدالقیوم نے آسمان کو گھورتے ہوے ڈرتے ڈرتے کہا ’’میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں‘‘ ’’کون سی بات؟ ‘‘اگر حکومت ہمارے بچوں کی اچھی تعلیم کا بندوبست کر دے تو میری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں۔ میرے بچوں کا ابھی تک ’’ب‘‘ فارم تک نہیں بنا۔ نادرا والے رجسٹریشن کے فی کس 25 سو روپے مانگ رہے ہیں، اتنی فیس میں کہاں سے دوں، ب فارم کے بغیر تو اچھے اسکول میں داخلہ ہی ممکن نہیں، کئی مہینوں سے سوچ رہا ہوں کہ ب فارم کس طرح بنے گا‘‘۔

عبدالقیوم کی آنکھیں نم آلود ہوگئیں ’’دل بہت چاہتا ہے کہ میں ماں کو گائوں میں پیسے ارسال کروں، گو ماں نے کبھی خواہش نہیں کی مگر کیا کروں آج تک 500 روپے بھی اکٹھے نہیں کر سکا، یہ میری خواہش ہے مگر بچوں کی خواہشیں سنتا ہوں تو دل پھر سے ڈوبنے لگتا ہے، ایسے میں نماز پڑھ کر اللہ سے فریاد کرتا ہوں تو سکون مل جاتا ہے ورنہ…!‘‘

عبدالقیوم نے کہا ’’اللہ کا یہ بڑا کرم ہے کہ میں بری سرکار کے مزار کے پاس رہتا ہوں، گھر میں جس دن آٹا نہیں ہوتا اُس وقت مزار پر بٹنے والا لنگر پیٹ کی آگ بجھا دیتا ہے، لنگر میں زیادہ تر چاول ہوتے ہیں، ہم کشمیری ہیں، اس لیے خوشی خوشی چاول کھا کر شکر ادا کرتے ہیں‘‘۔

عبدالقیوم نے گھر میں لڑائی جھگڑوں کا ذکر کرتے ہوے کہا ’’بیوی جب گھر کا سامان مانگتی ہے اور میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تو تلخ کلامی ہو جاتی ہے مگر نوبت کبھی مار پیٹ تک نہیں جاتی۔ آج کل اکثر سوچتا ہوں کہ کاش مجھے کوئی سعودی عرب لے جائے، وہاں جا کر محنت مزدوری کروں، عمرہ کروں، پیسے کما کر واپس آئوں، بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائوں مگر یہ صرف وہ خواب ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہوں‘‘۔

عبدالقیوم نے بتایا ’’رات 8 بجے میری جھونپڑی میں بتی گل کر دی جاتی ہے۔ سب سو جاتے ہیں، سب تھکے ہارے ہوتے ہیں، صبح فجر سے پہلے اٹھ جاتے ہیں، اِس کے دو فائدے ہیں، بجلی کم استعمال ہوتی ہے، صبح سویرے کام پر جانے سے اللہ برکت دیتا ہے، سارا دن محنت مزدوری کے دوران اگر بھوک لگے تو کبھی مکئی کابھٹہ کھا لیا، کبھی پیٹ بھر کر پانی پی لیا، کبھی تیز پتی کی چائے پی لی، اِس طرح دن آسانی سے کٹ جاتا ہے‘‘۔

عبدالقیوم نے کہا ’’جب گاڑی صاف کرنے کے عوض کوئی صاحب انعام دیتا ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے، میں نے آج تک خود کبھی انعام طلب نہیں کیا، کبھی اپنا دکھ درد بیان نہیں کیا، اگر میرے کام اور ایمان داری سے خوش ہو کر کوئی دے جائے تو دل خوش ہو جاتا ہے۔ کام کرنے کے دوران اکثر و بیشتر آب پارہ پولیس والے پکڑ کر بھی لے جاتے تھے مگر جب انھوں نے مجھے متعدد بار یہی کام کرتے ہوے پایا تو اب کچھ کہنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔

عبدالقیوم نے آب پارہ چوک میں سیاسی جلسوں اور سیاسی مظاہروں کو ناپسند کرتے ہوے کہا ’’ان پر پابندی ہونی چاہیے۔ ان سے لوگوں کی جان جاتی ہے، کاروبار بند ہو جاتا ہے۔ میری دہاڑی ختم ہو جاتی ہے اس لیے میں کیسے کہوں کہ جلسے جلوسوں کا یہ سلسلہ اچھا ہے! روز بہ روز حالات مشکل سے مشکل تر ہو رہے ہیں۔ سوچتا ہوں تو خوف آتا ہے، اِس خوف سے دل دہل کر رہ جاتا ہے پھر اللہ کو جب تک یاد نہ کر لوں دل سے ڈر نہیں جاتا‘‘۔

عبدالقیوم نے بتایا ’’میرا ایک ہی بچپن کا دوست ہے، جس کا نام اجمل ہے، گائوں میں ٹیلر ماسٹر ہے، کبھی کبھی فون پر اُس سے رابطہ ہو جاتا ہے، ہم جب باتیں کرتے ہیں تو غربت کے دنوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں‘‘۔

ووٹ ڈالنے کے عمل پر عبدالقیوم نے بتایا ’’کشمیر کے سات انتخابات میں اب تک میں مسلم کانفرنس کو اپنے خرچے پر وہاں جا کر ووٹ دے چکا ہوں ہر دفعہ ووٹ لینے والے امیدوار وعدے کرتے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں، اب سوچ لیا ہے کہ ووٹ دینے نہیں جائوں گا‘‘۔

سادہ، معصوم، نیک، شریف اور دیانت دار عبدالقیوم کے کام کی گواہی وہ منہگی منہگی گاڑیاں ہیں، جب وہ مٹی میں لتھڑی ہوئی آتی ہیں تو دلہن کی طرح خوب صورت بن کر روانہ ہو جاتی ہیں، عبدالقیوم جب گاڑی دھو رہا ہوتا ہے، اُس کو چمکا رہا ہوتا ہے تو وہ پوری طرح اپنے کام میں محو ہوتا ہے۔ اُس سے جب پوچھا گیا کہ سروس اسٹیشن پر گاڑی زیادہ اچھی طرح صاف ہوتی ہے یا فٹ پاتھ کے کنارے بالٹی میں پانی ڈال کر دھونے سے، تو اس نے پوری ایمان داری سے کہا کہ ’’جب نیت میں فتور ہو تو گاڑی کہیں بھی اچھے طریقے سے صاف نہیں ہوتی، نیت صاف ہو گی تو گاڑی صاف ہو گی‘‘۔

اچھی نیت والے عبدالقیوم کی قسمت کے دن کب اچھے ہوں گے، یہ اُسے بھی علم نہیں، وہ تو بس اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کا خواہاں ہے، اُس نے کہا ’’میں جب صبح سویرے جھونپڑی سے نکل کر آب پارہ آ رہا ہوتا ہوں تو اُس وقت منہگی منہگی گاڑیوں میں امراء کے بچے، ا چھے اور مہنگے اسکولوں کو جا رہے ہوتے ہیں، ان کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ پھر نہ جانے کیوں دل بھر آتا ہے کہ کاش میرے بچے بھی ان ہی جیسے ہوتے مگر جب دل کو سمجھاتا ہوں کہ یہ بھی تو تیرے ہی بچے ہیں تو دل سنبھلنے لگتا ہے‘‘۔ عبدالقیوم نے کہا ’’میں دعا گو ہوں کہ ان بچوں کے صدقے میرے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ آگے پڑھنے کی توفیق دے‘‘۔

عبدالقیوم نے یہ بھی کہا ’’یہ تو مقدر کی بات ہے کہ کوئی بچہ منہگی کار میں اسکول جائے اور کوئی گرمیوں میں ننگے پائوں چل کر اسکول تک کی مسافت طے کرے، تقدیر سے لڑا تو نہیں جا سکتا جب لڑا نہیں جا سکتا تو پھر گلہ کس بات کا، بس جو ہے وہی ٹھیک ہے جو نہیں ہے اُس کا علم اللہ کو ہے‘‘۔

عبدالقیوم عرف جسٹس کو جب یہ بتایا گیا ’’تمہارا ایک ہم نام اعلیٰ عدالت کا جج بھی تھا‘‘ تو اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا ’’اُسے بھی جسٹس کہتے تھے‘‘۔ ’’ہاں آج کل ریٹائرڈ جسٹس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘‘۔ ’’وہ بھی گاڑیاں دھوتا تھا؟ ’’ارے پگلے، اُس کی گاڑی دھونا تو باعث افتخار سمجھا جاتا ہے‘‘۔۔۔’’اُس کے پاس گاڑی تھی؟‘‘۔۔۔ ’’ارے کئی گاڑیاں تھیں وہ لاکھوں روپے ایک ماہ میں کمانے والا آدمی تھا‘‘۔۔۔ ’’کہاں ہے وہ آج کل؟‘‘۔۔۔ ’’وہ ملک سے باہر ہے! مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘۔۔۔’’میں اُسے دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ ’’دیکھنے سے کیا ملے گا؟‘‘۔۔۔ ’’کچھ بھی نہیں بس دل خوش ہوگا کہ چلو کوئی تو میرا ہم نام ہے جس کی اللہ نے ہر خواہش پوری کر دی ہے‘‘۔

عبدالقیوم کی سادگی کو دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ عہد حاضر میں بھی اللہ پاک نے اس طرح کے بھولے بھالے لوگ زمین کی زینت بنا رکھے ہیں جن کو دیکھ کر معصومیت کے جیتے جاگتے مفہوم کو نہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بل کہ ان کو دیکھ کر اپنے میلے دل اُجالنے کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے۔

عبدالقیوم سے باتیں کرتے ہوے کافی وقت گزر چکا تھا اُس کو یہ فکر لاحق ہو رہی تھی کہ اُس کا قیمتی وقت باتوں میں ضایع ہو رہا ہے، کوئی گاڑی والا صاحب فٹ پاتھ پر نہ پا کر کہیں آگے نہ بڑھ جائے۔ اُس نے اپنی پریشانی کا ذکر نہیں کیا مگر وضع داری میں اتنا ضرور کہا کہ میں ابھی آتا ہوں ذرا اپنے سامان کو دیکھ آئوں۔ اُس سے جب پوچھا گیا کہ کام کرتے ہوے تمہاری تصویریں اتاری جا سکتی ہیں تو اُس نے کہا کہ آپ نے تصویروں کا کیا کرنا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ لازمی ہیں… تو کہنے لگا کہ میرے پاس تو صاف کپڑے بھی نہیں، ارے انہی کپڑوں میں کاروں کے ساتھ، کام کرتے تمہاری تصاویر درکار ہیں، سوچتے ہوے کہنے لگا کہ جب میں کار خوب اچھی طرح چمکا لوں تو پھر تصویر بنانا…!

عبدالقیوم کے دن کب چمکیں گے؟ اُسے علم نہیں مگر اُسے اتنا یقین ضرور ہے کہ آنے والے دنوں میں اُس کی غربت ختم ہو جائے گی وہ جھونپڑی سے نکل کر کسی مناسب رہائش گاہ کا مکین ہو جائے گا۔ اُس کی محنت کا عوضانہ بڑھ جائے گا۔ وہ بھی اپنے گائوں زیادہ کرایے کے باوجود عید پر خوشی خوشی جا سکے گا۔ اپنی ماں کے لیے تحفے تحائف خرید سکے گا، بیوی بچوں کے ساتھ گھر سے باہر جا کر ایک وقت کا کھانا کسی اچھے ہوٹل میں کھا سکے گا اور اُس کے بچے بھی اپنی گاڑی میں نہ سہی کم از کم کرایے کی ویگن میں بیٹھ کر صاف یونیفارم میں اسکول جا سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔