مستحکم نواز شریف اور منتشر اپوزیشن

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 28 اپريل 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پانامہ لیکس کی شہرئہ آفاق خبر کے بعد وطنِ عزیز کے سیاستدانوں، حکمرانوں اور سیاسی حالات نے ایک نئے انداز سے کروٹ لی ہے۔ اسے عوامی دباؤ کہا جائے، سیاسی ضرورت یا اپنی ذات پر گہرا اعتماد و اعتبار کہ وزیراعظم جناب نواز شریف کو تازہ سیاسی فضا کی موجودگی میں دو بار قوم سے خطاب کرنا پڑا ہے۔ جناب وزیراعظم سیاست کے بدلتے تیور دیکھ کر جلسے جلوسوں کی شکل میں عوام سے رابطہ مہم پر بھی باہر نکلے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی آگے بڑھے گا۔ اس مہم کی تہہ سے مگر برآمد کیا ہو گا اور چرخِ نیلوفری کیا کیا رنگ بدلے گا، اس کے لیے ہمیں ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔

قوی امید یہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، حسبِ سابق، نئے حالات اور نئی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر باہر نکل آئیں گے کہ ابھی انھیں پاکستان کی ترقی و ترویج کے لیے بہت کچھ کرنا ہے اور قومی ترقی کے لیے بہت سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں حسبِ منشا رنگ بھرنے ہیں۔

موعودہ انکوائری کمیشن میں، اپوزیشن کے مطالبے پر، وفاقی وزیرِقانون اور پوری کابینہ نے متفقہ طور پر کوئی بھی تبدیلی یا ترمیم نہ کرنے کا اعلان کر کے دراصل اپوزیشن کو یہ بتایا ہے کہ نواز شریف کی اقتدار پر گرفت کس قدر مضبوط ہے۔ جو اشخاص، گروہ یا سیاسی جماعتیں یہ توقع لگائے بیٹھی ہیں کہ پانامہ لیکس کی پھلجھڑی اور پھلکاری کے درمیان نواز شریف گھبرا کر اقتدار و اختیار کی دنیا سے بس رخصت ہونے ہی والے ہیں، انھیں خبر ہو کہ وہ غیر حقیقی دنیا میں بس رہے ہیں۔ اگر کہیں طوفان بپا ہے، تو محض چائے کی پیالی میں ہے۔

اور یہاں ’’چائے کی پیالی‘‘ سے مراد ہمارا الیکٹرونک میڈیا ہے جو بیشتر ’’جگہوں‘‘ پر ذاتی خواہشوں کو خبریت کا نام دے کر جذبات میں ہیجان پیدا کرنے کی مصنوعی اور بے جا کوششیں کر رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے بیس، بائیس کروڑ عوام کے اندر بھی کہیں نواز شریف کے خلاف بیزاری کا عنصر نظر نہیں آ رہا۔ جمہوریت کی دنیا میں صاحبانِ اقتدار کو اگر کوئی طاقت ہمیشہ رخصت کرتی آ رہی ہے، تو وہ اپوزیشن یا حزبِ اختلاف کی صورت میں عوام ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کا وجود تو ہے مگر اس کے بارے میں شاعرانہ زبان میں کہا جا سکتا ہے: ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!!

اسے اگر مبالغہ نہ کہا اور سمجھا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی مذہبی جماعتوں میں سب سے طاقتور جے یو آئی (ایف) ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بھی اور ڈنڈی پٹی بھی۔ اور اس کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں اور حضرت صاحب جی جان سے وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ خیبرپختون خوا کی دیرینہ اور مؤثر سیاسی جماعت ’’اے این پی‘‘ ہی قرار دی جاتی ہے۔

یہ بھی اپنے سربراہ اور لاؤ لشکر کے ساتھ مسلم لیگ نون اور میاں صاحب کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کی ایک بھی نمایاں اور مؤثر سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو آگے بڑھ بڑھ کر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف میدانِ عمل میں موجود ہو۔ ادھر سندھ میں قوم پرست جماعتوں کا منقسم ہو کر علیحدہ بیٹھ جانا نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی وہ ایک محور پر اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ سندھ کے تین بڑے شہروں میں ایم کیو ایم کو حتمی طاقت و قوت حاصل ہے۔ چند دراڑوں اور آزمائشوں کے باوجود ایم کیو ایم کو ابھی تک اردو سپیکنگ ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور ایم کیو ایم کھل کر مسلم لیگ نون اور جناب نواز شریف کے خلاف برسرِپیکار ہونے سے احتراز کر رہی ہے۔

توقع یہی ہے کہ وہ بھی میاں صاحب کو للکارنے سے باز ہی رہے گی۔ جماعت اسلامی جناب نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرے گی؟ جس کا اپنا ایک وزیر، کے پی کے میں، مبینہ طور پر بے ضابطگیوں کی زد میں ہے۔ رہی دیہی سندھ کی مقتدر پیپلز پارٹی، تو وہ بھلا کیوں اور کیونکر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف میدانِ عمل میں نکلے گی؟ پیپلز پارٹی کو تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر وہ پانامہ لیکس کے پس منظر میں، بفرضِ محال، مسلم لیگ نون کے قائدین کے خلاف احتجاج کنندہ عمران خان کا دلجمعی سے ساتھ دیتی اور ہم نوا بنتی بھی ہے تو بہت سی تہمتوں اور بہتانوں کا شکار تو خود پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی ہے۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ انھی الزامات کا ہدف بنتی آ رہی ہے۔

پھر بھلا چھاج کیونکر چھاننی کو مہنے اور طعنے دے کر سامنے آ سکتا ہے؟ چنانچہ جناب نواز شریف کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ پیپلز پارٹی ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہر گز نہیں بن سکتی۔ جناب آصف علی زرداری کے جواں عمر صاحبزادہ صاحب کی طرف سے قائدینِ مسلم لیگ نون کے بارے میں کبھی کبھار جو مخالفانہ اور مخاصمانہ بیانات پڑھنے سننے کو ملتے ہیں تو ان بیانات کو ہلکی پھلکی موسیقی سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ نواز شریف کے خلاف پی ٹی آئی اور پی پی پی کا مبینہ اتحاد بھی بے معنی سا ہے۔ قمر زمان کائرہ صاحب کا یہ کہنا کہ ’’عمران خان ماحول کو تلخ نہ بنائیں‘‘ اس امر کا عکاس اور غماز ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف میں کتنا اتحاد ہے۔

جناب عمران خان سندھ میں جا کر جو ’’انقلاب‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ان کا حق بنتا ہے مگر یہ ’’انقلاب‘‘ ساحرؔ لدھیانوی اور حبیب جالبؔ کی نظموں اور غزلوں ہی کی مانند رہے گا۔ جو لوگ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ سندھ میں محدود ہو کر رہ جانے والی پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف کوئی طوفان پیدا کر دے گی، اسے تمنائے خام ہی کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔

اور پنجاب میں ’’قاف لیگ‘‘ نواز شریف کے قلعے کی بھلا کتنی اینٹیں اکھاڑ سکتی ہے؟ چوہدری برادران کی سیاسی قوت و حشمت جتنی کچھ رہ گئی ہے، اس سے بھی عوام الناس پوری طرح آگاہ اور آشنا ہیں۔ باقی رہے جناب عمران خان، تو وہ بے چارے اکیلے کچھ بھی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ طاقت۔ ان کے ایک قریبی ساتھی کے بارے میں بھی خبر آ گئی ہے کہ انھوں نے کروڑوں روپے کا قرضہ معاف کروایا تھا۔ جزوی تردید کے باوجود اس خبر نے عمران خان کے موقف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

سندھ میں جا کر عمران خان اگر پیپلز پارٹی کی مبینہ بے ضابطگیوں اور کرپشن کے بارے میں لب کشائی کرتے ہیں تو پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان عدم تعاون مزید بڑھ جائے گا۔ یہ عدمِ اتفاق نواز شریف کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ اور اگر عمران خان سندھ کے مقتدرین کے بارے میں لب کشائی سے احتراز کرتے ہیں تو عمران خان کے چاہنے والوں کو مایوسی ہو گی۔ عمران کی معروف زمانہ انصاف پسندی پر حرف آئے گا۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی توڑ پھوڑ اور باہمی تصادم کا عمل جاری ہے۔ چنانچہ اس تھیسس کی بنیاد خاصی مضبوط ہے کہ جناب نواز شریف کے اقتدار اور ان کی وزارتِ عظمیٰ کو کوئی بڑا اور نمایاں خطرہ لاحق نہیں ہے۔

ہاں، بعض اطراف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ سپہ سالارِ پاکستان کی طرف سے اپنے درجن بھر سینئر افسروں کو جس طرح ادارے اور ملازمتوں سے فارغ کیا گیا ہے، اس اقدام نے وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالا ہو گا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن اس دباؤ کے اثرات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ بعض لوگوں نے دھول اڑانے کی کوشش تو یقینا کی لیکن وزیراعظم نے اس اقدام کی پیروی میں نہ تو اپنے کسی وزیر کو فارغ کیا ہے نہ کسی مشیر کو۔ تو پھر مبینہ دباؤ لینے کا مطلب و مقصد کیا ہے؟ واضح رہنا چاہیے کہ جنرل راحیل شریف کسی بھی طرح سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر رہے۔

آثار بتا رہے ہیں کہ آیندہ بھی نہیں کریں گے۔ انھوں نے نہایت مستحسن فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ادارے کی تطہیر یقینا کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ سیاسی مقتدرین کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے۔ سیاسی اداروں اور سیاست کاروں کی تطہیر کرنا ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ اب یہ سیاسی مقتدرین پر منحصر ہے کہ وہ عوامی محبتیں سمیٹنے کے لیے، اسی اسلوب میں، کیا قدم اٹھاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔