حقوق زوجین، قرآن و سنّت کی روشنی میں

حاجی محمد حنیف طیّب  جمعـء 29 اپريل 2016
رسول کریمؐ کے مذکورہ فرمان عالی شان کا عامل ہر طرح سے خوش حال زند گی بسر کرسکتا ہے،فوٹو: فائل

رسول کریمؐ کے مذکورہ فرمان عالی شان کا عامل ہر طرح سے خوش حال زند گی بسر کرسکتا ہے،فوٹو: فائل

اسلام، دینِ اعتدال ہے۔ عدل و انصاف اور حقوق کی مساویانہ تقسیم اس کا وصفِ خاص ہے۔ مرد و زن کے حقوق میں بھی اس دین متین نے اعتدال کو اختیار کیا ہے۔ میاں بیوی کے حقوق سے مراد وہ ذمے داریاں ہیں، جو ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شرعی و اخلاقی طور پر اُن پر عاید ہوتی ہیں۔

جس طرح اسلام نے مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اس طرح عورتوں کے حقوق کا تعین بھی فرمایا ہے اور یہی اعتدال و مساوات و انصاف جو برابری کی سطح پر ہو، عدل کہلاتا اور اسلام کی اولین ترجیح و تعلیم ہے۔ معاشرے کے ارتقا، باہمی محبت و رواداری ایک دوسرے کے مابین مفاہمت و اعتماد کی فضا قائم رکھنے میں، حقوق کی مساویانہ تقسیم اور اس پر عملاً قائم رہنا ایک مستحکم اور مضبوط گھرانے کی بنیاد ہے۔

اسی طرح جہاں مردوں کو ازدواجی تعلقات مستحکم اور مضبوط رکھنے کے لیے حکم و نصیحت فرمائی، وہیں عورتوں کو بھی اسلامی حدود کا پابند کیا اور دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے انہیں مردوں کی امانتوں کا امین بنایا اور فرمایا کہ ’’وہ خیانت کا ارتکاب نہ کریں‘‘۔ مرد و زن کے حقوق کا تعین قرآن کریم نے ازدواجی زندگی کی استواری اور اس بندھن کو جس میں شرعی طور پر ان کو گرہ لگا کر رکھا گیا ہے، اس کو مضبوط و مستحکم بنانے کا حکم دیا ہے۔ گویا معاشرت، میاں بیوی کے مابین حقوق کی مساویانہ تقسیم اور ان کے مابین خوش گوار تعلقات کا نام ہے۔

جب باہم قلبی و ذہنی ہم آہنگی ہوگی تو اچھا اور عمدہ معاشرہ تشکیل پائے گا، کیوں کہ معاشرہ، معاشرت سے عبارت ہے۔ مرد کے حقوق سے مراد وہ ذمے داریاں ہیں جن کا بجا لانا، انہیں پو را کرنا عورت کے لیے لازم اور ضروری ہے اور بیوی کے حقوق سے مراد وہ امور لازم شرعیہ ہیں جن کا ملحوظ رکھنا مرد کے لیے لازم و ضروری ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ حقوق شرعی طور پر ایک دوسرے کے لیے ادائی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں کیوں کہ شرعاً و اخلاقاً وہ دونوں ان احکام پر عمل کے پابند ہیں، جو شریعت نے ایک دوسرے کے حق میں انہیں حکم کیے ہیں۔

شوہر کی اطاعت عورت پر قرآن و سنت کے نصوص کے مطابق ہے اور مرد کے لیے عورت کی ذمے داری پورا کرنا عملا ً، قولاً اور فعلا ً نصائص و سنت پر عمل کرنا ہے۔ قرآن کریم اس عورت کی توصیف ان الفاظ کرتا ہے جو اپنے شوہر کے حقوق کی ادائی پر پورا اُترتی ہے۔ فرمان عالی شان ہے، جو عورتیں نیک ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے عدم موجودی میں بہ حفاظت الٰہی (مال و آبرو) کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’اگر میں کسی کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں سے کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔‘‘ (ترمذی ) اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ہر عورت جو اس حال میں فوت ہوکہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی )

عورت پر مرد کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عدم موجودی میں اس کی امانت کی حفاظت کرے جو اس کے پاس ہے، یعنی اس کے نسب، آبرو، عزت و عظمت، مال و دولت، راز و نیاز اور بچوں کی پرورش اس میں شامل ہے۔ ان عورتوں کے بارے میں جو شوہروں کی فرماں بردار ہیں، قرآن کریم میں یوں فرمان عالی شان ہے ’’وہ ہی عورتیں نیک ہیں جو مردوں کے حکم پر، ان کے کہنے پر چلیں اور ان کی عدم موجودی میں ان کے مال و آبرو کی حفاظت کریں۔‘‘

اسی طرح مردوں کے بارے میں حکم ہے کہ ان پر عورتوں کے حقوق لازم ہیں اور ان کے حقوق کیا ہیں، اس کی تشریح بھی بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے اسے تفصیلا ًبیان فرمایا ہے، مثلاً معاشی، سما جی، تمدنی ضروریات کی فراہمی اور گھر کی کفالت مرد کی ذمے داری ہے۔

مرد، عورت کو سماج سے کاٹ کر نہیں رکھ سکتا۔ بیوی کو بھی معاشرے میں اپنا مقام بنانے اور خود کو منوانے کا حق حاصل ہے اور یہ شوہر کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے ایسے مواقع فراہم کرے، جس سے فائدہ اٹھا کر عورت حدود معاشرت میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیر تمدن و تہذیب میں اپنے حصے کا کام بہتر طور پر سرانجام دے سکے۔ نیز یہ کہ ایسے مواقع میسر کرے کہ عورت کام یابی کے بلند سے بلند تر مقام کو پہنچے، اس سے نہ صرف معاشرہ بل کہ دین بھی ترقی کرے گا اور تخلیقی و سماجی میدان میں وسعت بھی پیدا ہوگی، جو قوموں کے عروج کی علامت ہے۔

معاشرہ وہی ترقی کرتا ہے جہاں مرد و زن کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور دینِ اسلام ان کی ترقی و کام یابی پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ بشرطیکہ وہ دائرہ اسلام اور حدود شرع میں ہو۔ عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں یہ حدیث کریم بھی ہے۔ حضرت حکیم بن معاویہ ؓ اپنے والد سے روای ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ! شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے تو آپؐ نے فرمایا ’’جب کھائے تو اسے کھلائے اور جب پہنے تو اسے پہنائے اور اس کے منہ پر نہ مارے اور اسے بُرا بھلا نہ کہے اور گھر کے سوا اس سے علیحدگی نہ اختیار کرے۔‘‘ (ابن ماجہ)

رسول کریمؐ کے مذکورہ فرمان عالی شان کا عامل ہر طرح سے خوش حال زند گی بسر کرسکتا ہے، بشرطیکہ وہ صدق دل سے اس فرمان پر عمل پیرا ہوجائے۔ اسی طرح ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’مومنوں میں کامل ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ )

حسن سلوک کے بعد سب سے بڑا حق عورت کی آزادی ہے یعنی شوہر کے انتخاب اور شوہر کے ساتھ رہنے میں شریعت نے عورت کو اختیار دیا ہے۔ شوہر کے انتخاب میں بھی اس کی رائے کا احترام کیا ہے اور رفاقت میں اس کے جذبات کو پیش نظر رکھا ہے۔ اگر عورت گھر میں خود کو محبوس نہ سمجھے، گھر کو قید خانہ نہ جانے، اور گھریلو معاملات میں خود مختاری رکھتی ہو، تو گھر کبھی نہیں بکھرے گا۔ اسلام نے عورت کو معاشی، سماجی اور تمدنی حقوق دے کر اس کی حیثیت کو مضبوط کردیا ہے تاکہ معاشرے میں اس کی بھی عزت و وقار رہے اور وہ لوگوں کی دست برد سے بھی محفوظ رہے۔ اسلام عورت کی آزادی پر قدغن نہیں لگاتا مگر اسلام میں عورت کی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں، بل کہ اسلام کی عطاکردہ آزادی ہے جو تمام خرافات سے پاک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔