ریکوڈک پر عالمی ثالثی روکنے کی درخواست سماعت کیلیے منظور

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 16 نومبر 2012
کاغذی کمپنی کونہیںمانیں گے،دستاویزات بتائیںگی کمپنی اصل ہے یانقل،چیف جسٹس فوٹو فائل

کاغذی کمپنی کونہیںمانیں گے،دستاویزات بتائیںگی کمپنی اصل ہے یانقل،چیف جسٹس فوٹو فائل

اسلام آباد / لاہور: سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس میں عالمی ثالثی ٹربیونل کو ثالثی سے روکنے کیلیے درخواست گزار مولانا عبدالحق بلوچ کی اضافی معروضات کی درخواست سماعت کیلیے منظورکرکے فریقین کو نو ٹس جاری کر دیے ہیں۔

اضافی معروضات کی درخواست پٹیشنرکے وکیل رضا کاظم نے جمع کرائی جس میں عالمی ثالثی ٹربیونل کو ثالثی سے روکنے کیلیے عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ رضا کاظم نے بتایا کہ جوائنٹ وینچرکا معاہدہ غیر قانونی ہے اس لیے ثالثی ٹربیونل کو اس پر ثالثی کا اختیار نہیں۔انھوں نے کہا اگر معاہدہ غیر قانونی ہے تو اس پر ثالثی نہیں ہو سکتی ۔چیف جسٹس نے کہا پاکستان کی عدالت کسی کاغذی کمپنی کو تسلیم نہیںکرے گی۔

دستاویزات بتائیںگی کہ کمپنی اصل ہے یا نقل،لائسنس کب اورکیسے جاری ہوا اورکس کو فروخت ہوا اس بارے میں تمام متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں، چیف جسٹس نے کہا اگر ایک خود مختار ریاست اپنا مقدمہ نہ لڑنا چاہے تو عدالت کیا کر سکتی ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے بتایا کمپنی کو ایک ہزار مربع کلومیٹر علاقے کالائسنس دیا گیا جو رولز میں نرمی کرکے13 ہزار مربع کلومیٹر علاقے تک بڑھایا دیا گیا۔آسٹریلوی کمپنی کے وکیل حفیظ پیزادہ نے جب سوالات اٹھائے تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آسٹریلوی کمپنی اپنے حقوق آگے بیچ چکی ہے، کیس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔عدالت نے معاہدے کے تمام نکات بھی طلب کر لیے ہیں۔

این این آئی کے مطابق رضا کاظم نے کہا کہ لائسنس دینے والی اتھارٹی اور فریق کمپنیوںکے درمیان ثالثی کا معاہدہ نہیں، آئی سی سی یا کوئی ثالثی ٹربیونل کیس نہیں سن سکتا، سپریم کورٹ اس حوالے سے عبوری حکم جاری کرے ۔ دریں اثناء ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی ٹی تھیان کیخلاف سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں توہین عدالت کی درخواست دائرکر دی گئی۔ درخواست گزاربیرسٹر ظفراللہ نے موقف اختیارکیا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوامقدمے سے متعلق عالمی عدالت میں درخواست دائرکرنا پاکستانی عدالتوںکی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔