کرپشن جمہوریت اور آمریت

جاوید قاضی  ہفتہ 30 اپريل 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جمہوری اور غیر جمہوری اداروں کے تعلقات میں ان بن اپنے عروج پر ہے اور اب یہ کہنا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اگرچہ مشکل تو ہے لیکن اتنا مشکل بھی نہیں۔ ان تعلقات میں ہتھوڑے کا کام کیا پاناما لیکس نے اس پر پھر’’مالک‘‘ فلم پر پابندی نے اور چارچاند لگا دیے اور ’’بات بنی کچھ اور، تم نے سنی کچھ اور‘ میں نے کہی کچھ اور‘‘ کے مانند ہوا میں نمی کا تناسب اتنا ہے کہ دھند سی چھا گئی ہے۔ نہ صحیح سنائی دیتا ہے نہ صحیح دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ کہنا مجاز ہے کہ ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔بقول غالب

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

نہ ملک میں جمہوری دور کا بول بالا ہے نہ آمریت کا مقام ہے۔ نہ تیتر ہے نہ بٹیر ہے۔ آٹھ سال کا مسلسل جمہوریت پا ہونا اس ملک خداداد کے لیے بہت بڑی عنایت تھی اور پھر ڈگر سے ہٹتی جمہوریت نظر آرہی ہے۔ اقربا پروری جو آمریتوں کے دور میں ہوئی ہے وہ آپ سب یہ جمہوری دور میں بھی عیاں ہے۔ لوگوں کے فلاح دینے والے اداروں کا بٹھہ بیٹھ گیا ہے۔

مگر یہ جمہوریت آمریتوں کی کوکھ سے نکلتی جمہوریت ہے اس پر آمریتوں کی باقیات ہیں۔ آمریتیں اور ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں آمریتوں میں کورٹس ہوا ہی نہیں کرتیں۔ وہ جس نے نئے لیگل آرڈر کے تحت حلف لیا ہو۔ وہ کیسے آئین سے وفا کرے گا تو پھر یہ بھی بتلائیے کہ کس آمریت کے بعد آنے والی جمہوریت نے ان کو بری کیا جنھوں نے آمر سے وفادار رہنے کا حلف لیا تھا اور یہ کیسے ہوکیونکہ ہر جمہوریت جو آمریت کے بعد آئی، اس نے خود آٹھویں یا سترہویں ترمیم کے تحت آمریت کو خود فطری عمل کہا ہوتا ہے اور پھر ذرا یہ بتائیں کہ ان کی پارٹیوں کی صفوں میں وہ لوگ نہیں ہوتے جو کل آمریتوں میں دندناتے پھرتے تھے۔

کرپشن آج کی بات تو نہیں اور جمہوریت کے جانے کے بعد بھی نہیں جاتی، اگرکوئی مجھے یہ بتائے کہ جاتی ہے تو بخوبی و جھوم کے بجے تازیانے آمریت کے، یہ تو ارتقا کا سفر ہے۔ ہندوستان میں نریندر مودی اس لیے جیت سکے کہ کانگریس پر کرپشن کے شدید الزامات تھے، پوری دنیا میں ہر جگہ یہ ہے توکیا اس سے آمریتوں کے راستے کھلتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

ہاں لیکن میرے ملک میں جب بھی جمہوریت پر وار کیا گیا تو وجہ کرپشن بتائی گئی اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ زرداری کے سائے میں سندھ حکومت نے نااہلی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور یہ بری حکمرانی تبھی بنی ، جب اچھی حکمرانی کو بیچا گیا ہوگا۔ توکیا ہم بھول گئے، ارباب رحیم کے زمانے کو، جنرل مشرف کے زمانے کی اقربا پروری کو۔ آپ پاناما لیکس پر چپ ہیں، شوکت عزیز جو بینکار تھے کوئی ان سے بھی پوچھے کہ کیسے ہوتا ہے کالے دھن کو سفید کرنے کا کاروبار؟

جنرل ضیا الحق نے اس ملک کے ساتھ جو کیا وہ کیا تھا؟ جو جنرل ایوب کے زمانے میں مشرقی پاکستان میں نفرتوں کی وہ ہوا بھری جس کو بالآخر جنرل یحییٰ نے آ کے ایک ہی جھٹکے سے مسمار کیا۔ وہ کیا تھا؟

اگر جنرل ایوب کی گود میں بھٹو پلے بڑھے تھے تو مسلم لیگ ن والے کس آمر کے ساتھ تھے؟ ریفرنڈم میں جنرل مشرف کی حمایت تو عمران خان نے بھی کی تھی اور پھر اقتدار میں شراکت تو خود بے نظیر نے بھی کی تھی اور اب تک یہی کچھ ہورہا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں  یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہیں تو آئیے ناں، اٹھیے ناں  کرپشن کے خلاف اور اگر نہیں آتے تو پھر وہی آئیں گے جو غیر اخلاقی سہی مگر  ہیں تو طاقت کا سرچشمہ۔ شب خون ہو اور ایک بھی قطرہ لہو کا نہ گرے۔

اس طرح تو نہیں ہوتا پھر۔ ابھی شب میں گرانی نہیں آئی، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی کے مانند یہ کہا جائے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور اسے یہ مقام نہیں ملا اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی تاوقتیکہ جب یہ حقیقت بنے اور رائج الوقت سکہ ہو۔ ’ مالک‘  فلم میں جو دکھایا جا رہا ہے وہ گمراہ کن ہے اور اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ کیا ایسا کچھ ہمارے اینکر نہیں بولا کرتے۔ کیا مذہبی انتہا پرستی میں ان کے بیج نہیں بوئے ہوئے۔

’مالک‘  فلم میں جو دکھایا جارہا تھا وہ غلط مگر جس انداز سے اس پر پابندی لگائی گئی وہ اس سے بھی زیادہ غلط۔ آپ ایک غلط کام کو دوسرا غلط کام کرکے نہیں روک سکتے یہ وہ بحث تھی، آپ کی نیندیں ادارے کی دستخط سے چل نکلی تھی تو چلنے دیجیے۔ مالک میں جھوٹ بھی تھا پروپیگنڈا بھی تھا۔کیا بھارتی فلموں میں وہاں کے ٹاپ کے سیاستدانوں کے چہروں پر طمانچے نہیں مارے جاتے؟ کیا انھوں نے ان فلموں پر پابندیاں لگائی ہیں؟

سوشل میڈیا پر کچھ بھی آسکتا ہے، اچھا ہو یا برا، جھوٹ ہو یا سچ، جتے اچھے طریقے سے آپ پروپیگنڈا آج کے زمانے میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پرکرسکتے ہیں وہ تو شاید اب کے کہیں اور بھی نہیں کرسکتے۔ تھوڑے سے ڈالروں کے عوض آپ لاکھوں لوگوں تک رسائی پا سکتے ہیں اورآپ نے اپنی تاریخ کو اتنا مسخ کیا ہے کہ لوگوں کوگمراہ کرنا آسان ہے۔ان سے آپ نے تعلیم بھی چھین لی ہے اور ایسے سیکڑوں ہیں جو پڑھے لکھے جاہل ہیں یوں کہ وہ مسخ شدہ تاریخ سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ بے چہرہ سے ہوگئے ہیں۔

مگر ایک چیز جو سچ ہے وہ یہ ہے کہ ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ دنیا بہت سکڑ گئی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے لازم ہوگئے ہیں۔ آمریت کا کوئی مستقبل نہیں جمہوریت بہت آہستہ صحیح، بہت سست صحیح آگے کے راستے اسی سے نکلتے ہیں، ضرورت عوام کو بیداری دینے کی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت یرغمال نہ ہو، اس کے لیے نئے قوانین بنائے جائیں، اس کے لیے اداروں کو اور مضبوط کیا جائے۔

ہماری فوج پاکستان کا مضبوط ادارہ ہے اور بالخصوص انتہا پرستی کے حوالے سے اس ادارے نے ایک واضح پالیسی کو مرتب کیا ۔ یہ ادارہ ہے جتنا سیاست سے دور رہے اتنا ہی یہ ادارہ اپنی عزت و حیثیت لوگوں میں پاتا ہے اور جب بھی اس ادارے کو سیاست کی طرف دھکیلا گیا اس کے نتائج نہ اس ادارے کے لیے اچھے رہے اور نہ ملک کے لیے۔

ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، ہم اپنے خطے کی، چائنا، ہندوستان کے بعد تیسری بڑی طاقت ہیں۔ ہمیں اپنی سول قیادت میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں لانی ہیں اور وہ تبدیلیاں کسی غیر فطری طریقے سے نہیں بلکہ فطری انداز میں لانی ہیں اور وہ فطری طریقہ ہے، بار بار بیلٹ باکس کی طرف رجوع کرنا۔ حکمرانو! اس بحران سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سال پہلے الیکشن کرائے جائیں یعنی 2017 میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔