Limited Edition

شیریں حیدر  اتوار 1 مئ 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جس دور میں اس وقت ہم ہیں، یہ بھی بڑا ہی عجیب دور ہے، ہم بسا اوقات اپنے سر کو جھٹک کر خدا سے سوال کرتے ہیں کہ ہم اس دور میں کس طرح اور کیوں misfit ہیں۔ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہیں( بقول ہمارے بچوںاور ہم سے بعد میں آنے والی نسل کے) ہماری تربیت میں اپنے ماں باپ اور بزرگوں کے اثرات ابھی بھی زیادہ ہیں، وہ بزرگ جو لگ بھگ اسی نوے سال قبل پیدا ہوئے ہوں گے، ان کی سوچ، ان کی اقدار اور ان کے سکھائے ہوئے اسباق کا ہماری شخصیات پر گہرا اثر ہے۔ ان سے لے کر ہمارے بچوں اور پھر ان کے بچوں کی نسل تک تین سے چار نسلوں کا فاصلہ حائل ہو گیا ہے۔ وہ سست رفتار اور سادہ زمانے کے لوگ اور اب کے بچے ایسے ہیں کہ ان کے اپنے ماں باپ بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

ہمارے بچے ترقی کی راہ پر عجیب انداز سے چل رہے ہیں اور ساتھ ہمیں بھی گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ان پر ہماری تربیت کے دھندلے دھندلے سے اثرات ہیں اور اس سے کہیں زیادہ واضع اور بڑھ کر اثرات ہیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ۔ ہم اپنی زندگیوں کے عجیب دوغلے سے موڑ پر کھڑے ہیں، ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیا ہیں، نئی نسل یا پرانی نسل… یا کوئی بیچ کی مخلوق!!! ہمیں اپنے بزرگوں کا احترام بھی سکھایا گیا، اس حد تک کہ ہم ان سے تقریبا خوفزدہ ہی رہتے تھے، ان کے سامنے نظر اٹھا کر بات کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اور جہاں ہم غلطی پر ہوتے وہاں ماں باپ کی اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور عملی سزا کے مستحق ٹھہرتے۔ اس وقت ہم سوچتے تھے کہ ہمارا شمار جلد ہی بزرگوں میں ہو جائے گا اور ہمارے بچے ہمیں اسی طرح محترم سمجھیں گے جس طرح ہم اپنے بزرگوں کو سمجھتے تھے مگر…

اب ہمیں کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کے جذبات کاخیال رکھنا اہم ہے کیونکہ اب زمانہ کچھ اور ہے، پہلے جیسے حالات نہیں!! ہم بچوں کے جذبات کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ہم ان سے بھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کے جذبات مجروح نہ ہوجائیں۔چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی ڈانٹیں، کسی غلط کام کرنے سے روکیں یا بری بات پر ٹوکیں تو سننا پڑتا ہے کہ بچوں کی نفسیات پر یوں ڈانٹ ڈپٹ سے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ڈرپوک  ہوجاتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ بچوں کے مزاجوں کی نزاکت اور دو نسلوں کے بیچ کے تفاوت نے ہمارے لیے دھندلی سی فضا تخلیق کر دی ہے، ہمارے بچے ہر بات پر ہم سے بحث کرتے ہیں، ہر حکم کا جواز مانگتے ہیں اور ان کی بات نہ مانیں تو سو سو دھمکیاں ملتی ہیں۔

ہم وہ ہیں کہ کبھی اپنے سے بڑوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرتے تھے خواہ وہ باپ ہو، استاد، کوئی اور بزرگ یا شوہر اور ابھی تک ہم اپنے بزرگوں کا احترام اسی طرح کرتے ہیں ، ان سے بات کرتے سمے نظر جھکی ہوئی اور لہجہ انتہائی با ادب۔ جو کوئی گستاخی سر زد کرے تو بزرگ کہتے ہیں کہ اب ہمارے بچے ہمارے کندھوں کو چھونے لگے ہیں، ہم اگر ان کا احترام نہیں کریں گے تو اپنے بچوں سے اس کا ویسا ہی نتیجہ پائیں گے۔ آج کی نفسیات کہتی ہے ، ’’ کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر وہ بات نہیں کرتا جس کے دل میں چورہوتا ہے اور کسی کی طرف جب تک دیکھ کر بات نہ کی جائے اس کا مطلب ہے کہ آپ اس شخص کو اہمیت نہیں دیتے ، جس کے ساتھ آپ بات کر رہے ہیں!‘‘

ہمیں تو بتایا گیا کہ ماں ، باپ، استاد، بزرگ اور عمر میں ہم سے بڑے جو بھی لوگ ہیں، وہ ہم سے عزت اور احترام کے مستحق ہیں اور بچے شفقت کے۔ اب دھارا الٹا چل پڑا ہے، آج کی کسی بچی سے کہو کہ شوہر کی عزت لازم ہے اور اس سے بلند آواز میں بات نہیں کرنا چاہیے تو وہ پوچھتی ہیں کہ کیا شوہر خدا ہے، کیا وہ ان سے زیادہ پڑھا لکھا، زیادہ کمانے والا یا زیادہ عقل مند ہے، آج معاملات برابری کی بنیاد پر نمٹائے جاتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ جلد ہی معاملہ نمٹ جاتا ہے۔

بچے خود تو ماں باپ سے بحث کرتے وقت نہ اپنی آواز نیچی کرتے ہیں نہ نظر اور جہاں ماں باپ اپنی آواز بلند کریں، دھڑلے سے کہتے ہیں ، ’’ چلا کر کیوں بات کر رہے ہیں آپ، بہرہ نہیں ہوں میں!!‘‘ رشتوں کے درمیان سے ادب اور احترام اس طرح اٹھ گیا ہے جس طرح محبوب کی محفل سے ٹھکرایا ہوا عاشق اٹھتا ہے۔ جب بھی حالات کے بگاڑ کے تناظر میں بات کی جاتی ہے، وہ ملک یا معاشرے کے عمومی طبقے کی نمایندگی کرتی ہے، لازم نہیں کہ ملک کا ہر بچہ اور نوجوان اسی طرح ہو مگر چونکہ ایک غلط رجحان معاشرے میں عموماً زیادہ تیزی سے فروغ پاتا ہے ، اس لیے ایسی برائیوں اور بدعتوں کا تذکرہ لازم ہے کہ پودے کی پنیری سب سے نازک حصہ ہوتی ہے اور اس اسٹیج پر پودے کو تلف کرنا آسان ہوتا ہے۔

جب معاشرے میں کسی برائی کا پودا لگا دیا جاتا ہے، خواہ وہ اپنوں کے ہاتھوں ہو یا اغیار کے ہاتھوں ، چونکہ اس پودے کی پرورش اور پرداخت کے بعد وہ پودا مضبوط ہو جاتا ہے ، اس وقت اسے تلف کرنے کے لیے زیادہ محنت بھی درکار ہوتی ہے اور خدشہ بھی رہتا ہے کہ اس کی جڑ کہیں گہرائی میں رہ گئی تو پھر پھوٹ نکلے گی، جس طرح ایک بیج یا جڑ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ آپ کو بسا اوقات یہ ننھے ننھے پورے نہ صرف کچی مٹی سے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ کبھی آپ کو اپنے گھر کے پکے فرشوں کو توڑ کر بھی یہ نرم نازک کونپلیں پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں ، بچوں کی بگڑتی ہوئی عادات اور ان کی زبان کی سختی، ایسی چیزیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، ان کی تلفی عمر کے ان ہی اولین برسوں میں ممکن ہوتی ہے جب پہلی بار ہمیں ان کی موجودگی محسوس ہوتی ہے یا اس کا ادراک ہوتا ہے۔

اپنے بچوں کے بگاڑ پر پریشان، ان کی ناراضگی سے خوفزدہ، اپنے بزرگوں کی وضع داری کو نبھانے کی کوشش میں کوشاں اور ناکام کہلانے والے… ہم نئی پرانی نسل کے امتزاج کے لوگ، Limited Edition ہی کہلا سکتے ہیں۔

ترقی کی رفتار پر بھاگتی ہوئی نسل، اقدار سے بھی دور بھاگتی جا رہی ہے، وہ اقدار جو اس معاشرے کی خصوصیت اور لازمی حصہ تھیں۔ ترقی کا کوئی عمل اکائی میں ظہور پذیر نہیں ہوسکتا، یعنی وہ ہم سے یہ توقع نہیں کرتا کہ انسان خاندان یا ملک کے بغیر ہو، کوئی ترقی اس وقت تک ترقی نہیں کہلا سکتی جب تک کہ اس کے اثرات پوری سوسائٹی پر نظر نہ آئیں۔ چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کبھی کبھار کوئی کاروباری آدمی اپنے کاروبار میں ترقی کر لیتا ہے، اس کی ترقی کہاں سے نظر آتی ہے کہ اس کے گھر میں دولت کی فراوانی ہو جاتی ہے، گاڑیوں اور نوکروں چاکروں کی ریل پیل ہو جاتی ہے، قیمتی ملبوسات ان کی شخصیتوں کا حصہ بن جاتے ہیں، مگر!! جو چیز تبدیل نہیں ہو سکتی وہ سوچ اور نظریات ہیں، جب تک انسان اپنی سوچ کو اتنا ہی پسماندہ رکھے گا اس کی ترقی ، ترقی نہیں ہوتی۔

ہماری نئی نسل ترقی کی دعویٰ دار سہی مگر جہاں بات عادات اور اقدار کی آتی ہے وہاں انھیں ریورس گئیر لگا ہوا ہے یعنی اس میں تنزلی ہے، برداشت کی کمی، زبان درازی، احترام کا فقدان، ان سب نے مل کر ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر آج سے کئی سو سال پہلے دھکیل دیا ہے جب تربیت، تہذیب، تعلیم اور علم کا فقدان تھا۔ کسی بھی ملک کی کوئی فلم لگا کر دیکھ لیں، چند سال پہلے کی فلموں کے مقابلے میں گھٹیا زبان اور واہیات گالی گلوچ حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ تہذیب آئے اور سوچ کی مثبت تبدیلی کے ساتھ برداشت کو شخصیت کا حصہ بنایا جائے مگر ہو اس کے الٹ رہا ہے۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے کئی دفعہ ایسے الفاظ سنتے ہیں کہ گھبراکر دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور تنہا بھی ہوں تو کان گرم ہو جاتے ہیں، یہ سب کچھ وہ کہاں سے سیکھتے ہیں، اپنے گھر سے، اپنے بہن بھائیوں سے، اپنے والدین سے، اپنے گلی محلے سے، اپنے اسکول سے یا اپنے ہم جولیوں سے؟ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی تربیت کی ذمے داری اب ٹیلی وژن کے ’’ ناتواں ‘‘ کندھوں پر آن پڑی ہے، اس میںکارٹونوں سے لے کر ، خبروں تک کا انداز فلمی ہے اور فلم اور ڈرامہ تو یونہی مادر پدر آزاد ہو گیا ہے کہ کوئی بھی آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں دیکھ سکتا۔

ہم خود کو بے بس کیوں پاتے ہیں، کیا ہمارے ہاتھ سے وقت کی طنابیں چھوٹ چکی ہیں یا ہم اپنی نئی نسل سے بالکل مایوس ہو چکے ہیں؟ اگر ان میں سے کچھ بھی سچ ہے تو یہ بہت خطرناک سچ ہے۔ ایک مسلمان معاشرے کی اچھی اقدار ہی تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس مذہب کی طرف مائل اور قائل کرتی ہیں کہ ان میں بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے شفقت کا رجحان مذہب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اب تو مسلمان بھی اسی لیے ہیں کہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو گئے ہیں ورنہ ہم میں تو اور غیر مسلموں میں بہت واضح فرق نہیں رہا ، نہ لباس میں، نہ بول چال میں، نہ کھانے پینے میں اور نہ عادات و اطوار میں۔ اگر ہم یونہی آنکھیں بند کر کے اس نسل کو آزاد چھوڑ دیں گے، اپنی اولادوں کو بھی سمجھاتے اور ٹوکتے ہوئے ڈرتے رہیں گے تو بہت جلد ہماری لغت سے اقدار کا لفظ حذف ہو جائے گا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔