بُک شیلف 

رضوان طاہر مبین  اتوار 1 مئ 2016
فقط علی امام کے مداحوں کے لیے نہیں، آرٹ میں دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ ایک Must Read ہے، :فوٹو : فائل

فقط علی امام کے مداحوں کے لیے نہیں، آرٹ میں دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ ایک Must Read ہے، :فوٹو : فائل

فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں

مصنف: رئیس فاطمہ

صفحات: 232، قیمت: 600 روپے

ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان

یوں تو  رئیس فاطمہ کی کالم نگاری کا آغاز تو زمانۂ طالب علمی میں بہ عنوان ’’نذرطالبات‘‘ ہوگیا تھا، جب ایک معاصر روزنامے میں طلبہ کے صفحے کے نگراں اور استاد الاساتذہ ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے طلبہ کو دعوت تحریر دی تھی۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ گاہے بگاہے مختلف اخبارات وجرائد میں جاری رہا، تاہم گزشتہ 16 برس سے یہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر باقاعدگی سے رواں دواں ہے۔ رئیس فاطمہ 1974ء سے درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ اب تک 14 کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ جن میں ناول، افسانے، کہانیاں، سفرنامے اور بچوں کی کہانیوں کے علاوہ کالموں کا مجموعہ بھی شامل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی ان کے کالموں اور ادبی مضامین کا مجموعہ ہے، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اس میں فنون لطیفہ کے حوالے سے لکھے گئے کالم اور مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ ورق گردانی کیجیے تو تاریخ، ادبیات، روایات اور فنون لطیفہ کے زمروں میں 44 کالم چُنے گئے ہیں۔ ان میں حافظ شیرازی، امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، انشااللہ خان انشا، مومنؔ، شاہد دہلوی اور عطیہ فیضی سے ناہید صدیقی اور ماسٹر مدن کے حوالے سے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کا قلم اپنی تہذیب کا ایک خاص حوالہ ہے، جو ترقی کے نام پر درآنے والی منفی سماجی تبدیلیوں پر بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ ؔمعروف ادیب الطاف فاطمہ انہیں لکھتی ہیں کہ ’’تمہارا افسانوی ہنر تمہارے صحافیانہ پیشے سے Blend up ہو کر ایسے جلال وکمال کا روپ اختیار کرگیا ہے، کہ ان کو پڑھتے ہوئے بار بار قرۃالعین حیدر کا خیال آتا ہے۔‘‘

میرا سفر ہندوستان

مصنف: ڈاکٹر محمد  وسیع اللہ خان

صفحات: 112، قیمت: 200 روپے

ناشر: محمد معز اللہ خان

مصنف نے یہ سفر ہندوستان براستہ سمندر اختیار کیا۔ یہ سفری احوال ویزے کے حصول کے لیے  پیش آنے والی مشکلات سے شروع ہوتا ہے۔ ویزے کے لیے سفرنامہ نگار کے کراچی کے قونصل خانے کے رخ کرنے کا ذکر ہے،چوں کہ کراچی میں بھارتی قونصل خانہ بند ہوچکا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سفرنامہ تقریباً دو عشروں پرانا ہے، تاہم کتاب میں اس کا کوئی واضح تذکرہ نہیں کیا گیا۔ سفرنامہ نگار کا مقصود اجمیر، دلی اور آگرے کی سیاحت تھی، مگر چوں کہ سفر کا وسیلہ بحری راستہ بنا، اس لیے ممبئی بھی اس میں شامل ہوگیا۔ ہندوستان کے چار شہروں کے سفر کی یہ دل چسپ داستان سترہ مختلف ابواب میں منقسم ہے، ان ابواب کو بھی موضوعاتی اعتبار سے مختصر ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے۔ مقامات اور واقعات کے پس منظر کے ساتھ مصنف کے احساسات سے آّراستہ سفر کا احوال مختصر جملوں میں استوار ہے، جس سے عام قاری کو بھی کتاب کی خواندگی میں دقت نہیں ہوتی۔ تاریخی مقامات کی سیر کرتے ہوئے سفر کے احوال کے ساتھ ساتھ ان جگہوں کی خصوصیات اور تاریخی معلومات بھی ساتھ ساتھ درج ہیں، جس سے سفرنامے میں ہندوستان کی تاریخ کے حوالے سے اچھی خاصی معلومات کا احاطہ ہو جاتا ہے۔

آپ بیتی جگ بیتی

مصنف: رفیع الزماں زبیری

صفحات: 198، قیمت: 300 روپے

ناشر: فضلی سنز، کراچی

رفیع الزماں زبیری کی لکھنے پڑھنے سے وابستگی کا سلسلہ باقاعدہ کالم نگاری سے کہیں پہلے سے جاری ہے۔ ’ایکسپریس‘ میں کالم نگاری سے پہلے ان کا ایک نمایاں حوالہ ’ہمدرد‘ میں حکیم محمد سعید کے قائم کردہ شعبے ’’نونہال ادب‘‘ رہا، جس سے وہ بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ اسی مناسبت سے بچوں کے مقبول عام رسالے ہمدرد نونہال میں وہ ایک مستقل مضمون بہ عنوان ’’سچی بات‘‘ لکھتے تھے۔ یہ مضمون کتاب سے محبت کرنے والے نونہالوں کی دل چسپی کا خاص محور ہوتا، کیوں کہ ایک صفحے کے اسی مضمون میں انہیں نئی آنے والی کتب کی سن گن مل جاتی، پرانی کتابوں کی اشاعت نو کا پتا چلتا، کتابیں حاصل کرنے، پڑھنے اور انہیں برتنے کے لیے مفید مشورے ملتے۔ جب انہوں نے ایکسپریس کے لیے کالم نگاری شروع کی، تو اس  کا محور بھی کتابیں ہی رہیں۔ اسی مناسبت سے ان کالموں کو ’’کتابوں کی باتیں‘‘ کا مستقل نام دیا اور کتاب کے عنوان کو ہی ہر کالم کا عنوان بنایا، جس پر پورا کالم دراز ہوتا۔ کسی کتاب کا اسلوب، خاصیت، اقتباسات سے لے کر دل چسپ چیزوں تک سب کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ زیر تبصرہ کتاب ان کے ایسے ہی 43 کالموں کا مجموعہ ہے۔ یوں اس کتاب کو ہم بہت سی اچھی کتابوں کو مفصل طریقے سے متعارف کرانے والی کتاب قرار دے سکتے ہیں۔ مصنف ریڈیو سے بطور نیوز کنٹرولر اور چیف رپورٹر بھی وابستہ رہے، اس وقت کراچی آرٹ ایجوکیشن سوسائٹی کے نائب صدر ہیں۔ اکثر لکھاری اپنی کتابوں میں زیادہ نہیں تو کتاب کے تعارف میں کم سے کم ایک آدھ تحریر تو شامل کر ہی لیتے ہیں، لیکن اس کتاب میں کالموں کے سوا کوئی پیش لفظ، کسی قسم کا تعارف، یا تبصرہ بھی شامل نہیں کیا گیا۔

’ماہ نو‘ (ادبی جریدہ)

نگران اعلیٰ: شفقت جلیل

صفحات: 222، قیمت: 500 روپے

ناشر: ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز، لاہور

’ماہ نو، لاہور‘ وزارت اطلاعات، نشریات وقومی ورثے کے تحت نکلنے والا ایک ادبی جریدہ ہے، جس کی نگراں ثمینہ وقار، جب کہ نگراں اعلیٰ شفقت جلیل ہیں۔ زیرتبصرہ ماہ نو کا خصوصی شمارہ ’جالب نمبر‘ ہے۔ ماہ نو کے اس سے قبل اقبال، غالبؔ، فیضؔ اور فرازؔ وغیرہ جیسے شعرا پر خصوصی شمارے شایع ہو چکے ہیں۔ؔ حبیب جالب پر شامل 40 مختلف مضامین میں محسن بھوپالی، انتظار حسین، ڈاکٹر مبارک علی، الطاف گوہر، منو بھائی، زاہدہ حنا، امجد اسلام امجد اور سعید پرویز وغیرہ کے رشحات قلم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاہ   حبیب جالب کے کچھ خطوط اور ان پر لکھی گئی مختلف شعرا کی 20 نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ جن میں انور شعور، جاوید صبا، نثار ترابی اور حسن کمال وغیرہ کا کلام شامل کیا گیا ہے، جب کہ قطعات کے زمرے میں تشنہ بریلوی اور روحی کُنجاحی وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی اس شمارے میں جالب کی زندگی، شخصیت، شاعری اور سیاسی وفکری خیالات کے ساتھ ان کا مشہور کلام اور اس کے محاسن اور خصوصیات سے متعلق قابل قدر مواد یک جا کر دیا گیا ہے۔ عمدہ کاغذ پر طبع اور حبیب جالب کی کچھ تاریخی اور رنگین صفحات سے آراستہ یہ پرچا سرکاری ادارے سے شایع ہونے کے باوجود کافی منہگا ہے، جب کہ دوسری طرف اس میں رسالے کے جلد نمبر، تاریخ اشاعت اور دورانیہ اشاعت نہیں لکھا گیا، جس سے یہ معلوم نہیں چلتا کہ یہ پرچا، ماہانہ ہے، سہ ماہی یا  شش ماہی؟ یہ کتنے عرصے سے شایع ہو رہا ہے، اور یہ جالب نمبر دراصل کس مہینے میں اشاعت پذیر ہوا؟ وغیرہ۔ کسی بھی جریدے کے لیے یہ تمام چیزیں لازم تصور کی جاتی ہیں۔ یہ عام قاری کے لیے معلومات اور کسی محقق کے لیے بطور حوالہ ناگزیر ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی اس تاریخی پرچے کے مشمولات میں فہرست تو خوب سجی ہوئی ہے، لیکن جب قاری اپنے مطلوبہ مضمون کی تلاش میں ورق پلٹاتا ہے، تو شدید کوفت سے دوچار ہوتا ہے ، کیوں کہ فہرست مضامین میں صفحہ نمبر درج نہیں کیے گئے۔ امید ہے کہ آیندہ اشاعت میں ان بنیادی غلطیوں کی تصحیح کر لی جائے گی۔

تبصرہ نگار:اقبال خورشید

دیکھا تیرا امریکا (سفرنامہ)

مصنف: رضا الحق صدیقی

صفحات: 191، قیمت: 600 روپے

ناشر: بک کارنر، جہلم

’’عدیل کے ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوارگیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔‘‘

کچھ یوں زیر تبصرہ کتاب کا آغاز ہوتا ہے، جو رضا الحق صدیقی کی تیسری کاوش ہے۔ یہ ان کا امریکا کا سفرنامہ ہے۔ رضا الحق صدیقی اپنی نسل کے ان گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں، جنھوں نے سوشل میڈیا کو تخلیقی اظہار کے لیے بھرپور انداز میں برتا۔ اردو میں ویڈیو کالمز کا سلسلہ شروع کیا، جسے ’’بولتے کالمز‘‘ کا نام دیا۔ یہ کوشش بہت پسند کی گئی۔ چوں کہ اپنے سامعین کا مزاج سمجھتے تھے، اس لیے مشکل پسندی سے اجتناب برتا۔ وہ مضامین ایک روزنامے میں بھی چھپتے رہے۔ انھیں ’’کتابیں بولتی ہیں‘‘ کہ زیر عنوان چھاپا۔ ادبی حلقوں نے اسے خاصا پسند کیا۔ ان ہی صفحات میں اُس کتاب تبصرہ پر ہوا تھا۔ ان کی پہلی کتاب تکنیکی نوعیت کی تھی۔

یہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی ہے، اور یہی اس کا حسن۔ اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کے ساتھ امریکا کی سیر کرتے ہوئے مصنف ہمیں اہم معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ جہاں ضرورت پڑتی ہے، تاریخ بیان کرتے ہیں، مگر اس سہولت سے کہ پڑھتے ہوئے کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ امریکی پاک ٹی ہاؤس، لکڑی کے دیوار و در، ڈاؤن ٹاؤن، مجسمہ آزادی، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سمیت کئی مشہور مقامات کا تذکرہ آتا ہے۔ جب وہ مغربی کلچر کے مدمقابل مشرقی کلچر منظر کرتے ہیں، آپ کو کچھ اختلاف ہوسکتا ہے، مگر ہر مصنف اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کا حق رکھتا ہے۔ نثر سادہ اور رواں ہے، ایک بہاؤ ہے۔ آدمی پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ڈسٹ کور کے ساتھ شایع ہونے والی اس کتاب کا ٹائٹل اچھا ہے۔ کاغذ اور چھپائی کی کوالٹی خوب۔ ہاں قیمت کچھ زیادہ ہے۔

چین کی بے مثال ترقی کا سفر

مصنف: پروفیسر ندیم اسرار عثمانی

صفحات: 240، قیمت: 1000 روپے

ناشر: ایم ایف انٹرنیشنل

کتاب کے مصنف، پروفیسر ندیم اسرار عثمانی ایک جانب تدریس کے پیشے سے منسلک، تو دوسری جانب کالم نگاری اور مضمون نویسی میں مصروف۔ اس سے قبل ان کی چھے کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ معیشت ان کا مرکزی موضوع۔ کچھ برس قبل شایع ہونے والی ان کی کتاب ’’پاک چین دوستی کے 60 سال‘‘ کی چین میں بھی پزیرائی ہوئی۔ سرکاری دورے کی دعوت دی گئی، ادھر ایک جامعہ میں وزیٹنگ پروفیسر کا اعزاز دیا گیا۔ اکادمی ادبیات نے بھی نشان سپاس پیش کیا۔

زیر تبصرہ کتاب میں صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پیغامات کے علاوہ چینی سفیر کا پیغام بھی شامل ہے۔ رنگین صفحات کا عنوان ’’مصنف تصاویر کے آئینے میں‘‘ ہے، جن میں وہ پاکستان اور چین کی مختلف معروف شخصیات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اگلا باب ہے: ’’میرا سرکاری دعوت پر یادگار دورہ چین‘‘۔ اس عنوان کو ذرا بہتر انداز میں لکھا جانا چاہیے تھا۔ اس حصے میں وہ اپنے سفر کے ساتھ وہاں کے مختلف مقامات اور شخصیات کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔ اس میں کئی مضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے کا عنوان ہے: ’’پاک چین دوستی کے تبادلے کا سال 2015‘‘۔ اس میں بھی مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک ایسی کتاب ہے، جو پاک چین تعلق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے، اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ معلومات بنیادی نوعیت کی ہے، اس میں تفصیلات نہیں۔ طلبا اور چین سے متعلق بنیادی معلومات جنھیں درکار، ان کے لیے یہ کارآمد۔ امید ہے، وہ اس موضوع پر تفصیل سے بھی لکھیں گے۔ کتاب اشاعت و طباعت کے معیارات پر پوری اترتی ہے۔

فکشن اور تنقید کا تازہ اسلوب

مصنف: محمد کامران شہزاد

صفحات: 351، قیمت: 600روپے

ناشر: مثال، فیصل آباد

شاعروں اور ادیبوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھنا احسن اقدام، مگر المیہ یہ کہ ان کی بڑی تعداد سطحی ہوتی ہے۔ معیار کم ہی نظر آتا ہے۔ اکثر مقالے تو تحقیق کے بنیادی اصولوں پر بھی پورے نہیں اترے۔ ہاں، اگر مقالہ نگار محمد کامران شہزاد جیسا نوجوان ہو، تو زیر تبصرہ کتاب جیسی کاوش سامنے آتی ہے۔

’’فکشن اور تنقید کا تازہ اسلوب‘‘ میں انھوں نے عہد حاضر کے معروف ادیب اور نقاد، محمد حمید شاہد کی تخلیقی و تنقیدی جہات کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے، اور خوب کیا ہے۔ اس سے قبل سے بھی حمید صاحب پر تحقیقی مقالہ لکھا گیا، مگر وہ ذرا محدود تھا۔

یہ کامران کے ایم فل کا مقالہ۔ موضوع انھیں یونیورسٹی آف سرگودھا سے منسلک، نسیم عباس احمر نے تجویز کیا۔ فلیپ بھی انھوں نے ہی لکھا۔ ان کے اپنے الفاظ میں: ’’یہ کتاب محض ایک فکشن نگار اور نقاد کی تحسین کا ماڈل اور جامعاتی تحقیقی کا روایتی مقالہ نہیں، بلکہ افسانہ و ناول کے نئے اسالیب و رجحانات، تنقیدی نظریہ سازی اور عملی اطلاق کے ساتھ فکشن کے منفرد اور انوکھے اطوار کی تفہیم کا بھی وسیلہ ہے۔‘‘

عام طور سے ادبی شخصیات پر لکھے مقالے فقط معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ایسے مقالے کم ہی نظر سے گزرتے ہیں، جو ادبیت کے حامل ہوں، موضوع کا جامع تجزیہ کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب ایسا ہی مقالہ ہے۔ نقاد کی تنقیدی فکر ترقی پسندانہ ہے، مگر اس نے جدید اوزاروں سے بھی استفادہ کیا۔ محمد حمید شاہدکو ایسے فکشن نگار کے طور پیش کیا، جس نے عہد حاضر کے موضوعات کو جدید رجحانات کے مطابق پیش کیا۔ ساتھ ہی تنقید میں مروجہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے روایتی پسندی کے بجائے اپنے اصول وضع کیے۔ کامران کی یہ تصنیف یوں اہم کہ یہ حمید شاہد کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ کتاب اچھے ڈھب پر، سیلقے سے شایع کی گئی ہے۔

مدار (ناول نما)

مصنف: ش فرخ

صفحات: 192، قیمت:  700روپے

ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز

یہ ایک انوکھی کتاب ہے، اور یہ انوکھا پن فکشن کی عطا۔ ہے تو سوانحی عمری، ممتاز مصور، علی امام کی سوانحی عمری، مگر اسے ناول کے ڈھب پر لکھا گیا ہے۔ ناول، جسے ہبل کی ٹیلی اسکوپ سے بڑی ایجاد قرار دیا گیا، جس میں بہ قول ورجینا وولف، زندگی کا ہر موضوع سمویا جا سکتا ہے، جسے ’’مدار‘‘ میں سمودیا گیا۔

علی امام کی سوانح عمری لکھنا ضروری تھا، تاکہ اس قد آور شخص کی زندگی کی خبر ہو، مگر اِسے ناول کے طرز پر لکھ کر ش فرخ نے نئی جہت عطا کردی۔ البتہ فقط فکشن کے ڈھب پر لکھنا اِسے قابل ذکر نہیں بناتا، اصل کمال مصنفہ کا ہے، جن کی تخلیقی اپج نے اِسے ایک قابل مطالعہ، قابل ذکر کتاب بنا دیا۔

ہر سوانح عمری کے مانند یہ کتاب بھی مرکزی کردار کے بچپن سے شروع ہو کر موت پر ختم ہوتی ہے، مگر یہ دونوں مراحل اس خوب صورتی اور پختگی سے بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہیں فلیش بیک تکنیک، کہیں مکالمے، کبھی اوروں کے تذکرہ سے مرکزی کردار کی پرتیں کھلتی ہیں، کبھی تاریخ کا کوئی حوالہ کہانی کو آگے بڑھتا ہے۔

ش فرخ ایک سینئر صحافی، پختہ نثر نگار، آرٹ کے شعبے پر خوب گرفت، جو اس کتاب سے بھی عیاں۔ وہ پاکستانی مصوری اور مصوروں کو جانتی ہی نہیں، ان کے فن کو سمجھتی بھی ہیں۔ اس علم کو ناول میں عمدگی سے برتا ہے۔ علی امام کی کہانی آگے بڑھتی ہے، تو بین الاقوامی مصوروں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں؛ پکاسو، گوگاں، پال سیزان۔ ان کے اقوال، تکنیک، ان کے نظریات، جن کے سمجھنے والے آٹے میں نمک کے برابر، اس کتاب میں سادہ، موثر اور مختصر بیان کر دیے گئے ہیں۔ کچھ آگے بڑھیں، تو امرتا شیرگل، چغتائی، استاد اللہ بخش، صادقین کا تذکرہ، جو اضافی نہیں لگتا، خوب صورتی سے کہانی کے ساتھ گوندھا گیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں ان درجنوں مصوروں سے ملاقات ہوتی ہے، جن کی کراچی میں نمایشیں ہوئیں۔ یہ مصنفہ کی عشروں پر محیط رپورٹنگ کا ثمر ہے۔ یہ تحریریں کتابی صورت میں آگئیں، تو حوالہ کی شے بن گئیں۔

فقط علی امام کے مداحوں کے لیے نہیں، آرٹ میں دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے یہ ایک Must Read ہے، ہاں، اختلاف کا حق آپ رکھتے ہیں۔ نقطۂ نگاہ مصنفہ سے الگ ہوسکتا ہے۔ یہ تذکرہ ضروری کہ کتاب کے پہلے حصے کے مقابلے میں، جہاں کہانی جست لگاتی محسوس ہوتی ہے، دوسرے حصے میں واقعاتی تسلسل دھمیا پڑ جاتا ہے۔ عام قاری کو شاید یہ کچھ ستائے، مگر جس طبقے کے لیے یہ کتاب لکھی گئی، ان کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں۔ ٹائٹل جاذب نظر، کتاب کا سائز بڑا، چھپائی اور کاغذ موزوں۔ البتہ قیمت کی بابت ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ n

(تبصرہ نگار: ا۔خ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔