گردواہ چوبچہ صاحب، سکھ مت کا تاریخی استھان جو اپنی پہچان کھو چکا

مدثر بشیر  اتوار 1 مئ 2016
رو نانک کے چرنوں کی دھلائی کے سبب قائم ہونے والا چوبچہ صاحب آج لاہور کے گنجا ن ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔:فوٹو: فائل

رو نانک کے چرنوں کی دھلائی کے سبب قائم ہونے والا چوبچہ صاحب آج لاہور کے گنجا ن ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔:فوٹو: فائل

سکھ مت میں ان کے دس گرو اور ان کے اہل خانہ خاص عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ اسی عزت اورتقدیس کے باعث ان کے کئی مقدس مقامات اور گردوارے ان گرو حضرات کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں سے منسوب رہے۔

اس ضمن میں ہمیں اندرون لاہور چونا منڈی کے علاقے میں ایک گردوراہ ، چوتھے گرو، گرو رام داس سے منسوب ملتا ہے۔ یہ گردوارہ ’’گردوارہ جنم استھان گرو رام داس‘‘ کہلاتا ہے۔ جس مقام پر گرو رام داس کا جنم ہوا‘ اسی جگہ کو متبرک مانتے ہوئے وہاں ایک عظیم الشان گردوارہ تعمیر کر دیا گیا۔ اسی طرح لاہورہی میں برکی روڈ پر ایک گردوارہ ’’جنم استھان بے بے ناناکی ڈیرا چاہل‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔

اس گاؤں میں گرو نانک جی کی بڑی بہن بے بے نانکی کا جنم ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جگہ پر گرو نانک جی کا قیام بھی رہا۔ اس باعث اس جگہ کو مقدس مانتے ہوئے ایک گردوارے کی تعمیر کی گئی ۔ گرو کی پیدائش اور موت کے علاوہ ان جگہوں کو بھی خاص مانا گیا جہاں کسی گرو نے قیام کیا‘ گھوڑا باندھا‘ کسی چیز پر بیٹھے‘ کھانا کھایا، اس طرح کی نسبتوں سے بھی گردوارے تعمیر کئے گئے۔ ضلع قصور میں ایک گردوارہ ’’گردوارہ منجی صاحب‘‘ مانکے دیکے کے مقام پر ملتا ہے۔

سکھ کی تعلیمات میں لفظ ’’صاحب ‘‘ کا بھی بہت زیارہ استعمال رہا ہے۔ لفظ ’’صاحب ‘‘ جس کے معنی مالک‘ عزت اور احترام کے ہیں۔ کئی جگہیں اور مقدس مقامات کے ناموں کے ساتھ لفظ ’’صاحب‘‘ کی اضافت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جیسا کہ گردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب‘ گردواہ چکی صاحب‘ گردوارہ ادوڑی صاحب ‘ گردوارہ تھڑا صاحب‘ گردوارہ پنجہ صاحب‘ گردوارہ باؤلی صاحب وغیرہ سکھ مت میں لفظ ’’صاحب‘‘ کے استعمال کے کچھ د لچسپ حوالہ جات اس طرح ہیں۔

گرو نانک کے والد نے ان کو لڑکپن میں کچھ رقم کاروبار کی غرض سے دی تو وہ انہوں نے بھوکے فقیروں کو کھانا کھلانے میں صرف کر دی۔ جس مقام پر انہوں نے کھانا کھلایا‘ وہ جگہ ’’سچا سودا‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ اس رقم کے استعمال کے باعث گرو نانک اپنے والد کے خوف کے سبب ایک درخت کی ٹہنیوں میں جا چھپے۔ گرو نانک اور درخت کے اس تعلق کے باعث وہ درخت ’’مال صاحب‘‘ کے نام سے عزت پا گیا۔

درج بالا حوالہ جات کے تسلسل میں ’’گردوارہ چوبچہ صاحب‘‘ پر نگاہ دوڑاتے ہیں۔ یہ گردوارہ لاہو ر کی ایک قدیم آبادی دھرم پورہ میں واقع ہے۔ سب سے پہلے لفظ ’’چوبچہ‘‘ کے معنی جانتے ہیں ’’چوبچہ‘‘ سے مراد کسی ایسے گڑھے‘ حوض کے ہیں جس میں کنوئیں‘ رہٹ یا ٹیوب ویل کا پانی گرتا ہو۔ اس گردوارے کی نسبت کچھ اس طرح ہے کہ جس مقام پر گردوارہ واقع ہے اس مقام پر گرو نانک جی نے ایک چوبچے میں اپنے پیر دھوئے تھے۔ اسی وجہ سے یہ جگہ سکھوں کے لئے مقدس ہو گئی۔ گرو نانک جن کا عہد 1469عیسوی سے 1539عیسوی تک کا ہے ان کی وفات کے تقریباً سو برس کے بعد ساتویں گرو‘ گرہررائے کے بیٹے رائے رام جی نے اس جگہ کو پوجا استھان بنا دیا۔ رائے رام جی کا عہد مغل بادشاہ اورنگ زیب کا دورحکومت تھا۔

رائے رام جی کے چھوٹے بھائی ہری کرشن جی سکھوں کے آٹھویں گرو تھے۔ رائے رام جی کا تعمیر کردہ گردوارہ اس وقت کے لاہور شہر سے باہر تھا اور اس کے اردگرد زیادر تر زرعی رقبہ تھا۔ جب انگریز عہد میں لاہور کی تاریخ پر کتب تحریر کرائی گئیں تو اس گردوارے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کی بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے کہ اس عہد میں شہر لاہور اور اس کے گردونواح کی ان گنت تاریخی عمارات انتہائی درست حالت میں موجود تھیں۔ جس کی وجہ سے اس گردوارے پر کچھ نہ تحریر کیا گیا۔ اس گردوارے کا حوالہ سکھ ان سائیکلوپیڈیا میں ملتا ہے اور اسی حوالے کی بنیاد پر اقبال قیصر نے اپنی کتاب ’’پاکستان وچ سکھاں دیاں تواریخی پوتر تھاواں‘‘ (ص18) پر یوں تحریر کیا ہے۔

’’لاہور شہر میں سے گزرنے والی نہر کے کنارے مغل پورہ اور دھرم پورہ کے درمیان ایک بس اسٹاپ ’’چوبچہ صاحب‘‘ کے نام سے ہے اس بس اسٹاپ کی شمال سیدھ کی آبادی میں رائے رام جی کا استھان چوبچہ صاحب ہے یہ ایک بہت بڑی عمارت ہے۔ داخلی دروازہ بہت بڑا ہے۔ اس میں داخل ہونے کے دوسو قدموں کے فاصلے پر گلی دو الگ حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے سیدھے ہاتھ والی سیدھ پر ایک گول دروازہ ہے۔ یہ گردوارہ صاحب کا دروازہ ہے اسی طرح اور طرز کے مزید چار دروازے بھی ہیں۔ ان دروازوں کے اندر ایک چوکور عمارت ہے جس کے چاروں کونوں پر برج تعمیر کئے گئے ہیں۔

یہی پرکاش استھان ہے یہاں پر سچے گرو ‘ گرو نانک جی نے قیام کیا گرو نانک جی دیو جی نے جس تالاب (چھپڑی) سے پیر دھوئے رائے رام جی نے اس کو عبادت کی جگہ متعین کر دیا۔ عصر حاضر میں اس مقدس جگہ پر یوپی، سی پی سے آئے مہاجرین آباد ہیں۔ عمارت کی حالت بہت مخدوش ہے ا گر آپ اس جگہ کو اندر سے دیکھنا چاہیں تو دیکھ نہیں سکتے۔ عہد حاضر میں گردوارہ چوبچہ صاحب تک جانے کے لئے نہر ہی کا راستہ استعمال میں آتا ہے اور یہ امراء کے ایک خاص طبقے کی پسندیدہ جگہ رائل پام کلب کے ساتھ گزرتی نہر کے عین دوسری جانب واقع ہے جب لال پل سے براستہ نہر مال روڈ کی جانب بڑھا جائے تو مال روڈ سے تقریبا ایک کلو میٹر قبل دھرم پورہ کی آبادی میں چوبچہ بس اسٹاپ آتا ہے۔

اس بس اسٹاپ سے اندر سیدھی ایک گلی گردوارے تک آتی ہے ۔ بس اسٹاپ سے اندر جائیں تو دائیں جانب بھٹی چائے والے کا مشہور تھڑا ہوٹل آتا ہے۔ اسی سے آگے آئی کون سکول ہے جس سے آگے گردوارے کی پہلی برجی کی عمارت آتی ہے جس کے ساتھ ہی اس کا داخلی دروازہ ہے۔ میں اس گردوارے تک پہلے بھی دو تین مرتبہ ہو آیا تھا۔ لیکن جس طرح ا قبال قیصر صاحب نے تحریر کیا تھا کہ اندر تک رسائی نہایت مشکل ہے۔ میرے ساتھ بھی اسی طرح کے معاملات پیش نظر رہے۔ پھر میں اپنے ایک دوست حافظ تنزیل الرحمن کی وساطت سے گیا جو کہ دھرم پورہ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے میری ملاقات اس علاقے کے مشہور بزرگ سیاسی کارکن اکرم صاحب سے کروائی جو کہ وہاں ’’اکرم برف والے‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت اکرام صاحب کا گھر گردوارے کی عمارت ہی میں تھا۔

اکرم صاحب کا کہنا تھا کہ تقسیم کے وقت دھرم پورہ کے اس حصے میں گردوارے کی عمارت کے علاوہ کچھ فاصلے پر ہندوؤں کے پرانے مکانات بھی موجود تھے۔ اور اعلیٰ حکام میں آج کے دور کی ہندوستان کی وزیر خارجہ سشمہ سوراج کا آبائی گھر بھی تھا۔ گردوارے اور ان پرانے مکانات کے علاوہ اردگرد ایک بڑے حصے میں کھیت اور باغات تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی کی پہچان اس طرح بنی کہ اہل علاقہ کے ڈاک پتے‘ اندرون چوبچہ یا بیرون چوبچہ کے تھے۔ گردوارے کے وسطی میدان میں ایک انتہائی خوبصورت بارہ دری تھی جس کی تعمیر میں سفید اور کالا سنگ مرمر استعمال کیا گیا تھا۔

گردوارے کے داخلی دروازے کے ماتھے پر ایک تانبے کی تختی بھی تھی جس پر گرمکھی میں ایک تحریر کندہ تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سکھوں کا خاص مذہبی نشان بھی بنایا گیا تھا۔ لیکن اب وہ تختی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اس کے داخلی دروازے کے قریب دو چھوٹی چھوٹی برجیاں بھی تھیں بارہ دری والی جگہ پر ایک طویل عرصہ جنگلی کبوتروں کا مسکن رہا۔ لیکن ایام گردش میں جب اس بارہ دری کا خاتمہ ہوا تو وہ جنگلی کبوتر بھی اپنی پرانی نسلوں سمیت ختم ہو گئے۔ اب وہ کھلا میدان عیدگاہ کہلاتا ہے۔ عمارت کے اندر سفید برگد اور کھجور کے درخت بھی تھے۔ جن کا اب کوئی نام و نشان باقی نہیں۔

گردوارے کی جنوب سیدھ میں ہندوؤں کا ایک قدیم شمشان گھاٹ بھی موجود تھا جو کہ تقسیم کے بعد اسکول میں تبدیل ہو گیا ہے اور یہ ا یک طویل عرصہ ’’مڑھیاں والا سکول‘‘ کے نام سے پکارا گیا۔ اسی اسکول سے آگے ہندوؤں کے قدیم مکانات موجود تھے جن میں ان کی مقدس مورتیاں بھی موجود تھیں یہ تمام علاقمہ محلہ لال فقیریا کہلاتا ہے۔ یہاں پر ایک مشہور مسجد ’’فوارے والی مسجد‘‘ کے نام سے ملتی ہے۔ بیرون چوبچہ کی اس آبادی کی جگہ پر تقسیم کے وقت ایک کھٹیک منڈی بھی لگتی تھی۔ کھٹیک منڈی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پر جانوروں کی کھالوں کو چمڑے میں تبدیل کیا جاتا تھا اور اس کا کاروبار بھی ہوتا تھا۔

لیکن یہاں پر یہ منڈی انگریزوں کے باعث مشہور تھی جو کہ جنگلی سوروں کی خریداری کے لئے آتے تھے اور ان کو وہ جنگلی سور اردگرد کے دیہاتی پکڑ کر فراہم کرتے تھے جس سے ان کو اچھے خاصے پیسے مل جایا کرتے تھے۔ علاقے کے بزرگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گردوارے کی عمارت میں ایک سکھ خاتون مائی سرداراں نامی بھی تھی جو کہ تقسیم کے وقت مسلمان ہو گئی تھی۔ مگر ان کو سماج نے کبھی بھی بطور مسلمان نہ مانا اور نہ قابل عزت شہری کی طرح جانا۔ کچھ برس گزرے وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ گردوارے کی عمارت میں دو ہندو خاندان بھی رہائش پذیر تھے جو کہ شدھ اردو بولتے اور مٹی کے برتنوں کا کام کیا کرتے تھے۔ پندرہ بیس برس قبل وہ بغیر کسی کو بتلائے اپنے مکان بیچ کر کہیں اور جا بسے۔

اکرم برف والے کے فرزند اکبر برف والے نے مجھے تمام گردوارہ دکھلایا۔ گردوارے کے بڑے داخلی دروازے سے اندر جاتے ہی دائیں جانب خاص گرنتھ والا کمرہ تھا اس سے آگے ایک قدیمی کنوں بھی تھا جس کو گلی کی تعمیر کے دوران فرش کے برابر کر دیا گیا۔ آگے بڑھیں تو دائیں اور بائیں جانب راستے کھلتے جاتے ہیں۔ کچھ مکانات میں تہہ خانے بھی موجود تھے جو شاید تالاب والی جگہ پر تعمیر کئے گئے تھے لیکن وہ اب بند ہیں۔ مکانات میں آج بھی کچھ جگہوں پر پرانے چھجے‘ جھروکے اور کھڑکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دیواروں پر محرابی چوکٹھے کچھ جگہوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

گردوارے کی قدیم چاروں برجیاں ناپید ہیں۔ لیکن ان کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں کچھ گھروں کے ا ندر خاص پالکی طرز کی دیواریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ گردوارے کے اندروانی حصے کئی جگہوں پر گلیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس تمام عمارت میں کہیں پر بھی اس کے ایک گردوارے کے ہونے کے آثار باقی نہیں بچے ، رائے رام جی کا تعمیر کردہ گردوارہ تقسیم کے بعد ایک خاص سیاسی اور ثقافتی تاریخ رکھتا ہے۔ گردوارے کی اپنی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کی آج کے روز تک کی سرگرمیوں پر بھی ایک نگاہ دوڑاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک اس تمام علاقے میں خاص قسم کا سیاسی شعور، سیاسی مزاحمت کے ساتھ ساتھ زیر زمین سرگرمیاں بھی عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان بننے کے چند روز بعد ہی اکرم برف والے کے والد صاحب محمد حسین کا قتل ہوا جو کہ نہ صرف اس علاقے کا پہلا قتل مانا جاتا ہے بلکہ یہ کئی برسوں کی دشمن داری کی بنیاد بھی بنا۔ اندروں اور بیرون چوبچہ میں جالندھر ، ہوشیار پور، یوپی ، سی پی سے آئے لوگوں کے علاوہ لاہور کے مقامی لوگ بھی رہائش پذیر ہوئے۔ گردوارے سے منسوب ایک بڑا نام نومی بٹ کا بھی ہے جو کہ نو بھائی تھے اور تمام علاقے میں اپنی خاص پہچان رکھتے تھے۔ 1980ء کی دہائی تک اردگرد کا علاقہ کھلا اور سرسبز ہونے کے باعث کچھ مکانات میں ریس والے گھوڑوں کی پرورش اور تربیت بھی کی جاتی رہی ہے۔

آج کے دنوں میں بھی ہمیں کچھ جگہوں پر بزرگ حضرات گھوڑوں کی باتیں اور چوکر کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ گردوارے کی عمارت کے باہر بھی کچھ کنوئیں موجود تھے جو کہ پچھلی کچھ دہائیوں تک بھی پانی کی ترسیل کا سبب بنے رہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد لاہورکے دیگر علاقوں کی مانند ادھر بھی منشیات فروشوں نے اپنے قدم جمائے جو عہد حاضر تک توانا دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام عوامل کی بنیادی وجہ اہل علاقہ کی اکثریت کا غریب ہونا بھی تھا۔ مالی مصائب کے باعث کئی نسلوں نے درست طریقے سے تعلیم نہ حاصل کی اور روزگار کے سلسلہ میں باہر نکل پڑے۔ جب کچھ گھرانوں کے لوگ بیرون ملک جا کر بسے تو ادھر کے مکانات اور محلوں کے حالات بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ لیکن آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ا یک انتہائی معتبر نام میڈم نسرین انجم کا ہے جو کہ چلڈرن سکول کی ہیڈ مسٹرس بھی تھیں اور انہوں نے اہل علاقہ کی کئی نسلوں کوسنوارنے کی کوشش کی ہے۔

سیاسی جدوجہد کے حوالے سے بیرون چوبچہ کا سب سے خاص اور بڑا نام کا مریڈ غلام محمد کا ملتا ہے ان کا گھر بھی اسی علاقے میں تھا۔ وہ کامریڈ عبدالسلام کے ہم زلف بھی تھے اور انڈین کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو باڈی کے ممبر بھی تھے۔ ان کے بعد دوسرا پرانا نام خواجہ احمد صدیقی کا ملتا ہے جن کے بارے میں اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی سیاست کے ساتھ ساتھ واسا کی سیاست میں بھی خاص جگہ رکھتے تھے۔ تقسیم کے بعد اور اس سے پہلے بھی اس علاقے میں زیادہ ترملازم پیشہ افراد کا تعلق محکمہ ریلوے سے تھا۔ ریلوے ملازمین کی اس بڑی تعداد کے باعث یہاں پر اس وقت کے ایک بڑے ٹریڈ یونیسنٹ مرزا ابراہیم کا بہت آنا جانا تھا جس کے باعث اہل علاقہ میں ایک خاص قسم کا سیاسی شعور پنپتا رہا۔

مرزا ابراہیم کے بعد ڈاکٹر لال کا بھی اس علاقے میں کافی آنا جانا رہا۔ علاقائی رہنماؤں کے حوالے سے ایوب کے عہد میں آزاد صاحب ادھر کے پی ڈی ممبر رہے۔ وہ ادریس رنگ والے کے نام سے بھی معروف تھے۔ کیونکہ ان کی اس علاقے میں رنگ تیار کرنے کی فیکٹری بھی تھی۔ جماعت اسلامی کے نیئر خان لودھی اور پیپلزپارٹی کے نثار احمد خان فاروقی بھی ا ہل علاقہ میں خاصے مقبول رہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فاروق طارق بھی لوگوں میں ایک اچھی شناخت رکھتے تھے۔ ان تمام افراد کا تعلق بیرون چوبچہ سے تھا۔ لاہور میں یہ علاقہ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اعتزاز احسن کا حلقہ بھی رہا ہے۔

ضیاء دور میں اس علاقے سے منسلک شاہد ہ جبین اور شیخ ناصر نے لاہور قلعہ کی سزا بھی بھگتی، بھٹو کے جنون اور عشق میں گرفتار عثمان غنی اور ادریس طوطی نے پھانسی کی سزا پائی ۔ ریلوے کے ملازمین بھی مزدور تحریک سے وابستہ رہے اور کئی طرح کی مشکلات جھیلیں ‘ ا کرم برف والے کا پھٹہ (برف بیچنے والی جگہ ) بھی سیاسی حوالے سے انتہائی اہم رہی ہے۔ ان کی اس جگہ پر ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور عمران خان بھی آئے ہیں لیکن آج اہل علاقہ کی زیادہ تر ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ مشرف سے قبل اسی حلقے سے نون لیگ کے طارق عزیز (نیلام گھر والے) بھی جیتتے تھے۔

اندرون اور بیرون چوبچہ میں کھیلوں اور ثقافت سے جڑے بھی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کی تن سازی کی صنعت میں ایک بہت بڑا نام ظہیر باڈی بلڈر اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ اسی علاقے سے ہاکی کے کئی کھلاڑی پاکستان ریلوے کی جانب سے کھیلتے رہے۔ فنون لطیفہ کے حوالے سے سب سے پہلا نام محبوب وارثی قوال کا ہے۔ ان کے بعد دوسرا اہم ترین نام اسرار صاحب کا ہے جو کہ پاکستان کے چند ایک سارنگی نوازوں میں سے ایک تھے۔ بیرون چوبچہ اور دھرم پورہ بازار سے ٹی وی اداکار غیور اختر، دھر بابا، علی خان ‘ آغا ماجد‘ نبیل‘ مس سونیا‘ قیوم اور سلیم پاشا کا تعلق رہا ہے۔ چائلڈ سٹار شہزاد مہنگا بھی اسی علاقے کا رہائشی تھا جو کہ نشہ میں مبتلا ہوئے کے باعث آج کل لنڈے کے مال کی ریڑھی لگاتا ہے۔ متوازی تھیٹر کے حوالے سے راؤ ریاض آج اندرونی چوبچہ کے رہائشی ہیں۔ شاعروں میں قیوم ساغر اور عشرت ہاشمی کے نام نمایاں ہیں۔

گرو نانک کے چرنوں کی دھلائی کے سبب قائم ہونے والا چوبچہ صاحب آج لاہور کے گنجا ن ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اہل علاقہ کئی طرح کے انتظامی مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی بدقسمتی اہل علاقہ کا اس گردوارے کی تاریخ سے نابلد ہونا ہے کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس جگہ کو مندر کہہ کر پکارتی ہے۔ اہل علاقہ کو اس جگہ کے تاریخی ہونے اور اس کے احترام سے قطعاً کوئی غرض نہیں اور نہ ہی دلچسپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔