ٹمبکٹو، انتہاپسندوں کے جنون کا شکار

عارف عزیز  اتوار 1 مئ 2016
تاریخی ورثے کی بحالی کا کام مکمل۔ فوٹو: فائل

تاریخی ورثے کی بحالی کا کام مکمل۔ فوٹو: فائل

صحرائے اعظم صحارا میں واقع وہ خطۂ ارض دوراُفتادہ اور دشوار گزار ہی نہیں بل کہ اُس زمین میں بیش قیمت زیورات اور جواہرات بھی مدفون ہیں۔

مکانات کی چھتیں سونے جیسی قیمتی دھات سے مزین ہیں اورہر طرف خوش حالی ہے! صدیوں پہلے شہر ٹمبکٹو کے بارے میں یہی باتیں مشہور تھیں۔ اگرچہ یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں سے براعظم افریقا کے اِس علاقے کا سفر اُس دور میں آسان نہ تھا، مگر ان افسانوی باتوں اور داستانوں کا طلسم مہم جُوئی پر اکساتا اور لوگ خدشات اور خطرات کی پروا کیے بغیر ٹمبکٹو کا سفر اختیار کرتے۔ اِن میں سے کئی صحارا کے راستوں میں بھٹک گئے اور جو منزل تک پہنچے انھیں معلوم ہوا کہ صحرا، مسافر اور سراب میں کیا تعلق ہوتا ہے۔ انہیں ٹمبکٹو کے غیرآباد مقامات پر ریت کے ٹیلے اور گردوغبار ملا۔ آگے بڑھے، شہر میں داخل ہوئے تو جستجو اور امید دونوں کا دَم نکل گیا۔ وہاں پتھروں اور مٹی کے گارے سے بنے عجیب و غریب طرز کے مکانات کے سِوا کچھ نہ تھا۔ یہ مہم جُوریت کے طوفانوں کی صورت میں صحرا کے ستم اور راستے میں سورج کے قہر برسانے کے باوجود اب اپنے زندہ بچ جانے کا شکر ہی ادا کرسکتے تھے۔

12ویں صدی میں ٹمبکٹو شہر ’طوارق‘ قبیلے کے لوگوں نے آباد کیا تھا۔ یہ دراصل بربر تھے جو مختلف ادوار میں بَٹنے کے بعد نئی گروہی پہچان بناکر مختلف خطوں میں جابسے۔ الجزائر، تیونس، مالی، لیبیا، نائیجر اور برکینا فاسو میں آج بھی طوارق آباد ہیں۔ تاریخ کے مطابق صحرائے صحارا کے تجارتی راستوں پر اِس قبیلے کا غلبہ رہا ہے۔ اِن راستوں سے سونا، ہاتھی دانت، غلام، نمک اور دوسری مصنوعات کی تجارت ہوتی تھی اور یہ مال یورپ کی منڈیوں تک پہنچتا تھا۔ ان گزرگاہوں کے ساتھ آباد ہونے کی وجہ سے طوارق قبیلے کے لوگوں کو روزگار سمیت دوسری سہولیات بھی میسر تھیں۔ قیاس ہے کہ اس علاقے سے گزرنے والے تجارتی قافلوں نے ہی اِس شہر کی بابت سچی جھوٹی باتیں دنیا کے دیگر علاقوں میں بسے لوگوں تک پہنچائی ہوں گی، لیکن تاریخ میں ٹمبکٹو کے بادشاہ مانسا موسیٰ کا ذکر اپنے زمانے کے امیر ترین اور نیک دل حکم راں طور پر کیا گیا ہے۔

اس زمانے کے ٹمبکٹو کا روشن حوالہ وہاں کی جامعات اور کتب خانے بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کبھی یہ شہر علم و فنون کا بڑا مرکز تھا۔ اُس دور میں یہاں کی جامعات میں دین کے علاوہ طب اور سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ٹمبکٹو کے تین بڑے علمی مراکز میں سے جامعہ سنکوری زیادہ مشہور ہے۔ وسطی افریقا کا یہ علمی مرکز ابتدا میں ایک مسجد تھی، جسے 1327 میں وہاں کے بادشاہ موسیٰ نے تعمیر کروایا تھا۔ تاہم اگلی صدی کی شروعات میں اسے بڑی درس گاہ کا درجہ دے دیا گیا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق اس درس گاہ کے کتب خانے میں اسلامی تعلیمات کے علاوہ مختلف دوسرے موضوعات پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ اگلے برسوں میں ٹمبکٹو کو مراکشیوں نے فتح کرلیا اور وہاں زبردست تباہی پھیلی۔ درس گاہیں اور کتب خانے بھی برباد ہوگئے اور بڑی تعداد میں علما اور اساتذہ وہاں سے ہجرت کرگئے۔ 1815ء میں فرانس نے اس علاقے پر قبضہ کیا اور ٹمبکٹو نے دوبارہ ترقی اور خوش حالی کے سفر کی ابتدا کی۔ تاہم اُس وقت تک یہ شہر اپنی صدیوں پرانی تاریخی اور مسلم شناخت کھو چکا تھا۔

اِن دنوں ٹمبکٹو اپنے تاریخی ورثے کی تباہی کا مقدمہ لیے جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں کھڑا ہے۔ براعظم افریقا بھی دنیا کے دیگر خطوں کی طرح دہشت گردی اور انتہاپسندی کی آگ میں جل رہا ہے۔ ذرایع ابلاغ میں اس خطے اور جمہوریہ مالی میں القاعدہ اور دوسرے شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں کا تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ مالی کی حکومت اور سرکاری فوج بھی انتہاپسندوں کی کارروائیوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں باغی گروہوں سے الجھی ہوئی ہے۔ گذشتہ سال شدت پسندوں نے بماکو کے ایک ہوٹل میں گھس کر 170 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، ان میں بڑی تعداد غیرملکیوں کی تھی، اس دوران متعدد یرغمالی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ ملک چند برس پہلے فوجی بغاوت بھی بھگت چکا ہے۔

2012ء میں شدت پسند تنظیم انصار الدین نے ٹمبکٹو پر قبضہ کرکے مکمل طور پر شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس تنظیم کا سربراہ احمد الفقی المہدی ہے، جو وہاں ’ابو تراب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ’طوارق‘ قبیلے سے تعلق رکھنے والے احمدالفقی کی تنظیم، القاعدہ المغرب کی ایک شاخ سمجھی جاتی ہے۔ 2014 میں احمد الفقی کی گرفتاری عمل میں آئی اور اب وہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں تاریخی ورثے کی تباہی کے مقدمے کا سامنا کررہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس عدالت میں کسی مسلم شدت پسند کو اس نوعیت کے مقدمے میں پیش کیا گیا ہے۔ احمد الفقی المہدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے ’حسبہ‘ یا شہریوں کے طرزِزندگی پر نظر رکھنے والے شعبے کا نگراں بھی تھا۔ اس شعبے کے اراکین کی ذمہ داری تھی کہ مقامی شہریوں کو اسلامی قوانین کا پابند بنائے اور شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھیں۔

المہدی کو شہریوں کو پھانسی کی سزا دینے والی عدالت کی بنیاد رکھنے والا بھی کہا جاتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک مزارات پر دعائیں مانگنا اور اولیا سے متعلق مخصوص فکر دراصل قبر پرستی اور شرک کا راستہ ہے۔ شہر کا کنٹرول انصار الدین کے مسلح جنگجوؤں کے ہاتھ آیا تو انہوں نے صوفیا اور بزرگانِ دین کے مزارات کو زبردست نقصان پہنچایا۔ تاہم فرانسیسی افواج نے مالی میں داخل ہو کر انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اُس وقت تک شدت پسند سید محمود بن عمر محمد، شیخ محمد محمود الاراوانی، شیخ سید مختار بن سید محمد بن شیخ الکبیر، الفا مویا، شیخ سید احمد بن عمر، شیخ محمد المکی، شیخ عبدالقاسم کے مزارات اور تاریخی جامعات کی عمارتوں کو نقصان پہنچا چکے تھے۔ مذکورہ شخصیات افریقی مسلمانوں میں صدیوں سے مذہبی اور روحانی پیشوا مانی جاتی ہیں۔

محمود بن عمر، سیدی یحییٰ سمیت دیگر کے مزارات پر اُن کے عقیدت مند روزانہ حاضری دیتے ہیں۔ شدت پسندوں نے قدیم سیدی یحییٰ مسجد کا وہ دروازہ بھی توڑ دیا جس سے گزر کر صوفی بزرگ سیدی یحییٰ کی قبر تک پہنچا جاتا تھا۔ اِسی مسجد سے قدیم مدرسہ بھی ملحق ہے۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق سیدی یحیٰی کے مزار کا دروازہ ڈھانے کا منظر دیکھ کر لوگ زاروقطار رونے لگے۔ تاریخی تذکروں کے مطابق 1548 کو دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ٹمبکٹو میں تعمیر کردہ اُن کی آخری آرام گاہ اب عالمی ورثہ شمار ہوتی ہے۔ ٹمبکٹو تین سو تینتیس مذہبی اسکالرز اور روحانی شخصیات کا مدفن بتایا جاتا ہے۔ 1988 میں اِن میں سے سولہ مقابر اور تاریخی مساجد و درس گاہوں کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے کر ان کی دیکھ بھال یونیسکو کے سپرد کردی گئی۔ شدت پسندوں کے قبضے سے قبل ان تاریخی عمارتوں کی تعمیرومرمت اور دوسرے کاموں کی نگرانی البخاری بن عیسیوتی کے ذمے تھی۔

ٹمبکٹو کی تین قدیم مساجد اور ان سے ملحق مدارس ایسے ہیں جنہیں پندرہویں اور سولہویں صدی میں مسلم تہذیب و ثقافت کا بڑا مرکز مانا جاتا تھا۔ ان میں جامعہ سنکوری کا نام سرِفہرست ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق ٹمبکٹو میں چند صدی قبل 180 درس گاہیں تھیں، جن میں دنیا بھر سے لوگ حصولِ علم کے لیے آیا کرتے تھے۔ مالی اور افریقا کے مختلف علاقوں سے لوگ ٹمبکٹو کے مذکورہ تاریخی مقامات کی زیارت اور قدیم عمارتوں کی سیر کے لیے آتے ہیں۔ یہ مزارات اور ان سے ملحق مساجد صدیوں پہلے نام ور مذہبی اور روحانی شخصیات کے اہلِ خانہ اور عقیدت مندوں نے تعمیر کی تھیں اور وہی نسل در نسل ان کی دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت کا کام بھی سنبھالے رہے۔ شدت پسندوں سے ٹمبکٹو کو آزاد کرانے کے بعد یہاں کے تاریخی ورثے کی بحالی و مرمت کا کام شروع کیا گیا جو جولائی 2015ء میں مکمل ہوا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ تقریب رواں برس چار فروری کو منعقد کی گئی۔ اس موقع پر قرآن خوانی کے بعد صدقے کے طور پر جانوروں قربان کرنے کے بعد تاریخی مساجد اور مدفن کی چابیاں انہی افراد کو سونپ دی گئیں، جو ان کی دیکھ بھال کرتے رہے ہیں۔

سردار موسیٰ!

تاریخ کے صفحات میں سلطنت مالی کے حاکم کا نام مونسا موسیٰ درج ہے۔ اس نیک نام حکم راں کی بابت مؤرخین نے لکھا ہے کہ 1280ء میں اُس نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تو 24 چھوٹے بڑے علاقے فتح کرلیے۔ 1312ء سے 1337ء تک وہ ایک بڑی سلطنت کا حکم راں مانا جاتا رہا۔ افریقا میں ’مونسا‘ کا لفظ بادشاہ یا سردار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مسلم اور غیرمسلم تاریخ نویسوں نے اُس کے عہد کے تذکرے میں موسیٰ کے دور کو خوش حالی اور معاشرتی اعتبار سے بھی ترقی کا زمانہ بتایا ہے۔ تاریخ کے مطابق اُس عہد میں شعبۂ تعلیم اور تعمیرات کے میدان میں خاصا کام ہوا۔ اس حکم راں کی دولت اور وسائل کے حوالے سے تاریخ نویسوں نے کئی قصّے نقل کیے ہیں۔

کہتے ہیں 1324ء میں موسیٰ نے حج کے لیے سفر شروع کیا تو راستے میں لوگوں کی مالی مدد بھی کرتا گیا۔ کئی اونٹ اور باربرداری کے دوسرے جانوروں کے علاوہ موسیٰ کے پاس بے پناہ سونا بھی تھا۔ اِس نے مصر میں قیام کے دوران اتنا سونا خرچ کیا کہ وہاں سونے کی قیمتیں گرگئیں۔ موسیٰ کا شمار دنیا کے امیر ترین سرداروں میں کیا جاتا ہے۔ تاہم جلد ہی اس ریاست کا شیرازہ بکھر گیا۔ 1591ء میں مراکش نے اس ریاست پر یلغار کی اور اسے برباد کردیا۔ 1854ء میں ایک اور حملے میں یہ سلطنت سکڑتی چلی گئی۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اسی مونسا موسیٰ کے بھائی سلیمان بن ابو بکر کے عہد میں مالی میں قیام کیا تھا۔ انہوں نے یہاں کے نظم و نسق اور خوش حالی کی تعریف کی ہے۔ مکہ معظمہ سے واپسی پر موسیٰ وہاں سے ایک اندلسی ماہرِتعمیرات ابو اسحاق ابراہیم الساحلی کو ساتھ لایا۔ اسی معمار نے بادشاہ کے حکم پر ٹمبکٹو میں پکّی اینٹوں سے دو مساجد اور ایک محل تعمیر کیا۔ یہ وہ دور تھا جب افریقا میں پکّی اینٹوں کا رواج نہیں پڑا تھا۔

جمہوریہ مالی کے بارے میں چند سطور

غربت، پس ماندگی کے ساتھ بدانتظامی اور اندرونی خلفشار کا شکار جمہوریہ مالی کا لگ بھگ 65 فی صد علاقہ نیم صحرائی ہے۔ مغربی افریقا کے اس ملک کے دارالحکومت کا نام بماکو ہے، جب کہ تاریخی اعتبار سے اس ملک کا مشہور ترین شہر ٹمبکٹو ہے۔ اس ملک کی نوّے فی صد آبادی مسلمان ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس افریقی خطے میں بھوک، افلاس اور خشک سالی کے علاوہ قبائلی تصادم اور باغی گروہوں کی ریاستی اداروں سے مسلح جھڑپوں میں بھی بے شمار انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ ان حالات میں امن و امان کے قیام کے لیے عام اقدامات کے ساتھ وہاں کی حکومت مختلف مسلح گروہوں سے امن معاہدے کرنے پر مجبور ہے۔ یہ علاقہ کبھی فرانسیسی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا اور آج بھی وہاں کی حکومت سے تعاون اور امداد کے نام پر فرانس اپنا اثرورسوخ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 2012 میں بھی شدت پسندوں اور باغیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے فرانسیسی فوج نے مالی میں بڑا آپریشن کیا تھا۔ فرانس مخالف دیگر عالمی طاقتیں اسے جمہوریہ مالی میں مداخلت تصور کرتی ہیں۔ ترکی و دیگر بڑے اسلامی ملکوں کی جانب سے بھی جمہوریہ کی سرکار پر اس حوالے سے کڑی تنقید کی جاتی ہے۔

یہ براعظم افریقا کا ساتواں بڑا ملک ہے، جس کی آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ ملک کے زیادہ تر علاقے صحرائے صحارا کی طرف ہیں اور اسی لیے وہاں ریت کے طوفان اور گرمی کا زور رہتا ہے۔ اس علاقے کے قدرتی وسائل میں سونا، یورینیم، فاسفورس کے مرکبات، نمک اور چونا شامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔