یوسف رضا گیلانی کی تنہائی

نصرت جاوید  جمعـء 16 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اقتدار کے ایوانوں میں مسلسل اسٹیج ہونے والے ڈراموں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک صحافی کو بالآخر بے حس ہو نا پڑتا ہے۔

میں نے بھی کئی برس وہاں بولے جانے والے سراسر سفید جھوٹ اور سفاک منافقت کو برداشت کرنے میں صرف کر دیے۔ گزشتہ چند مہینوں سے جب بھی قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھتا ہوں تو میرا رویہ محض ایک تماشائی کا ہوتا ہے۔ جو لوگوں کی آنیاں جانیاں دیکھتا ہے۔ خبر بننے والی چیزوں کے بارے میں مواد جمع کرتا ہے اور اسے جوں کا توں لکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی قسم کے جذباتی رویے کے بغیر۔

اگرچہ یوسف رضا گیلانی 1985 میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں آئے تھے اور میں نے بھی اسی سال وہاں ہونے والی چیزوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا مگر میرا اِن سے کبھی کوئی ذاتی تعلق نہ بن پایا۔1986میں جب نواز شریف کو پنجاب سے نکالنے کی کوششیں شروع ہوئیں تو مجھے ان کے بارے میں تازہ ترین خبریں پیر صاحب پگاڑا کے توسط سے ملتی رہتی تھیں۔ یوسف رضا گیلانی کو ان دنوں نواز شریف کو ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ مگر وہ خود اسلام آباد میں مقیم صحافیوں سے لیے دیے رہتے تھے۔ اسی لیے ہم میں سے اکثر کو خبر بھی نہ ہوئی کہ 1988 کے انتخابات کے قریب وہ اچانک پاکستان پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔

ان انتخابات کے بعد بننے والی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ مگر خاموش طبع اور میڈیا سے پرے پرے۔ نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے بھی وہ کبھی خبروں میں نظر نہ آئے۔ 1993میں محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بن گئے اور بڑے دھیمے انداز میں اس کے اجلاس چلاتے رہے۔ یہ خبر مجھے انھوں نے نہیں بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود بتائی تھی کہ گیلانی صاحب نے دھمکی دی تھی کہ اگر شیخ رشید کو جیل سے لا کر قومی اسمبلی میں نہ بٹھایا گیا تو وہ ان اجلاسوں کی صدارت نہیں کیا کریں گے۔ ان کے اس ’’اصولی فیصلے‘‘ کی خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی مگر ذاتی شناسائی پھر بھی نہ ہو سکی۔

یوسف رضا گیلانی کی ذات سے قطعی باخبر ہونے کے باوجود میں اس وقت بڑا مایوس ہوا جب آصف علی زرداری نے انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ میں پتہ نہیں کیوں یہ سمجھتا رہا کہ شاید وہ اس منصب کے اہل نہیں ہیں۔ مگر میرے تحفظات کے بالکل برعکس ہمارے بڑے ہی نامی گرامی صحافیوں نے گیلانی صاحب سے بڑی اُمیدیں باندھ لیں اور ہمیں بتانا شروع کر دیا کہ آصف علی زرداری میں چھپے ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کو وہی ٹھیک کریں گے۔ شاید ان صحافیوں کو درست ثابت کرنے کی خاطر ہی قومی اسمبلی میں بیٹھے اپوزیشن اراکین کی اکثریت بھی اپنی نجی محفلوںمیں گیلانی صاحب کے گن گاتی رہتی۔

مجھے تواتر سے بتایا جاتا کہ وہ اپوزیشن اراکین کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اگر ان اراکین کے ترقیاتی فنڈز میں افسران رکاوٹیں ڈالیں تو وہ خود مداخلت کر کے ان کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ یہ ساری تعریفیں کرنے کے بعد وہی اراکین اس خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیتے کہ گیلانی صاحب کو Assert کرنا چاہیے۔ اب تو 18 ویں ترمیم بھی پاس ہو گئی ہے۔ وہ ’’سچ مچ‘‘ کا وزیر اعظم بننا چاہیں تو اپوزیشن ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ مجھے یقین ہے کہ گیلانی صاحب تک بھی انھیں ’’سچ مچ‘‘ کا وزیر اعظم دیکھنے والی خواہشیں پہنچتی ہوں گی۔ مگر وہ توقعات پر پورا نہ اُتر پائے۔ بلکہ ’’اس خط‘‘ کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔

عدالت نے انھیں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا تو صرف چند ماہ پہلے تک ان کے گن گانے والے کئی اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی کی پہلی صفوں میں آ کر اپنے پھیپھڑوں کے پورے زور سے ’’گو گیلانی‘‘ گو کے نعرے لگاتے رہے اور بالآخر اپنے مقصد کو پالیا۔گیلانی صاحب اب اس قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین ان کے جانشین راجہ پرویز اشرف کو بھی اسی گرم جوشی اور خشوع خضوع سے ملتے ہیں جیسے کبھی گیلانی صاحب سے ملا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کے ایک نہیںدونوں بیٹے بھی اسی اسمبلی کے رکن ہیں۔ اپوزیشن اراکین تو رہے ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ان دونوں کو پہچانتے تک نہیں۔ ان سے دور دور رہتے ہیں۔ اقتدار کی بے ثباتی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے گیلانی کے دونوں بیٹوں کی اس ایوان میں تنہائی کا دیکھنا بہت ضروری ہے جہاں ان کے باپ ہی کی جماعت… پاکستان پیپلز پارٹی… کی اکثریت ہے۔

بدھ کی شام تو یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ گئی جب بڑی تگ و دو کے بعد ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو بولنے کی اجازت ملی۔ انھوں نے روہانسی آواز میں دُنیا کو بتانا شروع کر دیا کہ ایف آئی اے والے انھیں اس کار کی خرید کے بارے میں تفصیلات بتانے پر مجبور کر رہے ہیں جو انھوں نے 2009 میں حاصل کی تھی۔ ایف آئی اے والوں کا خیال ہے کہ یہ کار انھوں نے 2010میں سامنے آنے والے حج اسکینڈل کی بدولت رشوت کے طور پر حاصل کی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بذاتِ خود واضح الفاظ میں اس تاثر کی نفی کر رکھی ہے۔ مگر ایف آئی اے مطمئن ہو کر نہیں دے رہی۔ وزیر داخلہ سے شکایت لگائی جائے تو وہ اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ پارٹی والے بھی ساتھ نہیں دے رہے۔ اگر لاتعلقی کا یہی رویہ برقرار رہا تو گیلانی خاندان کے ’’گناہ معاف کرانے‘‘ کی خاطر وہ اور ان کے بھائی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ اس پر بھی تسلی نہ ہو تو ان کا خاندان پاکستان بھی چھوڑ سکتا ہے۔

عبدالقادر گیلانی جب اپنی اور اپنے خاندان کی ان دنوں والی بے بسی کی داستان سنا رہے تھے تو قومی اسمبلی میں موجود اراکین کی اکثریت خواہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے تھا یا اپوزیشن سے، طنزیہ مسکراہٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو اذیت پسند اشارے کر رہے تھے۔ اگرچہ خورشید شاہ نے بڑی جذباتی تقریر کے ذریعے گیلانی خاندان کی ’’عزت و ناموس‘‘ کے تحفظ کا عہد کیا۔ مگر یہ سب ڈرامے بازی تھی۔ ظالمانہ مگر کھرا سچ یہی ہے کہ یوسف رضا گیلانی اب اکیلے ہیں۔ شاید ان کی تنہائی کا کچھ مداوا آصف علی زرداری کے ملتان جانے کے بعد ہو جائے۔ مگر کب تک؟نئے انتخابات کا طبل بجنے ہی والاہے۔ پھر سب کو اپنی اپنی فکر آپڑے گی۔ بالآخر کوئی اور وزیر اعظم بن جائے گا اور لوگ اس کی چاپلوسی میں مصروف ہو جائیں گے۔ حقیقت ہے تو بس اتنی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔