برطانیہ میں باورچیوں کا کال؛ ریستوراں بند ہونے لگے

غزالہ عامر  منگل 3 مئ 2016
ریستوراں مالکان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ باورچیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے امیگریشن قوانین میں نرمی کی جائے:فوٹو : فائل

ریستوراں مالکان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ باورچیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے امیگریشن قوانین میں نرمی کی جائے:فوٹو : فائل

برطانیہ میں جنوبی ایشیائی باشندے لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی ثقافتیں، برطانوی ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس ادغام کی ایک جھلک دیسی کھانوں کی صورت میں مقامی ریستورانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جنوبی ایشیائی باشندوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر دیسی ریستورانوں کے علاوہ انگریز مالکان کے ریستورانوں میں بھی دیسی کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ روایتی مسالے دار اور شوربے والے کھانے انگریز بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اور تو اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کی اہلیہ بھی دیسی کھانوں کی شوقین ہیں۔

دیسی پکوانوں کی صنعت جسے کری انڈسٹری ( curry industry) کہا جاتا ہے، برطانوی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ تین سال قبل اس صنعت کا حجم 4.2 ارب پاؤنڈ تھا اور اس وقت یہ صنعت ایک لاکھ افراد کو روزگار مہیا کررہی تھی۔ ان میں بڑی تعداد پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلادیشی کھانے پکانے کے ماہر باورچیوں کی تھی۔

برطانیہ کی یہ اہم صنعت ان دنوں شدید مشکلات کا شکار ہے، کیوں کہ اسے ماہر باورچیوں ( شیف) کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ باورچیوں کا کال پڑجانے کے باعث ڈیڑھ سال کے دوران 600 ریستوراں بند ہوچکے ہیں! 2013ء میں برٹش کری ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ملک میں ماہر باورچیوں کی ضرورت پوری کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ہنوز وفا نہ ہوسکا۔ تین سال کے دوران ماہرباورچیوں کی ضرورت انتہا کو چُھونے لگی ہے اور یہ صنعت بحرانی صورت حال سے دوچار ہوچکی ہے۔

باورچیوں کی عدم دستیابی کا سبب امیگریشن کے قوانین ہیں جو بہ تدریج سخت ہوتے جارہے ہیں۔ امیگریشن قوانین کی یہ سختی ریستورانوں کو بھاری پڑ رہی ہے، جو ضرورت کے مطابق ماہر باورچی تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ کھانے پکانے کے ماہرین کی قلت کے باعث گذشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران چھے سو سے زائد ریستوراں بند ہوچکے ہیں اور مزید چار ہزار ریستورانوں کی بندش کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

بنگلادیشی ریستورانوں کے مالکان کی تنظیم کے صدر امام الدین نے مقامی روزنامے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ویسٹ مڈلینڈز میں ہر ہفتے ایک یا دو ہندوستانی ریستوراں بند ہورہے ہیں۔ متعدد ریستوراں برائے فروخت ہیں مگر خریدار کوئی نہیں۔ سبب وہی ہے کہ جب کاری گر نہیں ہوں گے تو کاروبار کیسے چلے گا۔

ریستوراں مالکان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ باورچیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے امیگریشن قوانین میں نرمی کی جائے۔ برٹش کری ایوارڈز کے بانی انعام علی کی سربراہی میں ریستوراں مالکان نے وزیراعظم کو پچھتر صفحات پر مشتمل درخواست بھجوائی ہے جس میں کری انڈسٹری کو درپیش اس سنگین مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے۔

اس صورت حال میں برطانیہ میں مقیم باورچیوں کی چاندی ہوگئی ہے، اور اب وہ منھ مانگا معاوضہ طلب کررہے ہیں۔ دو برس قبل باورچیوں کا فی ہفتہ معاوضہ 350 سے 400 پاؤنڈ تھا جو اب 700 سے 800 پاؤنڈ تک پہنچ گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔