پاکستان میں غریب ہونا 302 سے بڑا جرم ہے، سپریم کورٹ

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
غریب ہوکربولنا اور بڑاجرم ہے،جسٹس خلجی،عدلیہ کیخلاف باتیںکی جاتی ہیںلیکن ہم قانون کے مطابق چلنے کے پابند ہیں، عظمیٰ ایوب کے بھائی کے قتل کیس میں ریمارکس ۔ فوٹو ایکسپریس

غریب ہوکربولنا اور بڑاجرم ہے،جسٹس خلجی،عدلیہ کیخلاف باتیںکی جاتی ہیںلیکن ہم قانون کے مطابق چلنے کے پابند ہیں، عظمیٰ ایوب کے بھائی کے قتل کیس میں ریمارکس ۔ فوٹو ایکسپریس

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خانیوال میں ایک عورت کی سنگساری سے ہلاکت کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی طور پر طلب کر لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ مقدمے کی پیشرفت پر مبنی رپورٹ پیش عدالت میں پیش کی جائے ۔

عدالت نے پنجاب میں جرائم کی شرح سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے ۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے نمائندے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ معاملہ متعلقہ اتھارٹیزکے نوٹس میں لائیں ۔عدالت نے واقعہ کا نوٹس نہ لینے پر آئی جی پنجاب پولیس کوکڑی تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ تمام ملزمان گرفتار نہ ہوئے تو آئی جی کی معطلی کا حکم جاری کریںگے ۔چیف جسٹس نے کہاہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب کو اس واقعہ کا علم نہیں تو پھرکس چیزکا علم ہے ۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ضلع خانیوال کے علاقہ کچا کھوہ کے چک نمبر15میں خاتون کی سنگساری سے ہلاکت کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔پنجاب پولیس کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ رپورٹ میں پنچایت کا کوئی ذکر نہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایاکہ مقتولہ مریم نے کسی دوسرے کی جگہ سے گھاس کاٹی تھی جس پر تنازع ہوا۔پنچایت کو اس کے قتل کیلیے نہیں بلکہ صلح کیلئے بلایاگیا تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ واقعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پنچایت دراصل عورت کے قتل کیلیے بلائی گئی تھی۔

عدالت نے کہا میڈیا سچ بولتا ہے اس لئے لوگوںکی نظر میںکھٹکتا ہے، تصویریں بنوانے کیلئے تو سب پہنچ جاتے ہیں مگرکام کوئی نہیں کرتا ۔حکومت پنجاب کی جانب سے بتایا گیاکہ متوفیہ کا خاوند بھی لاپتا ہوا تھا جوکچھ دیر پہلے بازیاب ہوگیا ہے جبکہ خاتون کے قتل کیس میں ملوث افراد میں سے 3 کوگرفتارکرلیاگیاہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کیسے ہوگیا کہ عدالت نے کیس سنا اور ادھرکچا کھوہ میں مغوی شوہر بازیاب ہوگیا، تین دن سے یہ آئی جی کیا کررہا تھا،کیا یہ تعینات کئے جانے کے قابل ہے، پانچ بچوں کی ماں مرگئی اورکسی کو احساس تک نہیں،باقی ملزم گرفتار نہ ہوئے تو آئی جی کو معطل کرنے کا کہیںگے۔

آئی جی پنجاب کا بھی وہی حال ہوگا جوکراچی کے سرفرازقتل کیس میں فیاض لغاری کا ہواتھا۔سنگساری کی شہادت ختم کرنے کیلئے عینی شاہد سرفرازکو اٹھایاگیا ہوگا۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ کو اس واقعہ کو علم نہیں تو پھرکیا علم ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سنا ہے خادم اعلیٰ میں خدا ترسی ہے مگرابھی تک توکچھ نہیں ہوا، کیا اس کیس کے بارے میں انہیں علم ہے۔جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ ملک کے غریبوںکو ختم کردیں، غریب رہیںگے نہ ہی غربت، ایئرکنڈیشنڈکمرے میںبیٹھ کر باتیںکرتے ہیں لیکن غریب کی نہیں سنتے،

چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے اور اس میں امن و امان کی یہ صورتحال ہے، کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔واقعہ سے متعلق بعض اطلاعات کے مطابق پانچ بچوںکی ماں25 سالہ مریم بی بی مقامی زمیندار راجہ محبوب کے کھیت سے گھاس کاٹ رہی تھی کہ راجہ محبوب نے اسے ناجائز تعلقات کیلیے مجبورکیا عورت کے انکار پر اس نے اپنے آدمیوںکو اسے سبق سکھانے کا حکم دیا۔

انہوں نے اس کے گھر میں گھس کر پتھر مار مارکر قتل کر دیا جبکہ اس کے شوہرکواغواکر لیا۔پولیس نے 9ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کیا ہے ۔مقتولہ کے لواحقین نے چیف جسٹس سمیت اعلیٰ حکام سے انصاف فراہمی کی اپیل کی تھی جس پر انھوں نے ازخود نوٹس لیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔