نواز شریف پھر کامیاب ہو گئے

ایاز خان  منگل 3 مئ 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر فوج کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ قومی تاریخ میں سیاسی اور فوجی تعلقات آئیڈیل تو کبھی نہیں رہے مگر موجودہ دور میں جنرل راحیل شریف نے جب سے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے یہ تعلقات خاصے بہتر رہے ہیں۔ مختلف ایشوز پر اختلاف رائے رہا ہے البتہ اس کی نوعیت معمولی ہے۔ نواز شریف حکومت کے ابھی3سال پورے نہیں ہوئے لیکن اس دوران نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے جتنی ملاقاتیں کی ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔اس دوران کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ ایک ہی ایشو پر کئی کئی بار دونوں اکٹھے ہوئے۔

ان ملاقاتوں سے اندرون و بیرون ملک یہ تاثر جا رہا تھا کہ فوجی اور سیاسی تعلقات میں بہتری سے ملک ترقی کرے گا۔ نواز شریف حکومت اپنے اقتدار کے دوسرے سال میں داخل ہوئی تو اسے اب تک کے سب سے بڑے سیاسی بحران نے گھیر لیا۔ عمران خان جو عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ قومی اسمبلی کے 4حلقے کھول دیے جائیں، اسلام میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے طاہر القادری بھی ڈی چوک میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کے 126دن کے دھرنے میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔

صبح گیایا شام گیا والی کیفیت بھی بہت مرتبہ پیدا ہوئی۔ اس موقع پر میاں صاحب کی مدد کوکوئی آیا تو وہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔ سوا سال کی حکومت اتنی ڈانوا ڈول تھی کہ عمران خان کے ایک کے سوا سارے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار ہو گئی تھی۔ آرمی چیف نے طاہرالقادری اور عمران خان سے ملاقات کی۔ کپتان نے کہا مجھے نواز شریف کا استعفیٰ چاہیے، جواب ملا یہ ممکن نہیں ہے۔ اس ایک جواب سے سارا پانسہ پلٹ گیا۔ نواز شریف کمزور ترین پوزیشن سے مضبوط بن کر نکل آئے۔ آرمی چیف نے 5کورکمانڈرز کا نواز شریف سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا۔عمران 126 دن کے دھرنے کے بعد بھی کوئی کامیابی نہ سمیٹ سکے۔ انھیں اسلام آباد سے نامراد لوٹنا پڑا۔

نواز شریف اور آرمی چیف ملاقاتیں کرتے ہی نظر نہیں آئے، ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے بھی کے لیے بھی ساتھ ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم کو اگلی سیٹ پر بٹھا کر گاڑی بھی چلائی۔ کیا یہ قربت کی انتہا ء نہیں تھی؟ پچھلے ماہ آج ہی کی تاریخ میں پانامہ لیکس کا پنڈورا باکس کھلا جس میں نواز شریف کے بچوں کا بھی نام تھا۔ 4اپریل کو ان لیکس پر مبنی خبریں اخبارات کی زینت بنیں اور اسی دن وزیر اعظم نے آرمی چیف کو وزیر اعظم ہاؤس میں طلب کر لیا۔ چینلز کی اسکرینوں پر وہ منظرسب نے دیکھا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف وزیر اعظم ہاؤس میں ایک ساتھ چلتے ہوئے میٹنگ روم میں داخل ہو رہے ہیں۔

اس تصویر کو چینلز پر چلوانے کا مقصد غالباً یہی تھا کہ پانامہ لیکس کے باوجود سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔ اس جمہوری دور میں ایک پیج پر کی گردان بھی بار بار سنی گئی۔ ممکن ہے مستقبل میں مورخ اس دور کو’’وہ ایک پیج‘‘ کے عنوان سے یاد رکھے۔ پانامہ لیکس آنے سے پہلے میاں صاحب دو تہائی اکثریت والے مضبوط ترین وزیر اعظم تھے۔ یوں لگتا تھا انھیں کسی طرف سے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بڑی خوبی سے نبھا رہی تھی۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نواز شریف کو مودی کا یار کہتے ہیں اور ان سے استعفیٰ بھی مانگ رہے ہیں۔

وزیر اعظم اور آرمی چیف میں اختلاف رائے اور بہتر تعلقات ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کا اعلان نواز شریف نے پارلیمنٹ میں کرنا تھا مگر وہ آئے اور شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کر کے نکل گئے۔ پھر سب نے دیکھا کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور حکومت کو مجبورًا اس آپریشن کے آغاز کا ’’حکم‘‘دینا پڑا۔ حکومت نے آپریشن کی اونر شپ لی تو اختلاف ختم ہو گیا۔ اس کے بعد اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان بنا جس میں طے ہوا کہ دہشت گردوں کے ہمدرد اور سرپرست بھی پکڑے جائیں گے۔

کرپشن کے خلاف سخت ترین اقدامات پر بھی اتفاق ہوا۔ اسی انڈر اسٹینڈنگ کے بل پر آرمی چیف نے کہنا شروع کیا کہ دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت آج کراچی آپریشن کا کریڈٹ لیتی ہے، دراصل یہ فوج کا کام ہے جس نے آپریشن شروع کیا اور پاکستان کے معاشی حب کے حالات بہت بہتر ہو گئے۔

پنجاب میں بھی ایک آپریشن کیا جانا تھا۔ حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے اسے ٹالتی رہی۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد حکومت کے ردعمل نے بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو خاصا مایوس کیا۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کی براہ راست مداخلت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا تھا مگر حکومت نے نریندر مودی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچانے کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ نواز حکومت کی ترجیحات میں نریندر مودی سے بہترین تعلقات اولین ترجیح کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ حکومت ان تعلقات کے لیے بظاہر کوئی بھی ’’قربانی‘‘ دینے کو تیار ہے۔ شریف حکومت کو انڈیا سے تعلقات کی جتنی فکر ہے اس سے کہیں زیادہ فوج گوادر ایئر پورٹ اور اقتصادی راہداری کے بارے میں حساس ہے۔ یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ بھارت اقتصادی راہداری کے خلاف ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چین میں اس منصوبے پر احتجاج کر کے آئے تھے۔ کلبھوشن کو یہی ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرے۔ کلبھوشن خود بھی اعتراف کر چکا ہے کہ وہ پاکستان میں اس منصوبے کے خلاف کارروائیاں کر رہا تھا۔ اس کے کئی ساتھی ایجنٹ بھی پکڑے جا چکے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یمن کے کرائسز پر سعودی عرب نے پاکستانی فوج بھجوانے کا مطالبہ کیا تو ہمارے انکار سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوئے۔ ان تعلقات کو معمول پر لانے میں بھی جنرل راحیل شریف نے ہی اہم کردار ادا کیا۔  چینی صدر کا دورہ بھی آرمی چیف کی سیکیورٹی گارنٹی کے بعد ممکن ہو سکا تھا۔ ان کی حفاظت کی ذمے داری پہلی بار ٹرپل ون بریگیڈ کو سونپی گئی تھی۔ اسی بریگیڈ نے دھرنے کے دوران وزیر اعظم کی حفاظت کی تھی۔ ورنہ ماضی میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔

لوگوں کا خیال ہے کہ پانامہ لیکس کے بعد آرمی چیف نے اچانک بلا امتیاز احتساب کے بارے میں بیان دے دیا۔ جرنیلوں سمیت 6فوجی افسروں کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت کارروائی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا گیا۔ ممکن ہے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایسا کیا گیا ہو لیکن کرپشن کے خلاف کارروائی اس سے پہلے بھی ہو چکی ہے۔ یہ کارروائی این ایل سی سکینڈل میں کچھ سابق فوجی افسروں کے خلاف کی گئی تھی۔

جنرل راحیل شریف وہ پہلے آرمی چیف نہیں ہیں جن کے ساتھ میاں صاحب کے تعلقات بگڑے ہیں۔ ماضی میں جنرل آصف نواز، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کا ’’اٹ کھڑکا‘‘ ہو چکا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں انھوں نے ’’متبادل‘‘ آرمی چیف بھی سلیکٹ کر لیا تھا۔ اب بھی اچھے خاصے تعلقات میں بگاڑ پیدا کر لیا گیا ہے۔ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں والی کیفیت ہے۔

ریکارڈ ملاقاتیں کرنے والے آج ریکارڈ دوری پر نظر آ رہے ہیں۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم کی آخری ملاقات ایک ماہ پہلے ہوئی تھی۔ قربتیں فاصلوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ میرا خیال ہے اب دونوں کی خواہش یہی ہو گی کہ ملاقات نہ ہی کرنی پڑے۔ بعض دفعہ ملنے کے بجائے نہ ملنا بہتر ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔