جامعات اور’’پیرنٹس میٹنگ‘‘

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک وقت تھا کہ جب جامعات سے فارغ ہونے والے طلبہ عملی زندگی میں اعلیٰ کار کردگی دکھاتے تھے، یہاں سے ملک کے لیے ایک اچھی لیڈر شپ بھی میسر آتی تھی۔ اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک بڑا اہم سوال ہے، اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں، اس کے ایک نہیں کئی ذمے دار ہیں جن میں صرف حکومت ہی نہیں اساتذہ اور والدین کا بھی کچھ حصہ ہے۔

راقم سے ایک طالب علم نے اس ضمن میں کہا کہ اس وقت جامعات میں بھی نظم وضبط (ڈسپلن) کی کمی ایک بڑی وجہ ہے، یہ طالب علم پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ سے تعلق رکھتا ہے اس کا کہنا ہے کہ اب طلبہ لائبریری میں اپنا وقت گزارتے نظر نہیں آتے بلکہ میل فی میل (کسی فلم کے رومانوی منظر کی طرح) درختوں کے سائے میں ، کوریڈور اور خالی کلاس روم یا پھرسناٹوں والی جگہوں پر وقت گزارتے نظر آتے ہیں، کچھ سرعام سگریٹ پیتے، تاش کھیلتے نظرآتے ہیں۔

ایسے طلبہ بہت کم ہیں جو باقاعدہ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوں، باوجود مختلف نظریات آپس میں مباحث کرتے نظر نہیں آتے، نصابی یا غیر نصابی کتب کسی کے ہاتھ میں نظر نہیں آتی، البتہ استاد سے یہ مطالبہ کرتے ضرور نظر آتے ہیں کہ سر آپ فوٹو شاپ پر نوٹس کب رکھوائیں گے؟ گویا طلبہ کی اکثریت ریفرنس بک کی نہیں بلکہ نوٹس کی متلاشی نظر آتی ہے۔ ایک طالب علم نے انویسٹی گیٹیو رپوٹنگ (تفتشی خبر نگاری) کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ جامعہ کے اندر مختلف کینٹین پر سگریٹ کی فروخت کھلے عام ہو رہی ہے جہاں سے صرف لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی سگریٹ خرید کر پی رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ’’رومی فورم‘‘ کے دورے کے موقعے پر راقم کی ملاقات ایک بڑی سرکاری جامعہ کے شعبہ سیاسات کے استاد سے ہوئی جو اپنے شعبے کے مشیر امور طلبہ (اسٹوڈنٹ ایڈوائزر) بھی ہیں، ان کی زبانی معلوم ہوا کہ ان کے شعبے کے قریب زیر تعمیرکلاس رومز میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اکثر شراب کی خالی بوتلیں برآمد ہوتیں ہیں لیکن وہ اس مسئلے پر قابو نہیں پا سکے، اس سوال پر کہ کیا وہاں کوئی چوکیدار یا سیکیورٹی گارڈ وہاں تعینات کر کے مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا؟ ان استاد کا کہنا تھا کہ جس قسم کی معاشرتی حالت ہے اس میں کسی چوکیدار کو ہزار پانچ سو روپے دے کر خاموش نہیں کیا جا سکتا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب جامعات کی سطح پر بھی مطالعے کا کلچر دم توڑ رہا ہے، ہمارے ایک استاد نے جامعہ کراچی کے طلبہ کو ایک بڑی لائبریری کا دورہ کرایا، ان کی ممبر شپ کرائی، اپنی جیب سے خرچہ بھی کیا مگر نتائج مایوس کن آئے سوائے چند ایک کے طلبہ کی بھاری اکثریت نے کتابیں پڑھ کر ہی نہ دیں۔

لمحہ فکریہ ہے کہ جامعات میں جب یہ مایوس کن صورتحال بڑھ رہی ہو تو اس ملک کا مستقبل کس قدر روشن ہو گا؟ اور اس صورتحال کو کس طرح درست کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک طالب علم نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جامعات کی سطح پر طلبہ کے والدین کی کوئی میٹنگ نہیں ہوتی جس کے سبب والدین بالکل ہی لاعلم رہتے ہیں کہ ان کے بچے جامعات میں کیا کچھ کر رہے ہیں، والدین سمجھتے ہیں کہ جامعات میں ستر فیصد لازمی حاضری کا قانون لاگو ہے جس کو پورا کیے بغیر کوئی طالب علم امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا، اگر ان کے بچے امتحان میں پاس ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم پر پورا وقت لگا رہے ہیں لیکن والدین کو یہ علم ہی نہیں کہ اس حاضری کے قانون سے بچنے کے لیے اور امتحان میں پاس ہونے کے لیے ان کے پاس کیا کیا حربے موجود ہیں۔

اس طالب علم کا یہ کہنا ہے کہ اسکول کی سطح پر تو والدین کی ’’ پیرنٹس میٹنگ‘‘ باقاعدگی سے ہوتی ہے جس سے والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں اور کارکردگی کا پورا پورا علم رہتا ہے مگر جامعات کی سطح پر ایسا نہیں ہوتا، اگر جامعات کی سطح پر بھی اس قسم کا کوئی نظام وضع کر دیا جائے تو طالبعلموں کو یہ احساس ہو گا کہ ان کی سرگرمیوں کا علم کسی وقت بھی ان کے والدین کو ہو سکتا ہے لٰہذا وہ منفی سرگرمیوں سے دور رہیں گے، چنانچہ اس کا اثر تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں بہت مدد گار ہو گا۔جامعات کی سطح پر ’’پیرنٹس میٹنگ‘‘ بڑی عجیب سی بات لگتی ہے لیکن راقم کے خیال میں مذکورہ طالب علم کی بات بھی بڑی وزنی ہے اس پر غورکیا جانا چاہیے، یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہفتے یا ہر ماہ جامعات میں ’’پیرنٹس میٹنگ‘‘ کا اہتمام کیا جائے۔

جن جامعات میں سمسٹر نظام رائج ہے وہاں ایک سال میں دو ’’پیرنٹس میٹنگز‘‘ رکھی جا سکتی ہیں یا کم از کم ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب نئے داخلے ہوں تو جامعات میں شعبے کے سطح پر ہونے والے ’’اورینٹیشن ڈے‘‘ کے موقعے پر والدین کو بھی مدعو کر لیا جائے تا کہ انھیں بھی علم ہو سکے کہ جس جامعہ اور شعبے میں ان کے بچے نے تعلیم حاصل کرنی ہے وہ کیسی ہے؟ اس کے اساتذہ کیسے ہیں؟ اس موقعے پر شعبے کے اسٹوڈینٹ ایڈوائز کی جانب سے ایک فون نمبر بھی دیدیا جائے کہ اگر کوئی والدین کبھی اپنے بچوں کے بارے میں رابطہ کرنا چاہے تو بذریعہ ایس ایم ایس یا فون کر کے معلومات حاصل کر سکے۔ اس طرح جو والدین اپنی اولاد کے لیے اچھے خواب دیکھتے ہیں انھیں اپنے خواب پورے کرنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔

یہ آج کے دور کا ایک بڑا مسئلہ اور المیہ بھی ہے کہ والدین کو اپنی اولادکے بارے میں قطعی علم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کس قسم کے دوستوں کی صحبت میں وقت گزار رہی ہے، عموماً والدین بچوں کے بالغ ہونے پر سمجھتے ہیں کہ اب وہ سمجھدار ہو گئے ہیں لہذا ان کی جاسوسی نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح اولاد باغی بھی ہو سکتی ہے، بات یہ ہے کہ جاسوسی کرنے اور اس بات کا علم ہونے میں بڑا فرق ہے کہ ان کی اولاد کس ماحول میں اور کن کی صحبت میں وقت گزار رہی ہے، جو والدین اپنی اولاد کی خبر گیری نہیں رکھتے انھیں زندگی کے کسی بھی مقام پر بڑا دھچکہ لگتا ہے کہ ان کی اولاد کیا کچھ کر رہی تھی اور وہ کیا سمجھ رہے تھے۔

اخبارات گواہ ہیں کہ اسٹریٹ کرائم میں کتنے ہی ایسے لڑکے اورکچھ واقعات میں لڑکیاں بھی پولیس کے ہاتھوں پکڑی گئی جو کسی معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ذرا غور کیجیے ہم میں سے کتنے والدین ایسے ہوں گے جو چاہیں گے کہ ان کی اولاد اعلیٰ نمبروں سے امتحان پاس کرے، اچھی ملازمت اختیارکرے اور اپنے کردار سے خاندان بھر میں ان کی عزت بڑھائے، لیکن ان تعلیمی اداروں میں تو لائبریریاں خالی نظر آتیں ہیں جب کہ فضولیات میں وقت گزارتے طلبہ، سگریٹ نوشی کرتے طلبہ اور نشہ کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں آخر ان طلبہ کے بھی تو ایسے والدین ہوں گے جو ان سب فضولیات سے اپنی اولاد کو دور رکھنا چاہتے ہونگے، کیا ایسے والدین کی خواہش یوں ہی پوری ہو جائے گی یا اس وقت پوری ہو گی جب کہ وہ ان حالات سے واقف ہونگے؟

اس سلسلے میں اگر قارئین کوئی تجویز دینا چاہیں تو راقم کو ای میل ضرورکریں تا کہ جامعات کے اساتذہ تک یہ تجاویز پہنچا دی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔