رشید حسن خان چلے گئے

مقتدا منصور  جمعرات 5 مئ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

وہ طالب علم رہنما، وہ سیاسی دانشور، جو1970کے عشرے میں ایوبی آمریت کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں طلبہ تحریک کا سالار اعلیٰ تھا جس نے ملک کے حالات سے مایوس ہوکر جنرل ضیا کے دور سے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیارکر لی تھی، گزشتہ ہفتے خاموشی کے ساتھ اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ گیا۔ رشید حسن خان کون تھے؟ انھوں نے کن مقاصد کے لیے طویل جدوجہدکی؟ کیوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں؟ اور پھر کن وجوہات کی بنیاد پر عملی سیاست سے کنارہ کشی کو ترجیح دی؟ آج کی نسل ان حقائق سے قطعی بے خبر ہے۔

رشید حسن خان 1970کے عشرے میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF)کے مرکزی صدر ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ طلبہ تنظیم تھی، جس کا محور و مقصود معاشرے کے محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعلیم تک رسائی، تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی، ہر طبقے کے طلبا و طالبات کے لیے یکساں نصاب تعلیم کی تشکیل اور فیسوں کا مناسب ڈھانچہ تھا۔ اس نے ملک میں سماجی و معاشی انصاف اور جمہوریت کی بقا کی جدوجہد میں بھی شرکت کی۔

کیونکہ سماجی انصاف کے بغیر ابھرتی ہوئی نسلوں کی تعلیم تک رسائی ممکن نہیں ہوتی، جب کہ جمہوریت کے بغیر معاشرہ فکری طور پر توانا نہیں ہوتا۔ یہ NSF ہی تھی، جس نے ایوب خان کی فوجی آمریت کو اس وقت للکارا، جب سماج کے دیگر طبقات اس آمر کی کاسہ لیسی میں لگے ہوئے تھے۔ 1959میں شروع ہونے والی طلبہ تحریک کا ثمر تھا کہ ایوب خان جیسا مرد آہن1969میں اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوا۔

NSF کی جدوجہد کو سمجھنے اور رشید حسن خان کے مقام کو پہنچانے کے لیے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔ پاکستان میں طلبہ تحریک قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مجتمع ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ایک طرف جماعت اسلامی کے فکر و فلسفہ سے متاثر نوجوانوں کی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ وجود میں آئی۔ دوسری طرف روشن خیال، ترقی پسند اور سماجی انصاف کے متمنی طلبا و طالبات نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) کی بنیاد رکھی۔ ان دنوں کراچی مغربی پاکستان کا واحد اربن مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس لیے تمام سیاسی وسماجی تحاریک کا آغاز کراچی سے ہواکرتا تھا۔ DSF تعلیمی اداروں میں بہتر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ایک ایسے معاشرتی نظام کے قیام کی خواہش مند تھی، جس میں سماج کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی معیاری تعلیم تک رسائی ممکن ہوسکے۔

DSF نے دسمبر1952میں فیسوں کے نامناسب ڈھانچے، گریجویشن کے دورانیے میں اضافے اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کے فقدان کے خلاف جدوجہد کا آغازکیا۔ 8جنوری 1953کو جلوس ایک میڈیکل کالج سے روانہ ہوا، جو وفاقی وزیر تعلیم سے ملنے کا خواہش مند تھا تاکہ انھیں اپنی معروضات پیش کرسکے۔ جلوس کو وفاقی وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی ہدایت پر شاہراہ عراق پر روکنے کی کوشش کی گئی اور جب جلوس نے آگے بڑھنے پر اصرار کیا، تواس پر گولی چلادی گئی۔

جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر سمیت 8 نوجوان جاں بحق ہوئے۔ کچھ ہی عرصے بعد مشتاق گورمانی اور ایوب خان کے سازشی مشوروں کے نتیجے میں حکومت نے اس طلبہ تنظیم پرکمیونسٹ ہونے کا الزام عائد کر کے پابندی عائد کردی ۔ اس تحریک میں جن نامور شخصیات نے حصہ لیا تھا، ان میں سے بیشتر اللّہ کو پیاری ہوچکی ہیں۔ البتہ ڈاکٹرادیب الحسن رضوی جو اس جلوس میں شریک تھے، آج بھی عوامی خدمت کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔

DSF پر پابندی کے بعد روشن خیال اور ترقی پسند طلبہ نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن یعنیNSF میں شمولیت اختیار کی، جو اس وقت ایک غیر فعال سی نیم سرکاری طلبہ تنظیم تھی۔NSF میں جوہرحسین مرحوم، علی مختار رضوی مرحوم، حسین نقی ، معراج محمد خان جیسے روشن خیال اور ترقی دوست نوجوانوں کی آمد نے اس تنظیم کا حلیہ تبدیل کردیا اور یہ طلبہ حقوق کی ایک فعال اور جاندار آواز بن کر ابھری۔ معراج محمد خان کی سربراہی میں NSF روشن خیال طلبہ کی ملک گیر تنظیم بن گئی، جس کے یونٹ پاکستان کے ہر صوبے اور شہر کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر تک قائم ہوگئے۔

رشید حسن خان 1962میں نوعمر طالب علم کے طور پر اس طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے۔ انھوں نے اس پلیٹ فارم سے طلبہ حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں انتہائی فعال اور متحرک کردار اداکیا۔ جب معراج محمد خان اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد تنظیم کی مرکزی صدارت سے سبکدوش  ہوئے، تو یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک دھڑے کی قیادت امیرحیدرکاظمی مرحوم کررہے تھے، جب کہ دوسرا دھڑا رشید حسن خان مرحوم کی قیادت میںNSFکا رشید گروپ کہلایا۔ یہی وہ NSF تھی، جس کے پورے ملک میں یونٹس موجود تھے اور انتہائی فعال تھی۔

رشید حسن خان کا زمانہ طالب علمی خاصا پرآشوب دور تھا۔ ایک طرف ایوبی آمریت نے ایسا فسطائی ماحول پیدا کیا ہوا تھا، جس میں سانس لینا بھی دوبھر ہورہا تھا یعنی بقول جوش’’ وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔‘‘ دوسری طرف تیزی کے ساتھ پھیلتے سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے گھرانوں کے لیے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانا مشکل ہو رہا تھا، جب کہ تیسری طرف ایوب خان کے حواری اور کاسہ لیس افراد انھیں دس برس مکمل ہونے پر ترقی کی دہائی منانے کا مشورہ دے رہے تھے، لیکن اس سے قبل جنوری 1965میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خانی آمریت کو چیلنج کرنے میدان میں اتریں، تو NSFنے ان کی بھرپور حمایت اوران کے حق میں مہم چلانے کا فیصلہ کیا جس میں رشید حسن خان سمیت تمام طالب علم رہنماؤں نے انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ جنوری1965کے صدارتی انتخابات میں گو کہ ایوب خان دھاندلی کرکے جیت گئے  مگر نوجوانوں کی فعالیت کی وجہ سے کراچی سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے جب کہ ڈھاکا اور چاٹگام میں بھی انھیں شکست کا سامنا  کرنا پڑا۔

جنوری 1966 میں جب تاشقند معاہدے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے ایوب خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور وہ کابینہ سے مستعفی ہوگئے، تو ان کے قریبی دوست اور ساتھی بھی ان سے دامن بچانے لگے۔ بیشتر احباب جو کبھی سائے کی طرح ان کے پیچھے لگے رہتے تھے، اب ان کے سائے سے بھی کترانے لگے۔ ایک ایسے ماحول میں ڈاکٹر رشید حسن خان  نے بھٹو  کو ڈاؤ میڈیکل کالج (جہاں وہ زیر تعلیم تھے) مدعو کیا اور ان سے سیاسی تقریر کروائی۔ مگر سیاست میں محسن کشی ایک ایسا عیب ہے۔

جس نے تاریخ میں خوفناک المیوں کو جنم دیا ہے جب بھٹو کو سیاسی پلیٹ فارم مل گیا تو پھر انھوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ کس نے کن حالات میں ان کا ساتھ دیا تھا؟بلکہ انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی چھری NSFکی کمر میں گھونپی اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کر کے روشن خیال طلبہ کی تحریک کو تقسیم کردیا جس کے بعد طلبہ میں روشن خیالی کی تحریک  ایسی گہنائی کہ پھر سنبھل نہ سکی۔ بھٹو بہت دیدہ ور اور ذہین تھے، مگر مردم شناس نہیں تھے۔یہ طے ہے کہ اگر رشید حسن خان مرحوم جیسے لوگ ان کے ساتھ ہوتے، معراج محمد خان اور مختار رانا جیسے لوگ ان کا دست و بازو ہوتے ، تو نہ کسی آمر کو یہ جرأت ہوتی کہ انھیں تختہ دار تک پہنچائے اور نہ ہی پیپلز پارٹی اس حال کو پہنچتی، جس کا آج وہ شکار ہے۔

1968میں ایوب خان کے خلاف جب ملک گیر تحریک شروع ہوئی، تو اس کا ہراول دستہ طلبہ تھے جن کی قیادت رشید حسن خان جیسی متحرک اور فعال شخصیت کر رہی تھی جن کی وجہ سے اس تحریک میں عزم و حوصلے کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ انھیں دیگر ساتھیوں سمیت جلد ہی MPO کے تحت گرفتار کر لیا۔جس کی وجہ سے انھیں MBBSکا امتحان جیل میں دینا پڑا۔طلبہ تحریک کی وجہ سے ایوب مخالف تحریک پھیلتی چلی گئی جس کے نتیجے میں بالآخر 26مارچ 1969کو ایوب خان اقتدار جنرل یحییٰ کو منتقل کر کے سبکدوش ہونے پر مجبور ہوگئے۔ نئی مارشل لا حکومت نے ون یونٹ ختم کرنے اور اگست 1970 میں عام انتخابات کرانے کے اعلان کے ساتھ ہی تمام گرفتار رہنماؤں کو بھی یکے بعد دیگرے رہا کردیا۔

مگر عالمی اور ملکی اسٹبلشمنٹ کا جھکاؤ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی طرف تھا، جو انھیں ملک پر مسلط کیے رکھنا چاہتی تھیں۔ جنرل یحییٰ کی حکومت کے وزیر اطلاعات و نشریات نوابزادہ شیر علی خان مرحوم (جو نظریہ پاکستان کے بانی تھے) نے ریاستی اسٹبلشمنٹ کے ایما پر کھل کر مذہبی جماعتوں کی حمایت شروع کردی۔ حکومت کے تعاون اور مالی امداد سے ایک مذہبی جماعت نے لاہور میں شوکت الاسلام منا کرسیاسی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا۔چنانچہ بائیں بازو کی سیاست کا راستہ روکا جانا اور اس کا حلقہ تنگ کیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ یوں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ معراج محمد خان اور ڈاکٹر رشید حسن خان مرحوم سمیت کئی رہنما پابند سلاسل کر دیے گئے، جو انتخابات تک جیل میں رہے۔

وہ بھٹو دور ہی میں طلبہ سیاست سے الگ ہوگئے تھے، لیکن جنرل ضیا کے دور میں مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی فسطائیت اور طلبہ سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے ملکی سیاسی صورتحال کے بارے میں ان کی مایوسیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ لہٰذا انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے خود کو غریب و نادار افراد کو مفت طبی سہولیات فراہم کرنے اور لکھنے لکھانے تک محدود کرلیا تھا مگر اپنے نظریات اور افکار پر سختی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کے نظریات اور تلخ نوائی ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی طبع نازک پر نگراں گذرتی ہو، مگر وہ ایک صاف گو، جرأت مند اور بااصول رہنما تھے جنہوں نے کبھی اصولوں پر سودا نہیں کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں طلبہ تحریک پر لکھی جانے والی ہر تاریخ ان کے تذکرے کے بغیرنا مکمل رہے گی۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ حق مغفرت کرے عجب قلندر صفت انسان تھا جس نے ہم جیسے ان گنت لوگوں کی آنکھوں کو خواب دیکھنا سکھادیا  ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔