سید علی گیلانی: عزیمت کا کوہِ گراں

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 5 مئ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

11مارچ 2016ء کی دوپہر جب یہ خبر گرم ہوئی کہ مقبوضہ کشمیرکا یہ بوڑھا شیر نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگیا ہے تو پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے دل سے یہی دعا نکلی: یاالٰہی، انھیں صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ بتایا گیا تھا کہ انھیں دل کے حملے نے دبوچ لیا ہے۔ فوری طور پر مالویہ نگر میں واقع ان کی رہائشگاہ سے انھیں دہلی کے ایک معروف شفاخانے، میکس اسپتال، میں داخل کرایا گیا۔ آئی سی یو میں ڈاکٹر ویوک کمار نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ دل کا دورہ تو نہیں پڑا لیکن سینے کا درد شدید تھا۔

دوسری صبح انھیں آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ ان کے صاحبزادے، جناب سید نسیم گیلانی، نے میڈیا کے توسط سے منتظر چاہنے والوں کو اپنے والدِ بزرگوار کی خیریت کی خبر سنائی تو ہمیں بھی قرار آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ جناب سید علی شاہ گیلانی اب صحت یاب ہوچکے ہیں۔ تیمارداری کرنے والوں میں بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر جناب عبدالباسط بھی شامل تھے۔ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف بھی گیلانی صاحب کے لیے دعائے صحت کرتے سنائی دیے۔ تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد عبدالباسط نے علی گیلانی صاحب کے گھر جاکر انھیں 23مارچ 2016ء کو دہلی کے پاکستان ہائی کمیشن میں منعقد ہونے والے ’’یومِ پاکستان‘‘ کی تقریب کے لیے دعوت نامہ بھی پیش کیا۔ 23مارچ کو گیلانی صاحب نے بڑی محبت سے اس دعوت میں شرکت بھی فرمائی۔

مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی بھارت کے خلاف حریت و مزاحمت کی سب سے نمایاں، سب سے توانا اور سب سے نویکلی آواز ہیں۔ چھیاسی سال کے ہوچکے ہیں لیکن شعلہ حیات پوری طرح روشن ہے۔ خدا نے انھیں غیر معمولی استعداد، بے پناہ صبر اور اعلیٰ درجے کی تنظیمی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس عمر میں جب کہ عمومی طور پر انسانوں کا ذہن کام کرتا ہے نہ بدن کے دیگر اجزائے ترکیبی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں، سید علی شاہ گیلانی کی سرگرمیاں دیکھ کر آدمی ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ وہ ضعیف ہی نہیں، کئی امراض نے انھیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے لیکن وہ دشمنانِ کشمیر کے سامنے پوری طرح سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ ان کی بیماریوں کی کہانی سنیئے تو اور بھی حیرت ہوتی ہے۔

تقریباً بیس برس قبل دل کے امراض کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کے سینے میں ’’پیس میکر‘‘ لگا دیا گیا تھا۔ ابھی اس مرض پر قابو پایا گیا تھا کہ گردے کی تکلیفوں نے اُنہیں گرفت میں لے لیا۔ بہت علاج کروائے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ تنگ آکر 2003ء میں ممبئی کے ٹاٹا میموریل اسپتال میں ان کا بایاں گردہ ہی نکال دیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر یہ اقدام نہ کیا جاتا تو زہر سارے بدن کو مسموم کردیتا۔ اگلے برس ان کا Gall  Bladder نکال دیا گیا۔ یہ نہایت نازک آپریشن تھا لیکن خدا نے دہلی کے گنگا رام اسپتال کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی شفا بخشی کہ گیلانی صاحب کا یہ آپریشن بھی کامیاب ہوا۔ ابھی دو تین سال ہی صحت میں گزرے تھے کہ دوسرے گردے میں بھی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔

بایاں گردہ پہلے ہی نکالا جاچکا تھا، اب دایاں بھی متاثر ہوا تو گویا جان کے لالے ہی پڑ گئے۔ اللہ کی طرف سے بار بار آزمائشیں آرہی تھیں لیکن علی شاہ گیلانی کی ہمت ملاحظہ کیجیے کہ گھبرائے نہ دل چھوٹا کیا۔ حتیٰ کہ ان کے دائیں گردے کا نصف حصہ بھی کاٹ دیا گیا۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔ اگلے ہی برس ان کے سینے میں دوسرا ’’پیس میکر‘‘ نصب کرنا پڑا۔ یہ نازک مہم دہلی کے ایسکارٹ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرینِ امراضِ قلب کے ہاتھوں کامیابی سے انجام دی گئی۔ دو سال بعد ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا۔ دہلی کے اپالوہاسپٹل کے ماہرینِ امراضِ چشم نے گیلانی صاحب کی بھرپور اعانت کی۔ بھارتی ڈاکٹروں نے ہندو بن کر نہیں، انسان بن کر ان کی یہ خدمت انجام دی۔

لاہور کے اورینٹل کالج کے فارغ التحصیل اور بھارت کی جیلوں میں برسہا برس قیدِ تنہائی اور تشدد کا عذاب سہنے والے سید علی شاہ گیلانی لاریب مقبوضہ کشمیر کے جملہ ساکنان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دو جلدوں پر مشتمل ان کی خود نوشت سوانح حیات (رُودادِقفس) کا مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر اور عشروں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم برداشت کرتے ہوئے دراصل پاکستان، نظریہ پاکستان اور الحاقِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

’’رُودادِ قفس‘‘ پڑھتے ہوئے تو کئی جگہ پر آنکھیں فرطِ جذبات سے چھلک پڑتی ہیں۔ مذہبی اعتبار سے مقبوضہ کشمیر میں ہمت و عزیمت کا یہ کوہِ گراں سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کا عاشقِ صادق ہے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے لیے گیلانی صاحب نے واقعی معنوں میں پُرصعوبت زندگی گزاری ہے۔

اپنے مطمع نظر سے دستکش ہوئے نہ ہندو کے کسی بھی غچے کا شکار بن سکے ہیں۔ وہ تو جنرل صدر پرویز مشرف کے پھینکے گئے جال (مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولا) میں بھی نہ پھنسے کہ جانتے تھے کہ یہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے، اسے مزید گدلا اور گنجلک کردے گا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ، امرجیت سنگھ دُولت، کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل کتاب (Kashmir:  The  Vajpayee  Years) میں بڑی ہزیمت اور جھنجھلاہٹ سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ لاتعداد چالوں اور متنوع ہتھکنڈوں کے باوجود علی شاہ گیلانی کو ’’را‘‘ سمیت کوئی بھی بھارتی انٹیلی جنس ادارہ اپنی راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امرجیت سنگھ دُولت، جو کئی برس مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف خفیہ کھلواڑ کرتا رہا ہے، نے اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم علی شاہ گیلانی کو خرید سکے نہ ان کی قیمت لگانے کی ہمیں براہ راست جرأت ہی ہوسکی۔

مسلمانانِ مقبوضہ کشمیر کی امیدوں کے مرکز، جناب سید علی شاہ گیلانی، اگر چاہتے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ انھیں بار بار کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ کے سنگھاسن پر بٹھاتی اور ان کے صدقے واری بھی جاتی لیکن اس مردِ درویش نے کٹھ پتلی اقتدار کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہ دیکھا۔ انھوں نے کلام اقبالؒ  کا گہری نگاہ سے مطالعہ کر رکھا ہے۔

گیلانی صاحب نے عملی زندگی میں اقبالؒ  کا شاہین، خودی کا پیکر اور اقبال کا مردِمومن بن کر دکھا دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں حالاتِ حاضرہ سے اتنے باخبر اور حساس کہ بسترِ علالت پر بھی برطانوی وزیرخارجہ، فلپ ہیمنڈ، کے بیان کی مذمت کرنا نہ بھولے۔ یہ برطانوی وزیرخارجہ مارچ 2016 میں پاکستان کے دو روزہ دورے پر تھے۔ اسلام آباد میں انھوں نے بیان دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو پیشگی شرط رکھے بغیر بھارت سے مکالمہ کرے۔ جس روز یہ بیان پاکستان و بھارت کے میڈیا میں بازگشت بن کر سنائی دے رہا تھا، اسی روز گیلانی صاحب کے سینے میں درد کا طوفان اٹھا تھا اور انھیں فوری طور پر دہلی کے میکس ہاسپٹل لے جانا پڑا تھا لیکن درد والم کی اس کیفیت میں بھی سید علی شاہ گیلانی کشمیر کے بارے میں فلپ ہیمنڈ کے اس دل آزار اور غیر حقیقی بیان کی مذمت کیے بغیر نہ رہ سکے۔

پھر یہ بے لَوث اور حریتِ کشمیر پر زندگی کی ہر نعمت نچھاور کرنے والا شخص ہمیں پیارا اور جاں کا دلارا محسوس کیوں نہ ہو! زندگی کی آٹھ عشروں کو محیط بہاریں دیکھ چکے۔ اصل بہار دیکھنے کے لیکن ہنوزمنتظر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر کوئی اس فکر میں ہے کہ سید علی گیلانی کے بعد ’’حریت کانفرنس‘‘ کا وہ دھڑا جس کی وہ رہبری کررہے ہیں، اسے کون سنبھالے گا؟ گیلانی صاحب کا سیاسی وارث کون ہوگا؟

بعض لوگ ان خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کے دیرینہ ساتھی، محمد اشرف صحرائی، یا مقبوضہ کشمیر کے جنگجو لیڈر مسرت عالم بھٹ کو کسی روز وہ اپنا وارث نامزد کردیں گے۔ دو مئی 2016ء کو مگر انھوں نے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا: ’’میری موت کے بعد ہی میرے وارث کا اعلان ہوگا اور حریت کانفرنس کے ذمے داران بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اہم فریضہ کیسے ادا کرنا ہے۔‘‘ آئیے ہم سب سید علی شاہ گیلانی صاحب کی صحتِ کاملہ کے لیے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔