چور کو پڑ گئے مور

اوریا مقبول جان  جمعـء 6 مئ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کیا یہ سب ہنگامہ جو پوری دنیا میں پانامہ لیکس کے بعد برپا ہوا ہے‘ یہ سب ایک اچانک رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ جرمنی کے ایک اخبار کے پاس خفیہ معلومات کا ایک پلندہ آتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں مانگی جاتی۔ اخبار ان معلومات کو تصدیق کے لیے ایک بہت بڑی این جی او ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلزم‘‘ کو بھیج دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی معاوضہ طلب نہیں کیا جاتا اور دنیا بھر کے صحافی جو اس این جی او کے ممبران ہیں ان معلومات کی تصدیق میں لگ جاتے ہیں۔

ایک سال کی محنت اور تگ و دو کے بعد پونے دو کروڑ خفیہ دستاویز تصدیق کے مراحل سے گزرتی ہیں اور پھر ایک دن اچانک دھماکا ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تھرتھرا جاتی ہیں۔ ایک فہرست ان لوگوں کی خفیہ آمدنی کی سامنے آتی ہے جو ان ملکوں میں عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست دان‘ تاجر‘ صنعتکار‘ ان سب کی خفیہ دولت اور ٹیکس چوری‘ رشوت‘ کرپشن اور جرم سے کمائے ہوئے سرمائے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ یہ سب نہ تو اتنا اچانک ہوا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا خیراتی کام تھا کہ سب کا سب مفت ہو گیا۔

اس سب کو کثیر سرمائے کی فراہمی سے ممکن بنایا گیا اور ایسا کرنے کے پیچھے ایک مقصد تھا۔ یہ کوئی سیاسی شعبدہ بازی کاکھیل تماشا نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح بولتی ہوئی معاشی ضروریات پر مبنی حقیقت ہے اور اسے اس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ دار ایسے جانتے ہیں جیسے آسمان پر چمکتا سورج۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے‘ کون کروا رہا ہے‘ کس نے سرمایہ فراہم کیا اور آخر کار ان لوگوں کے خفیہ سرمائے کے ساتھ کیا کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے تجارتی مراکز میں بیٹھے سرمایہ داروں کے منہ پر صرف ایک ہی نام ہے جو اس سارے کام کے لیے سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے اور اس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اسے ایک عالمی ایجنڈا بھی بنوا لیا ہے۔

اس شخص کے بارے میں یہ حقیقت دنیا کے بڑے بڑے کاروباری حلقے جانتے ہیں کہ یہ جب چاہے اور جس وقت چاہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت گرا سکتا ہے‘ بینک دیوالیہ کر سکتا ہے‘ حکومتیں گرا سکتا ہے۔ اس شخص کا نام جارج سوروز George Soros ہے‘ اور آج کل یہ نام ہر خوفزدہ سرمایہ دار کی زبان پر ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے بینک آف انگلینڈ کو 1992ء میں تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا اور برطانیہ کو اپنی کرنسی کی قیمت گھٹانا پڑی‘ یورپی یونین کے ایکسچینج ریٹ سے علیحدہ ہونا پڑا اور امریکی ڈالر کی گود میں بیٹھنا پڑا۔

12 اگست 1930ء کو ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس شخص کا نام شوارٹز گاؤرگی Schwartz Gyorgy رکھا گیا۔ چونکہ اس نام سے وہ ایک خالص یہودی کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا‘ اس لیے امریکا میں اس نے جارج سوروز کے نام سے اپنی شناخت بنائی۔ وہ دنیا کے تیس بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہے۔ یہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جو کھلم کھلا صہیونی عالمی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں اور ایک عالمی یہودی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی مذہبی پیش گوئیوں پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ایک دن ہو کر رہے گا۔ سوروز دنیا کا سب سے بڑا این جی او ڈونر ہے۔ا س کی سو روز فاؤنڈیشن نے گیارہ ارب ڈالر اب تک دنیا کی مختلف انسانی حقوق‘ حقوق نسواں اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے ہیں۔

مشرقی یورپ میں کیمونزم کے خلاف تحریکوں کو سرمایہ اسی نے فراہم کیا۔ امریکی صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں اس کا سرمایہ شامل ہوتا ہے۔ میڈیا کی خفیہ فنڈنگ اس کا معمول ہے اور اسی لیے میڈیا اسے ایک عظیم مخیر‘ جمہوریت کا مدد گار اور عالمی امن کا خواہاں بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی معاشی پیش گوئیوں کے سلسلے میں مشہور ہے اور اس کی کتابیں‘ مضامین اور لیکچر دنیا بھر میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ اس نے 2008ء کے معاشی بحران کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ بلبلہ پھٹنے والا ہے اور ابھی اس نے جنوری 2016ء میں سری لنکا کے اکنامک فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایک بہت بڑا معاشی طوفان آنے والا ہے جو دنیا بھر کی کرنسیوں کو تہہ و بالا کر دے گا۔ کاروباری حلقے اس کی بات کو جسقدر سنجیدہ لیتے ہیں اسقدر وہ کسی اسٹاک مارکیٹ کے احوال کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک کٹر صہیونی ہے جس کو سی آئی اے کی خفیہ مدد حاصل ہے‘ اسی لیے وہ اپنے ہر معرکے میں کامیاب لوٹتا ہے۔ پانامہ لیکس کے پیچھے اسی کا سرمایہ ہے اور اسی نے اس تحقیقاتی کنسورشیم کو فنڈ فراہم کیے تا کہ ایسے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر دیے جائیں کہ دنیا بھر کے یہ ’’عزت دار‘ چور اور بددیانت سیاست دان اور سرمایہ دار قابو میں آ جائیں اور پھر ان کا تمام سرمایہ ان سے چھین لیا جائے۔

سی آئی اے ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے اور سوروز کیوں اس کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے‘ یہ اسقدر سیدھی سی بات ہے کہ وال اسٹریٹ سے لے کر لندن اور پیرس بلکہ بیجنگ تک ہر بڑے سرمایہ دار کے دماغ میں آ چکی ہے۔ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح معاشی حقیقت ہے۔ امریکا کا قرضہ 19 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘ جب کہ یورپی یونین یعنی یورو زون کے قرضے 16 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سات سال سے یورپین سینٹرل بینک صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ روس کے سیاسی منظرنامے پر آنے‘ چین کے معاشی طاقت بن جانے اور پھر ایران کے ساتھ مل کر ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں خرید و فروخت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔

یوں وہ محفوظ (SURPLUS) سرمایہ جو آجکل ڈالروں کی شکل میں ہے کسی اور جانب منتقل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی کھپت کم ہو رہی ہے اس لیے پٹرو ڈالر یعنی تیل کی ڈالر میں خریدوفروخت سے جو امریکی ڈالر کی ساکھ ہے وہ ختم ہوتی جائے گی کیونکہ دیگر ذرایع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ جو امریکی بالادستی کو صہیونی ایجنڈے سے منسلک کرتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے کہ ایک دن امریکی معاشی برتری ختم ہو جائے۔ ایسے میں صرف ایک سرمایہ ہے جو اس صورت حال میں امریکی ساکھ کو بچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے‘ مختلف ملکوں کے بددیانت حکمرانوں اور چور سرمایہ داروں کا 105 ہزار ارب ڈالر سرمایہ جوآف شور کمپنیوں کی صورت پڑا ہوا ہے۔

اس میں ہر طرح کے جرم کا پیسہ بھی شامل ہے۔ اس میں منشیات کے دھندے‘ اسلحے کی فروخت اور حکمرانوں کی کرپشن کا پیسہ سب شامل ہے۔ امریکا میں ہر سال 160.7 ارب ڈالر کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں جرم سے کمائے جانے والے پیسے کی تعداد 2003ء کے اندازے کے مطابق 48 ارب پاؤنڈ تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی فنانس منسٹری نے 1998ء میں بتایا کہ ہر سال وہاں 500 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

ڈو جونز (Dow-Jones) جو سب سے بڑا معاشی تجزیہ کار چینل اور وال اسٹریٹ کی آنکھ سمجھا جاتا ہے اس کے نزدیک دنیا بھر کی جی ڈی پی کا 5 فیصد سرمایہ جرم سے کمایا جاتا ہے اور اس کی تعداد دو ہزار سے تین ہزار ارب ڈالر تک ہے۔ یہ سب سرمایہ آف شور کمپنیوں کے ذریعہ سفید کیا جاتا ہے اور پھر ان چور اور بددیانت حکمرانوں اور تاجروں کو کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس سے ان ملکوں کی تجارت اور صنعت میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں سرمایہ کاری بڑھتی ہے۔

ان چوروں کو اسی لیے اجازت دی گئی تھی لیکن اب تو معاملہ اس سودی معاشی نظام کو بچانے اور امریکی ڈالر کی حکومت کا آ گیا ہے۔ اس لیے پانامہ لیکس نے ایک چھوٹا سا آغاز کیا ہے۔ یہ امریکی کانگریس میں ایک قانون کا مسودہ تیار ہو چکا جس کے تحت قومی مفاد میں لاء فرموں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان سب چوروں کی جائیدادوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ایسا ہی قانون پیروی یورپی یونین کے ملک منظور کریں گے اور پھر ان معلومات پر تحقیقات کا آغاز ہو گا۔ تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔ یہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ رکھنے والے بے وقوف حکمران اور سرمایہ دار جانتے نہیں کہ ان کی نوے فیصد دولت کا امریکی حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کیونکہ وہ اپنا تمام کاروبار ڈالروں میں کرتے رہے ہیں۔

اور ان کا سرمایہ امریکی نظام معیشت کی نظر میں ہوتا ہے۔ یہ سب صرف تین چار سال کے عرصے میں ہو جائے گا۔ تقریباً 105 ہزار ارب ڈالر امریکا اور یورپ کی قسمت بدل دے گا اور چور حکمران اور جرم سے سرمایہ کمانے والے سرمایہ دار اپنی دولت کو اپنے سامنے ان ملکوں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھتے رہ جائیں گے۔ آج تک کسی ڈکٹیٹر کی لوٹی ہوئی دولت کو ان ملکوں نے اسے خرچ نہیں کرنے دیا‘ مارکوس‘ پنوشے اور شاہ آف ایران مثالیں ہیں۔ پیرس کے بیچوں بیچ ایک بہت بلند عمارت ہے جو شاہ آف ایران کی ملکیت ہے۔

انقلاب آیا تو اسے فرانس کی حکومت نے قبضے میں لے لیا اور پوچھا بتاؤ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ جواب ندارد۔ دور کھڑے حسرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ یہی حال چند سالوں بعد ان لوگوں کا ہونے والا ہے جن کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ ایک دن ہائیڈ پارک میں کھڑی شریف فیملی ان فلیٹوں کو حسرت سے دیکھ رہی ہو گی کہ یہ کبھی ہمارے تھے۔ کیونکہ وہاں یہ ثابت کرنا کہ سرمایہ کہاں سے آیا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ وہاں ٹی او آر وہ طاقتیں بنائیں گی جو اس ساری گیم پر اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔