جرگہ سسٹم بہیمانہ فیصلوں کے خلاف کارروائی کی جائے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ایک موثر قانون کی موجودگی میں ان جرگوں کی کیا حیثیت ہے؟


Editorial May 07, 2016
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو چاہیے کہ جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو روکنے میں اپنی ذمے داری سرانجام دیں، فوٹو: فائل

ایبٹ آباد میں جرگہ کے حکم پر 16 سالہ لڑکی کو جلائے جانے کے اندوہناک واقعے پر ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ جرگہ کے تحت بہیمانہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلوں کی خبریں مختلف اوقات میں منظر عام پر آتی رہی ہیں، حالیہ مذکورہ واقعہ بربریت کی الگ مثال ہے جس میں ایبٹ آباد کے علاقے مکول پائیں میں نویں جماعت کی طالبہ کو جرگہ کے حکم پرپہلے دوپٹہ سے پھانسی دی گئی، بعد ازاں گاڑی میں ڈال کر جلادیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق مقتولہ پر الزام محض اتنا تھا کہ اس نے اپنی سہیلی کو پسند کی شادی کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ تمام تر صورتحال کا گاؤں والوں کو بھی علم تھا لیکن بااثر گروپ کے خوف کی وجہ سے کسی نے بھی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کی۔ قتل کی جانے والی لڑکی کا باپ روزگار کی غرض سے کراچی میں مقیم ہے۔ پولیس نے ولیج کونسل کے ناظم سمیت جرگہ کے 13 افراد اور مقتولہ کی ماں کو گرفتار کر لیا جب کہ دو روپوش ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ایک موثر قانون کی موجودگی میں ان جرگوں کی کیا حیثیت ہے؟ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں جاگیردارانہ اور قبائلی سسٹم کی ظالمانہ رسموں نے کئی کم سن لڑکوں، لڑکیوں، معصوم بچیوں اور نوجوانوں کے زندگی کے چراغ گل کیے، جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور بلوچستان و خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں قبائلی رسموں پر عمل درآمدکو جاگیردارانہ رعونت کی علامت اور شان سمجھا جاتا ہے۔

اس طرز عمل کا تدارک ناگزیر ہے۔ کم عمر بچے بچیوں کے قتل یا دیگر رسموں کے تحت جبری شادی کی روک تھام کے لیے قانون کو حرکت میں آنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے جرگوں میں بااثر افراد کے حق میں ہی فیصلہ دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک لڑکی کی عزت لوٹے جانے پر جرگہ نے دو من گندم دینے کا شرمناک فیصلہ سنایا تھا۔ آخر ریاست کب تک ان جرگہ سسٹم کے تحت ہونے والے مظالم پر چشم پوشی اختیار کیے رہے گی۔ امریکی محکمہ انصاف نے اپنے 2012 ء کے انسانی حقوق کے جائزے میں پاکستان کے مستحکم آئینی و قانونی نظام کے متوازی قبائلی سسٹم پر کڑی تنقید کی تھی۔

امر تو یہ ہے کہ اس جرگہ سسٹم کے حامی پارلیمنٹ میں موجود ہیں جو علی الاعلان ان غلط فیصلوں کو اپنی روایات قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں جب کہ جرگہ سسٹم کے خلاف عدالتی حکم موجود ہے۔ مذکورہ واقعے کی ہر سطح پر مذمت کی جا رہی ہے، سیاسی و سماجی پارٹیوں نے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے معصوم عنبرین کے وحشی قاتلوں کو معافی نہیں ملنی چاہیے، عوام جرگہ نظام کے خلاف بغاوت کر دیں جن کے ذریعے بچوں اور خواتین سمیت معصوم لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ جرگہ نظام معاشرے کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو چاہیے کہ جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو روکنے میں اپنی ذمے داری سرانجام دیں اور ملزمان کو عبرت ناک سزائیں دے کر ایک مثال قائم کریں۔

مقبول خبریں