پیپلز پارٹی عمران خان سے ہاتھ کر گئی!

رحمت علی رازی  اتوار 8 مئ 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

بالآخر حزبِ اختلاف کے9 رکنی پارلیمانی اتحاد کے تیار کردہ تحقیقاتی نکات کا سانپ پٹاری سے باہر آ ہی گیا۔ بظاہر تو یہ متحدہ اپوزیشن فرنٹ کے دستخطوں سے جاری ہونیوالے متفقہ شرائطِ کار ہیں تاہم یہ بھی ہویدا ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے جملہ جماعتوں کو تیز و تند جملوں کے مناقشہ سے گزرتے ہوئے قابلِ فہم حد تک انتشار و افتراق کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعظم کے استعفیٰ سمیت کئی متعلقہ اُمور پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔

حکومت کے وہ سیاسی مخالفین جو ایک ہفتہ قبل تک ’’گو نواز گو‘‘ کو عملی قالب میں ڈھالنے کے لیے ایک ہی کنٹینر پر سوار ہو کر ایوانِ وزیراعظم کا گھیراؤ کرتے دکھائی دے رہے تھے، یکایک قانونی جواب نامہ وضع کرنے پر راضی برضا ہو گئے اور ناگاہ ہی وزیراعظم کے استعفیٰ سے بھی دستبردار ہو گئے۔ اس محلِ وقوع پر غائر نظر ڈالی جائے تو اس ساری طرفہ ماجرائی کی پشت پر ایک دھندلی سی تصویر نظر آتی ہے جسے صرف چشمِ بینا ہی دیکھ سکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے 15 نکاتی ٹی او آرز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شریف فیملی 3 ماہ میں خود کو بیگناہ ثابت کرے، پانامہ لیکس پر انکوائری کمیشن صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تشکیل دیا جائے، سب سے پہلے وزیراعظم کے خاندان کی تحقیقات کی جائیں۔

وزیراعظم اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں اور آمدن کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعلان کریں، اگر کسی صورت میں جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو ٹی او آرز کا سارا عمل اپوزیشن کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے مکمل کیا جائے، پانامہ پیپرز انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کے نام سے خصوصی قانون منظور کر کے اس کے ذریعے تحقیقات کو تحفظ دیا جائے، پانامہ لیکس کی تحقیقات بین الاقوامی آڈٹ فرم سے کرائی جائے جسکا انتخاب بذریعہ تشہیر و بولی کیا جائے، کونسی جائیداد کہاں ہے؟ کیسے خریدی؟ پیسہ کہاں سے آیا؟ باہر کیسے بھیجا؟ انکم ٹیکس کتنا دیا اور ذرایع آمدن کیا ہیں؟

چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے متعلق تحقیقات 3 ماہ میں جب کہ پانامہ پیپرز میں منکشف ہونیوالے دیگر پاکستانیوں کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کریگا، چیف جسٹس کو اختیار ہو گا کہ وہ سپریم کورٹ کے دو ججز کو رکن نامزد کریں، کمیشن کو عدالتی اختیارات حاصل ہونگے اور کمیشن ایک یا زائد مشترکہ (عالمی) تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے سکے گا جو مختلف ممالک اور اداروں سے معلومات، دستاویزات، ریکارڈ اور شواہد اکٹھے کریں گی، یہ کمیشن وزیراعظم اور ان کے خاندان سے 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے کا مجاز ہو گا‘ تاہم اس مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی جا سکتی ہے، بیگناہی ثابت کرنے کی ذمے داری ملزم کی ہو گی البتہ کمیشن نے جسے ذمے دار ٹھہرایا وہ قانون کے تحت سزا کا حقدار ہو گا۔

وفاقی حکومت کمیشن کی رپورٹ شایع کرنے کی پابند ہو گی، کمیشن مذکورہ 1985ء سے 2016ء تک وزیراعظم سے جائیداد یا اثاثوں کے بارے میں کچھ بھی تحقیقات کر سکے گا اور دریافت کر سکے گا کہ آیا وزیراعظم اور ان کا خاندان دسمبر 2000ء سے بیرون ملک بطور اسٹیٹ گیسٹ رہائش پذیر رہا، کیا اس دوران حاصل کی گئی جائیداد، تحائف یا رقم ریاستِ پاکستان کے نام پر لی اور کیا اس رقم یا تحائف کو قومی خزانے میں جمع کروایا؟ ٹرمز آف ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خصوصی کمیشن کو آف شور کمپنیوں، اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس سمیت ہر قسم کے ریکارڈ تک رسائی کے خصوصی اختیارات دیے جائینگے، انکار کی صورت میں وزیراعظم بذاتِ خود قصوروار تصور ہونگے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی ان سفارشات کو پڑھ کر وزیراعظم انہیں مِن و عن کیونکر تسلیم کر لینگے اور یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ وہ صرف خود کے احتساب پر مان جائینگے؟ کسی بھی طرح کے معروضی حالات میں اپوزیشن کا یہ جزنامہ محض تجاویز کی ایک دستاویز ہے جس کی کسی بھی لحاظ سے کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جہاں تک اخلاقی حیثیت کی بات ہے تو نوازشریف جیسے شخص کو یہ حقیقت کس طرح باور کرائی جائے جو اخلاقیات پر چنداں یقین ہی نہیں رکھتے، اگر ایسا ہوتا تو وہ اخلاقی جواز کی بنیاد پر کب کے مستعفی ہو چکے ہوتے۔ اگر شیخ رشید کی بات پر یقین کر لیا جائے کہ8 یا 9 جماعتوں میں سے 6 کا وزیراعظم کے استعفے پر اتفاق ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اکثریتی رائے کو نظرانداز کر کے استعفیٰ کی شِق مجوزہ شرائطِ کار میں شامل نہیں کی گئی۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جس طمطراق سے اپوزیشن جماعتوں کے دانائے کُل سر جوڑ کر بیٹھے تھے، اس طرح کا کوئی کارآمد مطالبہ ان کی طرف سے سامنے نہیں آیا‘ زبانی جمع خرچ کے طور پر خواہ ہی وہ استعفے کے آخری آپشن پر اڑے ہوئے ہیں۔ ابتدائے تحرکات تو پی ٹی آئی وزیراعظم کے استعفیٰ سے ایک انچ بھی پسپا ہونے کو تیار نہ تھی اور وزیراعظم کے استعفے کا اصل موقف بھی عمران خان ہی کا تھا‘ بعدازاں پیپلزپارٹی بھی اس مطالبہ کی شریکِ کار بن گئی اور وہ قائدِ حزبِ اختلاف جنہیں عمران خان نوازشریف کا منشی قرار دے چکے ہیں اور ان پر فرینڈلی اپوزیشن کا متعدد بار الزام بھی لگ چکا ہے، ان کا اور پی ٹی آئی کا باہم مل بیٹھنا مافوق الفہم سی بات لگتی ہے۔

نواز حکومت کے خاتمے کا اصل اسکرپٹ بھی ان دونوں ہی کا تھا جسے شیخ رشید کی قلم دوات کی حمایت ضرور حاصل تھی مگر علاوہ ازیں کوئی بھی سیاسی جماعت اس انتہائی ایجنڈے پر عمل پیرا نظر نہ آئی۔ اے این پی، عوامی وطن پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم وزیراعظم کے احتساب پر ضرور متفق تھیں مگر استعفیٰ کی حد تک ان کا اتفاق نہ تھا، حتیٰ کہ قاف لیگ بھی اس موقف پر قائم نہ رہ سکی اور چوہدری شجاعت کے پہلو میں براجمان مشاہد حسین نے اعتزاز احسن سے اسلیے ہاتھ ہلکا رکھنے کی استدعا کی کہ کل کو کہیں اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں یا ممبران کے نام پانامہ لیکس میں افشاء ہو گئے تو وزیراعظم کا استعفیٰ لینے والے عوام کو منہ دکھانے لائق بھی نہ رہیں گے۔

بلاول زرداری، اعتزاز احسن، خورشید شاہ اور قمرزمان کائرہ نے وزیراعظم کے خلاف جتنا سخت موقف اختیار کیا، اس سے کہیں زیادہ لچک اور نرمی ان کے لہجوں میں آخر کیوں دَر آئی؟ ان کی باڈی لینگویج اپوزیشن اجلاس کے دوران اچانک کیوں ڈھیلی پڑ گئی اور شاہ محمود قریشی جیسا زیرک سیاستدان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا گیا۔ اجلاس کے پہلے روز کسی حتمی نتیجہ تک نہ پہنچا جا سکا اور استعفیٰ کے ایشو کو چھوڑ کر فقط چار نکات پر اتفاق ہوا‘ ان میں سے بھی تین نکات پیپلزپارٹی کے تھے‘ پی ٹی آئی کا صرف ایک نکتہ تھا یعنی اس احتساب کو صرف وزیراعظم تک محدود رکھا جائے۔ یہی نکتہ حتمی شرائطِ کار میں بھی سرفہرست ہے جس میں پیپلزپارٹی نے اپنی طرف سے یہ اضافہ کیا کہ احتساب پہلے فیز میں وزیراعظم تک ہی محدود ہو، بہ ایں ہمہ احتسابی عمل صرف پانامہ دستاویزات سے ہی متعلق ہو۔

اب ذرا حکومتی ٹرمز آف ریفرنس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ جن نکات سے خائف ہو کر اپوزیشن کو اپنے نکات تجویز کرنا پڑے ان میں ایسی کونسی تجزیات ہیں جنکا حکومت کو فائدہ اور اپوزیشن کو نقصان ہو سکتا ہے۔ حکومت کا تجویز کردہ کمیشن درج ذیل ٹرمز آف ریفرنس کے تحت کام کریگا: کمیشن انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت قائم کیا جائے، کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیرملکیوں اور اداروں سے پانامہ یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کر سکے گا،کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہو گا جنھوں نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہلِ خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقوم ملک سے باہر بھجوائیں۔

انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کریگا کہ کیا پاناما لیکس الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاؤنٹینٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہو گا اور کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویزات طلب کر سکے گا، کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا، کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہو گی اور تمام وفاقی و صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہونگے، تحقیقات کب اور کہاں ہونگی اس کا فیصلہ کمیشن خود کریگا، کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔

اب ان شرائط پر نقد و نذر یہی ہے کہ حکومت نے ان میں ایک شِق (انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کریگا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں) شامل کر کے وزیراعظم اور ان کی اولاد پر اٹھنے والی انگلیوں کو بے اثر کر دیا ہے۔ ظاہر ہے وزیراعظم کے بچوں نے جو آف شور کمپنیاں قائم کی ہیں وہ متعلقہ ممالک کے قوانین کے مطابق ہیں اور اس سے کسی پاکستانی قانون کی قطعی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ جہاں سے وزیراعظم کی پکڑ ہو سکتی ہے کہ ان کمپنیوں کو قائم کرنے کے لیے سرمایہ کہاں سے منتقل کیا گیا، اس کے ثبوت اتنی آسانی سے ہاتھ لگنے والے نہیں اور اگر اصل اکاؤنٹس تک رسائی نہ دی گئی تو دنیا کا کوئی بھی فرانزک آڈیٹر اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنے سے قاصر رہیگا۔

لندن کے جو فلیٹس وزیراعظم کے نام بتائے جاتے ہیں، شنید ہے کہ کسی اور نام پر منتقل ہو چکے ہیں جسکا مختارنامہ عام پاکستانی اسٹامپ پیپر پر پرانی تاریخ میں کسی وکیل کے نام پر رجسٹرڈ ہو چکا ہے جس سے یہ بات تو یقینی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کا احتساب نہ تو مجوزہ انکوائری کمیشن کر سکتا ہے‘ اور نہ ہی ایف بی آر یا الیکشن کمیشن اب اس کیس پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی ٹرمز آف ریفرنس میں اپوزیشن کے ان احباب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جنھوں نے عوامی عہدوں پر رہ کر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہلِ خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

اس شق سے جو سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں ان میں سرِفہرست زرداری، ان کے وزراء، رفقاء اور اقارب و اعزہ ہیں، ان کے علاوہ چوہدری برادران، ان کے وزراء و اقارب وغیرہ۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھا جائے تو جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان پہلا نشانہ بن سکتے ہیں‘ ان کے علاوہ بھی پی ٹی آئی میں کئی پرانے سیاستدان متاثر ہو سکتے ہیں جو فی الحال پردے میں ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اڑھائی سو ارب روپے کے قرضے معاف کرانیوالوں میں پچانوے فیصد سیاسی شخصیات ہیں جنکا ریکارڈ محفوظ ہے اور وقت آنے پر وہ کمیشن کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات جو اس مخصوص ٹی او آر میں موجود ہے، وہ یہ کہ الیکشن کمیشن کے ضابطۂ کار کی رُو سے قرضے معاف کروانے والے سیاستدان انتخابی عمل کے لیے نااہل قرار پائینگے جس سے جنھیں سیاسی کیریئر ہمیشہ کے لیے تاریک ہو جائے گا۔

سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے فوائد حاصل کرنیوالوں میں خورشید شاہ اور اعتزاز احسن بھی زد پہ آ سکتے ہیں۔ حکومت کے اس ٹی او آر سے شاید ہی کوئی اتنا پریشان ہو گا جتنا کہ زرداری گروپ اور چوہدری برادران ہیں۔ اسی ٹی او آر نے عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے دباؤ پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت ہونے کے ناتے اس اَمر کی سب سے زیادہ بے چینی پیپلزپارٹی کو ہے‘ شاید اسی غرض سے اس نے چیف جسٹس کی طرف سے کمیشن کا اعلان کرنے سے پہلے ہی اپنے ٹی او آرز کے ذریعے حکومت کو زبردست دباؤ میں لانے کے لیے اپوزیشن کی دیگر آٹھ جماعتوں کو اپنی چان کیّائی چال سے بیوقوف بنا لیا ہے۔

چیف جسٹس کمیشن بنانے کے لیے اپنی رائے ظاہر کرنے ہی والے تھے کہ اپوزیشن کے شرائطِ کار آنے کے بعد وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے میں مزید محتاط ہو گئے ہیں‘ اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت تک خاموشی اختیار کیے رکھیں جب تک کہ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی میز پر آ کر کوئی متفقہ جزنامہ جاری نہیں کر دیتیں۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو حکومت اور اپوزیشن کے ٹی او آرز کے پیچھے تاہنوز لندن میں ڈیرہ جمائے آصف زرداری کا صد فیصد ہاتھ ہے۔ سندھ میں اپنے جماعتی اکابرین اور قریبی ساتھیوں کے رینجرز، نیب اور ایف آئی اے کے بدست زیر عتاب آنے کے بعد زرداری ایسے موقع کے انتظار میں تھے کہ حکومت کسی مصیبت میں گرفتار ہو اور وہ اسے بچانے کے لیے اپنے مطالبات اس کے آگے رکھیں۔

اللہ نے انہیں پاناما لیکس کا تحفہ عطا کر دیا حالانکہ اس میں محترمہ شہید اور رحمان ملک کے علاوہ محترمہ کے ایک رشتہ دار اور خود زرداری کے قریبی ساتھی کا نام بھی شامل ہے مگر ان کی دانست کے مطابق اس سے انہیں کوئی براہِ راست نقصان نہیں ہو سکتا، سو انھوں نے اسے موقعِ غنیمت جان کر نوازشریف پر گھیرا تنگ کرنے کا پلان بنایا۔ ابتداء میں انھوں نے نوازشریف کے قریب بیٹھ کر ان سے رابطہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پارٹی کو پاناما پر شور مچانے کا عندیہ دیا۔ اسحاق ڈار اور رحمان ملک میں جو خفیہ اور اعلانیہ ملاقات ہوئی اس کے شاملات بھی رحمان ملک نے لندن پہنچا دیے اور جواباً یہ ایجنڈا لائے کہ نون لیگ پر آخری حد تک دباؤ بڑھایا جائے۔

اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنانے کا کہا تو پی ٹی آئی بھی اسی نکتہ پر جم گئی۔ المختصر، وزیراعظم کو بادلِ نخواستہ کمیشن کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھنا پڑا مگر انھوں نے زرداری کی چال کو ناکارہ کرتے اور خود کو بچاتے ہوئے اُلٹا زرداری اور دیگر جماعتوں کو پھنسانے کے لیے اپنی پسند کے 2 ٹی او آرز شرائطِ کار میں داخل کر دیے۔ چیف جسٹس اگر ترکی کے دورہ پر نہ جاتے تو کمیشن کا فیصلہ کافی دیر پہلے ہو چکا ہوتا۔ کمیشن کی تشکیل میں تاخیر سے پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو مزید مہلت مل گئی جس سے فائدہ اٹھا کر بلاول کو کشمیر میں تقریر کا اسکرپٹ یاد کروایا گیا۔

کوٹلی کے اس جلسہ میں بلاول اور پی پی کے دیگر مقررین نے (جن میں یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اور فریال تالپور بھی شامل تھے) کیسی زبان اور کیسا لہجہ استعمال کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ بلاول نے نوازشریف کے خلاف جو جملے استعمال کیے ان سے نوازشریف کو خائف کر کے یہ تاثر دیا جانا مقصود تھا کہ نوازشریف کا جانا اب ٹھہر گیا ہے اور انہیں دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں پائیگی، ماسوائے زرداری کے۔ جب نوازشریف کو کسی نے بہادر بننے کا مشورہ دیا تو وہ یہ سوچ کر انتخابی مہم پر نکل پڑے کہ استعفیٰ تو وہ موت کی حالت میں بھی نہیں دینگے اور اگر کسی نادیدہ طاقت کی جانب سے نئے الیکشن کروانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو اس کے لیے وہ سب سے پہلے تیاری کر لینگے اور دوبارہ منتخب ہو کر آ جائینگے۔

آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ اپنے علیحدہ ٹی او آرز بنانے کے لیے جس دن پیر کو اپوزیشن کا پہلا اجلاس ہوا اور نوازشریف کوئٹہ کی ایک تقریب میں اپنے مخالفین کو 2018ء کے بعد بھی صبر کرنے کی تلقین فرما رہے تھے، اسی دوران راولپنڈی میں جنرل راحیل شریف کور کمانڈز اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ بظاہر تو اس اجلاس کا اعلامیہ یہی تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کا خاتمہ کیا جائے گا مگر حقیقت میں اس کی روداد یہ تھی کہ ملک میں جو افراتفری کا ماحول بننے جا رہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے فوج کا ہنگامی لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اسی روز ایک باعلم سیاستدان نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ لیتے لیتے کہیں جمہوریت کا استعفیٰ ہی نہ آ جائے۔

اس بات کی بھِنک اپوزیشن کے تحقیقاتی نکات بنانے والوں کو بھی پڑ گئی تھی کہ ہم کسی ایسے کمیشن کی طرف تو نہیں بڑھ رہے جسکے ٹی او آرز کسی تیسری طاقت کو بنانے پڑیں۔ پیپلزپارٹی کو یہ شدید احساس ہے کہ اگر نئے انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس کی پوزیشن پہلے سے بھی نیچے آ جائے گی اور ہو سکتا ہے جو گرینڈ الائنس سندھ حکومت کے خلاف بن چکا ہے وہ اسے سندھ سے بھی آؤٹ کر دے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے، لہٰذا ان دونوں بڑی جماعتوں کا خیال ہے کہ اتنی جلدی نئے انتخابات ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہونگے۔

پیپلزپارٹی کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پی ٹی آئی جیسی پارٹی کو سیکنڈ فُٹ پر رکھ کر اپنی برتری ثابت کر دی ہے اور سچ تو یہ ہے پی پی نے تحریکِ انصاف سمیت اپوزیشن کی سب پارٹیوں کو استعمال کیا کیونکہ حکومتی ٹی او آرز سے سب سے بڑا خطرہ زرداری گروپ کو لاحق ہے۔ دیکھا جائے تو پی پی کے ہاتھوں استعمال صرف عمران خان ہی ہوئے ہیں، بقیہ اپوزیشن جماعتیں تو پہلے سے ہی زرداری کے سلیپر سیلز ہیں جنہیں وہ کسی وقت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ عمران خان اگر پی پی سے الحاق نہ کرتے تو ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوتی مگر اپنے بندے بچانے کے چکر میں انہیں ماضی کی تمام کرپٹ جماعتوں سے بغلگیر ہونا پڑا جسکا سیاسی خمیازہ انہیں مستقبل قریب میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

کپتان سے شروع میں ایک غلطی یہ ہوئی کہ وہ پرفیکٹ ٹائمنگ کا اندازہ نہ کر سکے اور نوازشریف علاج کے بہانے لندن چلے گئے، اگر وہ بروقت پریشر بڑھا لیتے تو وزیراعظم کو سنبھلنے کا موقع نہ ملتا۔ ان سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ وہ بھی وزیراعظم کے پیچھے پیچھے لندن چلے گئے اور اس سفر میں انہیں اپنے دو ایسے پارٹی رہنماؤں کا ساتھ نصیب ہوا جن کی خود کی آف شور کمپنیاں بھی بعد میں منظرعام پر آ گئیں‘ بظاہر ان کا نام پاناما لیکس کی پہلی قسط میں سامنے نہیں آیا مگر انہیں خدشہ تھا کہ اس قسط میں نہیں تو اگلی قسط میں ضرور ان کا نام آف شور اکاؤنٹس رکھنے والے پاکستانیوں میں افشاء ہو جائے گا‘ اسی خوف سے انھوں نے دانستہ طور پر یہ سچ اپنے منہ سے ہی قوم کے سامنے رکھ دیا کہ ان کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں، پہلے عبدالعلیم خان کا معاملہ سامنے آیا، پھر کچھ ہی روز بعد جہانگیر ترین بھی بے نقاب ہو گئے۔

عمران خان اس پیشرفت سے ذرا بھی نہ ہچکچائے بلکہ ان دونوں سرمایہ دار رہنماؤں کو اپنی پریس کانفرنسوں میں ہمیشہ اپنے پہلو میں موجود رکھا‘ وہ ظاہری طور پر تو نوازشریف کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے مگر درحقیقت عبدالعلیم خان اور جہانگیرترین کی وجہ سے ان کا وزیراعظم کے خلاف موقف پچاس فیصد کمزور ہو گیا اور وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر اپنے مافی الضمیر کے ہاتھوں پسپا ہوتے نظر آئے، شاید یہی وجہ تھی کہ لاہور کے جلسے میں ان کی باڈی لینگویج پہلے کی نسبت کافی حد تک غیر مطمئن دکھائی دی اور وہ چیئرنگ کراس کے جلسے کا رخ رائیونڈ کی طرف موڑنے سے دستبردار ہو گئے۔

عمران خان ایک نیک نیت اور دیانتدار آدمی ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں خلش بیٹھ گئی ہوکہ جب ان کی پارٹی ہی میں آف شور کمپنیوں والے موجود ہیں تو وہ کس منہ سے نوازشریف کے محاسبہ کی بات کریں‘ یہ بات اگر انھوں نے سوچی بھی ہو گی تو یہ ان کی ذات تک محدود ہے مگر عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی وجہ سے حکمران جماعت نے ان پر کافی جوابی نزلہ گرایا ہے اور میڈیا کے غیرجانبدار حلقے اور عوام میں سے بھی کئی لوگ اس پر ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان پیرِ نابالغ ہونے کا ثبوت دینے کے بجائے عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی اس وقت تک پارٹی رکنیت معطل کر دیتے جب تک وہ کلیئر نہ ہو جاتے، اس اقدام سے ان کا قد نہ صرف عوام کی نظر میں چھ فٹ مزید بلند ہو جاتا بلکہ وہ خوداحتسابی کی ایک مثال قائم کر کے تاریخ بھی رقم کر سکتے تھے۔

ایسا کر کے وہ بلاخوف و جھجھک نوازشریف پر دباؤ میں بھی اضافہ کر سکتے تھے اور ان کا یہ کارنامہ وزیراعظم کی اخلاقی و سیاسی موت کا سبب بھی بن سکتا تھا مگر افسوس کہ وہ ایسے کرنے سے بھی چُوک گئے۔ یہ دونوں حواری تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما بن کر عمران خان کے دائیں بائیں منڈلا رہے ہیں اور پارٹی کے کئی اہم ترین سینئر رہنماؤں کی راہوں میں کانٹے بھی بچھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار اب مزید نمایاں ہونا شروع ہوگیا ہے، کون کون کنارہ کر جائے گا اور کون کون کیا پوزیشن اختیار کریگا اس کی تصویر اب چشمِ عام سے زیادہ دیر دُور نہیں رکھی جا سکتی۔

حامد خان کے دوبارہ پارٹی میں پاؤں جمانے کا کئی لوگوں کو اچھا نہیں لگ رہا۔ چوہدری سرور کے حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ عمران خان اور ان میں آخری مکالمہ ہونے کا بھی کئی محسنوں کو بے چینی سے انتظار ہے۔ کئی اکابرین پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں چھتیس کا آنکڑا تو کافی دیر سے چلتا آ رہا تھا‘ عمران خان کے مجبور کرنے پر دونوں صاحبان نے ایک نیوز کانفرنس میں گلے شکوے دُور کیے اور آپسی اختلاف کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا مگر جہانگیرترین کی طرف سے آف شور اکاؤنٹس کا اعتراف کر لینے کے بعد شاہ محمود ان کے بارے میں زیادہ تلخ جملوں پر اتر آئے ہیں اور فیصل آباد کے جلسے کے انتظام کی بابت ان میں پھر اختلاف ہو گئے ہیں جس پر کپتان بیحد مخمصے کا شکار ہیں کہ آخر انہیں کرنا کیا چاہیے۔

جب پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آیا، پی ٹی آئی کے داخلی حالات کافی دگرگوں تھے، بجائے اس کے کہ اندرونی معاملات درست کیے جاتے اور بلا تاخیر جماعتی انتخابات کروانے پر تمام توانائیاں صرف کی جاتیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے اس سے کوتاہ نظری برتی اور جماعتی الیکشن کو پسِ پشت ڈال کر حکومت کے خلاف دھرنے کی تاریخ دیدی، اس طرح وزیراعظم کو 21 دن کا وقت مل گیا اور انھوں نے دفاعی حکمتِ عملی کا پلان تیار کر لیا۔ اب متحدہ اپوزیشن نے اس سے بھی بھونڈی روش اختیار کر کے وزیراعظم کو جلسے جلوسوں میں جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے غیر متوقع اور نرم موقف سے وزیراعظم کو سانس لینے اور مزید مضبوط ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں ذاتی ٹی او آرز بنانے کے نام پر نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کرنے کی غرض سے اکٹھی ہوئی تھیں جسکا سارا فائدہ زرداری کی ذات کو ہونے والا ہے۔ اگر زرداری حکومت کو بلیک میل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سب سے پہلے وہ ڈاکٹر عاصم کی رہائی اور سندھ میں اپنے اہم ساتھیوں کو بچانے کی ضمانت مانگیں گے۔ فی الحال تو حزبِ اختلاف کے تجویز کردہ شرائطِ کار کو حکومت نے بلاتاخیر مسترد کر دیا ہے اور وزیراعظم نے اس پر ماہرین کی رائے بھی لی اور مشاورتی اجلاس بھی کیے ہیں۔

قوی امکان ہے کہ حکومت اگر مذاکرات کی ٹیبل پر آ بھی گئی تو وہ اپنے ٹی او آرز میں سے قرضے معاف کرانے والی شِق کبھی حذف نہیں کریگی‘ اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تسلیم کر کے تو اس کے لیے بے موت مرنے کے مترادف ہو گا۔ دراصل گیند اب سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے۔ آئینی طور پر چیف جسٹس حکومتی صوابدید پر بھی ٹی او آرز میں تبدیلی نہیں کر سکتے، ایسی کسی تبدیلی کے لیے حکومت کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا۔ قیاس غالب ہے کہ چیف جسٹس حکومت کو خط لکھ کر یہ کہہ دیں کہ وہ اپوزیشن سے مذاکرات کے بعد تحقیقاتی شرائط وضع کرے اور پھر سپریم کورٹ کو خط لکھے۔

ایسی صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن خفیہ طور پر مک مکا کر سکتی ہیں جسکا سب سے بڑا فائدہ نواز شریف اور زرداری کی ذات کو ہو گا لہٰذا چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس کا بہترین حل یہ نکالیں کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل سے پہلے دو ججز پر مشتمل ایک ٹی او آر کمیٹی تشکیل دیں جو حکومت اور اپوزیشن کے مجوزہ ٹی او آرز اور پاناما لیکس کی دستاویزات کو سامنے رکھ کر ایک جزنامہ مرتب کرے جس پر وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے دستخط لینے کے بعد چیف جسٹس کو ارسال کیا جائے تا کہ مجوزہ شرائطِ کار کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔