چوروں کے ڈکیت محافظ…

شیریں حیدر  اتوار 8 مئ 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

وہ ایک بستی تھی جس میں لوگوں کے پاس کوئی وسائل تھے، ہنر تھا نہ تعلیم۔ جب آپ کے پاس وسائل، ہنراور تعلیم نہ ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کوئی نہ کوئی تو ذریعہ معاش کا ہونا چاہیے، تو اس بستی کے مرد و زن کا بھی یہی وتیرہ تھا۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی عورت پیشہ کرتی اور مرد جو کہ گھر کا کفیل ہوتا، اس کی ذمے داری تھی کہ وہ گھر کے افراد کو ذمے داریاں تفویض کرے، کوئی چور تھا تو کوئی اچکا، کوئی اٹھائی گیر اور کوئی چھوٹا موٹا جیب تراش، جنھوں نے زیادہ ترقی کر لی وہ اغواء اور گاڑیوں کی چوریوں میں ملوث ہو کر زیادہ مال بنانے لگے۔

مگر اس بستی کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ تھا قانون بنانے اور اس پر عمل کرنے والے ادارے، اپنی تمام ترین مہارت کے باوجود جب بھی کوئی پکڑ میں آ جاتا تو پھر اس کے لیے قانون کے شکنجے سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔ بسا اوقات انھیں قانون کے کارندوں کو بھی خریدنا پڑتا، بھاری جرمانے، بھتا اور جرائم کرتے ہوئے پکڑنے والوں کو بھی رشوت دینا پڑتی۔ بستی کے بڑے اکثر سر جوڑ کر بیٹھتے مگر اس مسئلے سے فرار کی کوئی راہ نہ پاتے، اپنی ’’محنت‘‘ کی کمائی کا بیشتر حصہ انھیں ’’حرام‘‘ میں جاتا ہوا برا محسوس ہوتا، جتنی بھی کوشش کرتے وہ اس سے بچ نہ پاتے تھے، چھوٹے وارداتیوں کے لیے یہ بڑے نقصانات تھے۔

کچھ عرصے سے بستی میں ایسے لوگوں کی آمد و رفت بڑھنے لگی جن پر بستی والوں کو شبہ ہوتا کہ ان کا تعلق ان کے اپنے قبیل سے ہے نہ قانون ساز اداروں سے، شکل و صورت سے بھی اندازہ نہ ہو پاتا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں، ان کے چہرے بھی اس بستی کے لوگوں سے بہتر تھے،ان کے طور طریقے بھی ۔ ایک وقت آیا کہ ان نوواردوں کا ایک وفد اس بستی کے سرکردہ لوگوں کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انھیں بھی اس بستی میں رہنے دیا جائے۔

بستی کا رقبہ بہت بڑا تھا، ان لوگوں کے آ جانے سے کوئی فرق نہ پڑتا مگر بستی والوں کے دلوں میں جاگزیں ہونے والا خوف مختلف تھا، اگر وہ قانون ساز اداروں کے لوگ تھے تو ان کی کاروائیوں کو خطرہ لا حق ہو سکتا تھا۔ انھوں نے ان سے کہا کہ وہ تب تک انھیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے جب تک کہ انھیں ان کی تفصیل کا علم نہ ہو۔ تھوڑے تذبذب کے بعد نوواردوں کے سرغنہ نے کہا کہ وہ انھیں اپنے ہی قبیلے کا سمجھیں، مگر ان کا معیار اور کاروبار اس بستی کے لوگوں سے کہیں بلند ہے، ان کا دائرۂ واردات اس ملک اور اس ملک سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔

’ اس طرح تو قانون ساز ادارے ان کو ملیامیٹ کر دیں گے، اگر وہ ان بڑے وارداتیوں کے پیچھے اس بستی میں آ گئے تو!! ‘ بستی کے سرغنہ نے دل ہی دل میں سوچا اور اپنے باقی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کہا کہ وہ انھیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس طرح ان کے اپنے مفادات کو خطرات لا حق ہوں گے۔

’’ آپ کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہو گا!!‘‘ نو واردوں کے سرغنہ نے کہا، ’’ اور آپ ہمیں اپنے پاس رکھ کر دیکھیں، آپ کو تھوڑے عرصے میں ہی اندازہ ہو جائے گا کہ اس میں آپ کا کس قدر فائدہ ہے ‘‘ بستی کے لوگ سر جوڑ کر بیٹھے، کسی کو بھی اس بات پر یقین نہ تھا کہ ان کا اس میں کوئی فائدہ ہے، سب یہی سوچتے تھے کہ جب قانون کے محافظ ان کے تعاقب میں اس بستی تک آئیں گے تو ان کے چھوٹے موٹے وارداتیے خواہ مخواہ گہیوں کے ساتھ گھن کی مانند پس جائیں گے۔ وہ اپنے موقف پر مصر رہے، نو واردوں کے سرغنہ نے انھیں کہا کہ وہ تو بہرصورت وہاں رہیں گے، اگر بستی والے ان کے ساتھ خوش دلی سے وہاں رہنا چاہتے ہیں تو ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا، اگر وہ اختلاف کریں گے تو انھیں وہاں سے نکال دیا جائے گا، جب بہر صورت انھوں نے وہاں رہنا ہی ہے تو بہتر ہے کہ اپنا فائدہ سوچ سمجھ کر سکون سے ان کے ساتھ رہیں۔

بستی والوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ رہا تھا، انھیں اپنے کام سے کام تھا، ان کے ساتھ بہتر ہوا کہ ان کی عورتوں کو بھی مزید کاروبار مل گیا اور ان چھوٹے چھوٹے اناڑی چوروں اور اٹھائی گیروں کو استاد بھی مل گئے۔ کافی وقت گزر گیا تو بستی والوں کو احساس ہوا کہ اب ان کی بستی کی طرف قانون ساز اداروں میں سے کوئی بھی نہیں آتا تھا۔ انھوں نے اس بستی میں ترقی کے کافی منصوبے شروع کر دیے تھے، ( یہ اور بات ہے کہ ان منصوبوں کا تعلق بھی ان کے اپنے مال کی کھپت سے تھا) ، ان کا طرز زندگی بہتر کر دیا تھا کیونکہ اب وہ جرائم زیادہ مہارت کے ساتھ کرتے تھے۔ ان میں سے ہی کئی لوگوں نے اس بستی کے لوگوں کے ساتھ رشتہ داریاں بھی قائم کر لی تھیں، اب وہ آپس میں قرابت دار بھی تھے، بستی کے لوگوں کا ایک گروہ نو واردوں کے پاس گیا، جو کہ اب نو وارد بھی نہ رہے تھے،

’’ دماغ میں سوال اٹھ رہا تھا جناب، سوچا کہ آپ سے ہی اس کا جواب مل سکتا ہے؟ ‘‘ بستی کے سرغنہ نے بڑے مجرموں کے سرغنہ سے سوال کیا۔

’’ پوچھیں ، کیا سوال اٹھتا ہے آپ کے دماغ میں؟ ‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔

’’ جب سے جناب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بستی میں قیام کرنا شروع کیا ہے، اس طرف نہ پولیس رخ کرتی ہے نہ کوئی اور قانون ساز ادارہ، ہماری بستی کے لوگ اب کھل کر جرائم کرتے اور لوٹ کر شام کو اس بستی میں آتے ہیں، اب کوئی ان کا تعاقب نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ہم سے لوٹ کے مال میں سے حصہ لینے کے لیے آتا ہے، آخر اس میں کیا راز ہے؟‘‘

’’ اچھا سوال ہے اور تم نے بہت دیر میں پوچھا ہے ‘‘ اس نے ہنس کر کہا، ’’ ہم تو جب اس طرف آئے تھے تو اسی وقت تم سے کہا تھا کہ ہم تمہارے مفادات کا تحفظ کریں گے، بتاؤ ہم نے غلط کہا تھا کچھ؟ ‘‘

’’ سولہ آنے سچ تھا جناب ، مگر راز جاننا چاہتے ہیں؟ ‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔…’’ کسی بستی میں، کسی شہر میں، کسی ملک میں… جرائم کا سد باب صرف اسی وقت تک ہو سکتا ہے جب تک قانون ساز ادارے مضبوط ہوں، ان کے ضمیر کی کوئی قیمت نہ ہو، ان کے اختیارات بستی کے اندر بسنے والوں سے کہیں زیادہ ہوں، چاہے انھیں حکمرانوں پر ہاتھ ڈالنا پڑے۔ مگر جہاں ہم جیسے لوگ، چھوٹے چھوٹے وارداتیوں کو تحفظ دینے کے لیے موجود ہوں یعنی چوروں کے محافظ ڈکیت ہوں ، وہاں قانون ساز ادارے پر بھی نہیں مارتے، کیونکہ ہم قانون ساز اداروں کو اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں!! ہماری اخلاقیات، ہماری ضرورت اور ہماری چاہت صرف دولت ہے، ہم تھوڑی دولت دوسروں میںتقسیم کر کے اپنی دولت کو ضربیں دیتے ہیں، بظاہر اس ملک پر حکومت کرنے والے اصل میں ہمارے ہی کارندے ہیں، ہم ان کے کارندے، ہم سب مل کر دولت کو لوٹتے اور اس ملک کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ پولیس ہمیشہ چھوٹے مجرموں پر ہاتھ ڈالتی ہے جیسے کہ پہلے تم لوگ تھے، اب وہ یہاں اس لیے نہیں آتی کہ اب یہاں ہم رہتے ہیں جن کی جیبوں میں پولیس ہے!!‘‘ بستی کا سرغنہ متاثر اور مطمئن ہو کر چلا گیا اور اس بستی کے سارے لوگ کھل کر اور بے فکری سے جرائم کرکے ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔

ارے نہیں بھئی، آپ غلط سمجھے، میں قطعی اس ملک کی کہانی نہیں سنا رہی!!! ہمارے ہاں کون سے بااختیار قانون ساز ادارے ہیں جو چھوٹے مجرموں کو بھی پکڑتے ہوں، نہ ہی کوئی مجرموں کا تعاقب کر کے ان کے ٹھکانوں تک پہنچتا ہے ، ہاں ایک بات ضرور اس کہانی جیسی ہے کہ ہمارے ہاں بھی بھتہ اور رشوت لے کر مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارا ملک اس بستی جیسا ہے جہاں جرم کرنے والے آسانی سے فرار ہو سکیں، ہاں اتنی مشابہت اس کہانی سے ضرور ہے کہ ہمارے ہاں بھی قانون ساز ادارے بڑے مجرموں کی جیبوں میں ہیں، ہاں چھوٹے مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں مگر کسی کو سزا پاتے ہم نے بھی آج تک نہیں دیکھا۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر موجود نام بھی دودھ سے مکھی کی طرح نکل کر، اس ملک سے باہر، اس ملک کے لوٹے ہوئے مال سے عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہزاروں میل کے فاصلے سے اس ملک میں کرسیء اقتدار پر براجمان لوگوں کی ڈوریاں ہلاتے ہیں۔ جب ہمارے حکمران کسی ’’ لیک ‘‘ کی زد میں آتے ہیں تو علاج کے بہانے بیرون ملک جا کر ان ہی سے راہنمائی حاصل کر کے لوٹتے ہیں جنھیں کبھی وہ برا بھلا کہا کرتے تھے۔ آخر بڑے مجرم چھوٹے مجرموں کے استاد بھی تو ہوتے ہیں اور الزامات کی سیاست تو ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے ہے، اندر خانے تو سارے ایک ہی قبیل سے ہیں۔

اور ہمارے ہاں کون سا ہر کوئی مجرم ہے۔ ہاں مگر اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہم سب کسی نہ کسی طرح غلط کام ضرور کر رہے ہوتے ہیں، خواہ وہ غلط کام اتنا سا ہی ہو کہ ہم کسی مجرم کو جانتے ہوں اور اسے نظر انداز کر کے اسے اور اس کے جرم کو تحفظ دے رہے ہیں۔

ہاں ایک اور بات بھی اس کہانی سے مماثلت رکھتی ہے، اس ملک میں کرپشن اور بد دیانتی کے ہر سائز کے مجرم اسی لیے پنپ رہے ہیں کہ یہاں چوروں کے محافظ ڈکیت ہیں!

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔