چیف جسٹس کی چشم کشا باتیں

ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم منفی سوچ کی وجہ سے بنیادی اور اہم معاملات پر آج تک کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرسکے


Editorial May 09, 2016
ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ہفتے کو کراچی میں جوڈیشل ایجوکیشن کے موضوع پر سیمینارسے خطاب کے دوران ملکی مسائل کے حوالے سے بڑے تلخ لیکن چشم کشا حقائق بیان کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی اور اہم معاملات پر متفقہ لائحہ عمل تیار نہ کرنا ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے، آج ملک میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کلچر پنپ رہا ہے، ہر شخص حقوق کی بات کرتا ہے کوئی بھی اپنی ذمے داریاں اور فرائض نبھانے کو تیار نہیں، ملک میں کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

مثبت ذہن اورسوچ پربحث سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں لیکن ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم منفی سوچ کی وجہ سے بنیادی اور اہم معاملات پر آج تک کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرسکے، مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، عدالتیں اپنا کردار ادا کریں تو معاشرہ سدھر سکتا ہے لیکن قانون پرعملدرآمدکی ذمے داری صرف عدلیہ کی نہیں پورے معاشرے کی ہے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمے داری نبھاناہوگی، انسانی بنیادی حقوق کی واضح تفصیل آئین پاکستان میں موجود ہے اس لیے ملک میں انسانی حقوق کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے یوں تو وہ قیام پاکستان ہی سے چلے آ رہے ہیں لیکن اب ان میں شدت پیدا ہو گئی ہے تاہم ان کے حل کے لیے کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی۔ یقیناً اسے ملک کا سب سے بڑا المیہ قرار دیا جائے گا کہ تمام تر ادارے اور وسائل ہونے کے باوجود آج تک بنیادی اور اہم معاملات پر متفقہ لائحہ عمل ہی تیار نہیں کیا جا سکا۔

اب تمام ترقی یافتہ ممالک میں انتخابات کے لیے بائیو میٹرک سسٹم استعمال کیا جاتا ہے جس کے باعث وہاں دھاندلی کا خدشہ نہیں رہتا' ہارنے والا امیدوار اپنی شکست کو بخوشی تسلیم کر لیتا اور حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہی وجود میں نہیں آ سکا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔ انتخابات کے بعد برسراقتدار نہ آسکنے والی سیاسی جماعت انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا کر پورے سسٹم کو ڈی ریل کرنے پر تل جاتی ہے خواہ اس میں ملک کا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہو جائے۔

ہر سیاسی پارٹی جمہوریت کا نعرہ تو لگاتی ہے لیکن حقیقت میں اس کی نگاہ میں جمہوریت وہی ہوتی ہے جس میں اقتدار اس کے ہاتھ آ جائے ورنہ اسے وہ جمہوریت آمریت سے زیادہ بدتر لگتی ہے۔ انتخابات انتہائی اہم اور بنیادی معاملہ ہے جس پر پورے ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے' وقت آ گیا ہے کہ ہم اس اہم مسئلے کو جلد از جلد حل کریں۔

آئین یقیناً بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ تو کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کو بنیادی حقوق حاصل ہی نہیں' غربت اور جہالت کے باعث وہ اپنے بنیادی حقوق کا شعور بھی نہیں رکھتا۔ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے۔ تعلیمی نظام کا یہ عالم ہے کہ یہاں پر دہرا تہرا نظام چل رہا ہے اور ابھی تک یہ طے ہی نہیں کیا جا سکا کہ ملک میں کس قسم کا نظام تعلیم رائج کرنا ہے۔ صحت کی سہولتیں بھی ناکافی ہیں' چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بالکل درست نشاندہی کی کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ اور سیاستدان اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لیے بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں جان بچانے والی ادویات تک بھی میسر نہیں اور جو مہیا ہیں ان کا معیار بھی مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے بارے میں بھی عوام کو بہت سی شکایات ہیں' یہ بات کئی بار منظر عام پر آ چکی ہے کہ قانونی پیچیدگیوں اور اسقام کے باعث معمولی نوعیت کے مقدمات کے فیصلے ہونے میں بھی کئی کئی برس بیت جاتے ہیں اور انصاف کے حصول کے لیے عوام کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آخر یہ مسائل کن لوگوں نے پیدا کیے اور ان کا ذمے دار کون ہے اور کون اسے حل کرے گا، یقیناً ان مسائل کا ذمے دار برسراقتدار طبقہ، انتظامیہ اور بااختیار ادارے ہیں اور انھیں حل کرنے کی ذمے داری بھی انھی پر عائد ہوتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی یہ بات بالکل صائب ہے کہ یہاں ہر کوئی حقوق مانگ رہا ہے اور اپنی ذمے داریاں اور فرائض ادا کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ جب تک اس منفی سوچ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک ملکی نظام میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ مسائل کی نشاندہی تو ہر کوئی کر رہا ہے مگر انھیں حل کرنے کے لیے کوئی بھی اپنا قدم آگے نہیں بڑھا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ' انتظامیہ اور عدلیہ ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

مقبول خبریں