آئین اور ڈاجم کاروں کا ’’کھیل‘‘

طاہر سرور میر  ہفتہ 17 نومبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا نام ایک لحاظ سے ’گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈز‘ میں درج کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی وزیر ہی ایسا ہو گا جس کے خلاف اتنی کثرت اور باقاعدگی سے لکھا گیا ہو؟ موصوف بیک وقت اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زد میں رہتے ہیں۔

میڈیا پر ان کا تازہ ترین ’’کورٹ مارشل‘‘ یکم محرم کی شام سے شروع ہونے والے نیوز بلیٹن میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ رات بھر چلتا رہا۔ ’’مقدمہ‘‘ یہ بنایا گیا کہ وزیر داخلہ نے یکم محرم کو کسی ممکنہ دہشت گردی کا جواز بنا کر کراچی اور کوئٹہ میں موٹر سائیکل کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگانے کے علاوہ موبائل فون بند کرنے کا حکم جاری کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ڈبل سواری پر پابندی کے حکم کو شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دے ختم کر دیا۔ یکم محرم کو کراچی اور کوئٹہ میں جزوی طور پر چند گھنٹوں کے لیے موبائل فون پر پابندی کے قدم کو جس طرح میڈیا میں ’’امن کی راہ میں ظلم کا پتھر‘‘ بنا کر پیش کیا گیا، بندہ صحافی کو ظلم کے خلاف حبیب جالبؔ کا لکھا اور مہدی حسن کا گایا یہ گیت یاد آ گیا… ظلم رہے اور امن بھی ہو… کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟

اس پابندی کے نقشے یوں کھینچے گئے جیسے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کو غیر اسلامی فعل قرار دیا گیا تھا۔ ذاتی طور پر میں آمریت کے اتنا ہی خلاف ہوں جیسے نائن الیون کے بعد طالبان اور امریکیوں کی دشمنی معروف ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس قدم کو سراہتا ہوں کہ انھوں نے لگ بھگ نصف صدی پہلے وطن عزیز کے سب سے بڑے مسئلے یعنی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے عملی اقدمات کیے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں پہلی بار خاندانی منصوبہ بندی کے کانسپٹ کی تشہیر کی گئی تو مذہبی حلقوں نے اس کی زبردست مخالفت کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ انھی دنوں ایوب خان کی عزیزہ کے ہاں جڑواں بچوں کی ولادت ہو گئی تو یہ نعرہ منظر عام پر آیا کہ… ساہنوں آکھن نو، نو… آپنے جمن دو، دو… جہالت کے اس نعرہ کا ترجمہ یہ تھا کہ حکمران ہمیں بچوں کی پیدائش سے روکتے ہیںجب کہ خود جڑواں بچوں کو پیدا کر رہے ہیں۔

ہم ایک عرصے سے غیر معمولی حالات سے دو چار ہیں۔ یہ حالات کس طرح پیدا ہوئے یا پیدا کیے گئے اس کا سیاپا کیے بغیر 37 ہزار پاکستانی دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ جس میں سویلین اور فوجی دونوں شامل ہیں۔ ملک میں بھانت، بھانت کے دہشت گردوں کی ’’متنجن دیگ‘‘ چڑھائی گئی ہے۔ کراچی کو بیروت کس نے بنا دیا، کوئی بتا نہیں رہا، ایسے میں اگر کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے چند گھنٹو ں کے لیے موبائل فون پر پابندی عائد کر دی گئی تو کیا یہ ایسا واقعہ ہے جسے سانحہ عظیم سمجھا جائے؟ ذاتی طور پر مجھے رحمٰن ملک کی شخصیت اور امور وزارت سے کوئی دلچسپی نہیں مگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرح وزیر داخلہ کا نام ’’ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز‘‘ میں اندراج کرانے کا کوئی ٹارگٹ بھی میرے ذمے نہیں ہے۔

یہاں لاہور میں بعد از نماز ِعشاء سجائے گئے موم بتیوں والے ایک عشائیہ میں میری ملاقات ایک نامور سیاسی شخصیت سے ہوئی۔ موصوف کی پارٹی سول اور ملٹری سیٹ اپ پاور گیم کی مستقل اسٹیک ہولڈر ہوتی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ کراچی اور بلوچستان کے حالات آیندہ دنوں میں الیکشن کرائے جانے کی نوید دیتے دکھائی نہیں دے رہے۔ میں نے سوال کیا کہ کراچی اور کوئٹہ کے یہ حالات آج نہیں ہوئے۔ پے در پے فوجی ’’انقلابات‘‘ اور کمزور جمہوری عوامل کے باعث ہمیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا اتنا کچھ جھیلنے کے بعد ضرورت اس امر کی نہیں کہ اقتدار ان سیاسی قوتوں کو سونپا جائے جو عوام کے حقیقی نمایندے ہوں اور وہ آئین پر عمل پیرا ہو کر معاشی اور سیاسی نظام کی رفو گری کریں؟ میرے اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس نفی میں ہی تھا۔

مجھے یوں محسوس ہوا جیسے موصوف اور ان کی پارٹی نئے انتخابات کے حق میں نہیں اور ان کی دلچسپی مبینہ ’’نیک پروین‘‘ نگران حکومت کی طرف زیادہ ہے، مجھے حیرانی ہوئی کہ آنے والے انتخابات میں قومی اسمبلی میں ان کی جماعت ’’سلور جوبلی‘‘ بنانے کی عددی قوت رکھتی ہے، پھر وہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟ میں نے آخری سوال کیا کہ میاں نواز شریف تو حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فی الفور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے تا کہ ہم کسی ’’ غیر آئینی سانحہ‘‘ سے محفوظ ہو سکیں؟ اس کے جواب میں بھائی صاحب نے یہ کہا کہ میاں نواز شریف اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف خود کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں امن و امان کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکیں۔ میاں برادران جب پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے اہل نہیں تو وہ کس منہ سے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں؟

ہمارا المیہ ہے کہ ریاست کے اہم ستونوں میں ’’طاقت کا سرچشمہ‘‘ قرار پانے کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے اپنے، اپنے مقام پر اہم اور معتبر ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں ان میں برتری اور کمتری کے موضوعات کے حوالے سے ٹاک شوز کا ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘‘ چھڑ چکا ہے۔ وہی معاشرہ اور قوم مہذب کہلانے کی اہل ہوتی ہے جو جمہوری طور طریقوں سے اپنے نمایندے منتخب کرتی ہے اور پھر ادارے ان کے بنائے ہوئے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں بھی ملتے جلتے کرداروں کے مالک ہیں مگر بعض کا اصرار ہے کہ فرشتے ان کی پاک دامنی اور طہارت کی قسم اٹھا سکتے ہیں۔ شکیب جلالی کا یہ شعر ہمارے نظام کی ہو بہو ڈروانی شکل ہے

ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا

بدقسمتی سے ہم دہشت گردی کے تو مستقل ’’کلائنٹ‘‘ ہیں، اس پر ہم اتحاد و یگانگت کے ساتھ کسی محفوظ سنگ میل کی جانب بڑھنے کے بجائے بچوں کی فیورٹDODGEM CARS (ٹکریں مارنے والی آٹو موبائیل کاریں) کی طرح آپس میں ٹکرو ٹکری ہو رہے ہیں۔ اس قسم کے ’’نابالغ یوتھ فیسٹیولز‘‘ سے بچا کچھا نظام ریزہ ریزہ ہونے کے سوا عافیت نہ پا سکے گا۔ پاکستان کے قیام کے صرف 24 سال بعد ہم آدھے پاکستان کو کھو چکے تھے۔ وہ سانحہ عظیم ہمیں یہ سبق دیتا تھا کہ آیندہ کوئی غیر منتخب نجات دھندہ قوم پر مسلط ہو کر ہمیں اس مقام تک نہ لے آئے جہاں علیحدگی کے سوا کوئی دوسرا آپشن کارگر ثابت نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ بنگلہ دیش کے قیام کا ذمے دار ایک شفاف صاف انتخابات کو قرار دے دیا گیا اور پھر اس کے بعد قومی سلامتی کے منصوبوں سے ’’آئی جے آئیاں‘‘ برآمد کی جانے لگیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاور گیم اور سیاسی سرکٹ کے 90 فیصد اسٹارز اور میگا اسٹارز اسی پروڈکشن ہاوس کے متعارف کرائے ہوئے ہیں جنہیں اب صرف اپنا ’’آئینی کردار‘‘ ادا کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ماضی میں زیادتی کسی کی طرف سے بھی کی جاتی رہی ہو بہرحال اب قوم ایک ایسے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’خبر دار! آگے خطر ناک موڑ ہے‘‘ وقت اور تار یخ اپنے ہر قسم کے ہیروز کو یہ موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ دکھیاری قوم کو عذابوں سے نجات دلانے میں صرف اپنا آئینی کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔