طاغوت سے انکار

اوریا مقبول جان  پير 9 مئ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

پانامہ لیک کے موضوع پر ہنگامہ خیز ٹاک شوز میں سے ایک شو کے دوران بحث اس طرف چل نکلی کہ معاشرے کو ٹھیک کیسے کیا جائے، جس پر ایک معروف کالم نگار اور جدیدیت کے پیکر میں ڈھلے مذہبی اسکالر نے نکتہ آفرینی کی کہ معاشرے کو تو آہستہ آہستہ اور بتدریج ٹھیک کیا جاتا ہے، یہ آج تک کبھی اوپر سے قانون نافذ کرنے سے ٹھیک ہوا؟ جس پر میں نے کہا کہ مجھے دنیا کے کسی ایک معاشرے کی مثال دے دیں جو صرف نیچے سے بدلا ہو اور اس پر قانون کی قوت نافذہ موجودہ نہ ہو۔ موصوف نے فوراً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاشرے کی بات کی۔ میں جواب دے رہا تھا کہ وقت ختم ہو گیا اور میزبان نے اجازت مانگ لی۔ یہ نکتہ ایسا تھا اور اس کی وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ یہی نکتہ دین کی اصل اور بنیاد ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ سب تحریر کرنا پڑ رہا ہے۔ میری میزبان سے درخواست ہے کہ اس موضوع پر تشنگی کو ختم کرنے کے لیے ایک سیر حاصل پروگرام کرے کہ یہی کنفیوژن ہے جو پاکستانی معاشرے کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہا اور پورا معاشرہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ آہستہ آہستہ تربیت ہو گی، لوگوں کے ذہن بدلیں گے، ان کے کردار اچھے ہوں گے تو پھر سب لوگ بددیانتی، چوری، ڈاکے، قتل و غارت چھوڑ دیں گے۔ جب تک یہ سب کچھ نہیں ہوتا یہاں نہ کوئی قانون نافذ العمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کو اوپر سے سختی کر کے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو مذہب کی وہ تعبیر ہے جو انگریز نے اپنے کاسہ لیس اور غلام صفت علماء کو سکھائی اور وہ اسے تسلیم کر کے خاموشی سے دعوت و تبلیغ سے معاشرتی اصلاح کی طرف لگ گئے۔ انھوں نے عبادات کو اصل دین سمجھا اور ان پر ہر وہ حکمران مسلط رہا جو اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان تھا۔ انگریز کے عطا کردہ اس افیون زدہ تصور کے بارے میں اقبال نے کہا تھا؎

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

’’ان عظیم‘‘ تجزیہ نگاروں، علمی نابغوں اور سیاسی پنڈتوں کی ایک نسل نے کبھی بنام سیاست اور کبھی بنام مذہب ہمارے معاشروں کو جس طرح طاغوت کی غلامی کا سبق دیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ نظام سے لڑنے کی قوت و حوصلہ اور انقلاب جیسے لفظ ہماری لغت سے خارج ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ صرف مذہب کی غلط تشریح سے قوم کو افیون پلا کر نہیں سلاتے بلکہ سیاست و جمہوریت کی بھی ان کی اپنی ہی تشریح ہے۔ ایک لفظ بہت بولا جاتا ہے ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ اور پھر اس کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو کہا جاتا ہے۔

حکمران اربوں ڈالر لوٹ کر جائیں، وہ قاتلوں، چوروں، اسمگلروں، منشیات فروشوں اور غنڈوں کی سرپرستی کریں اور کرتے چلے جائیں، تھانے، کورٹ کچہری میں عام آدمی انصاف کو ترس جائے، خودکشی اور بچے نیلام کرنے کی نوبت آ جائے۔ نہ پانی میسر آئے اور نہ بجلی، صحت ملے اور نہ تعلیم، لیکن اس سب کے باوجود جمہوریت کا تسلسل قائم رہنا چاہیے۔

عوام کو بھنگ پی کر سوتے رہنا چاہیے کیونکہ عوام اٹھیں گے تو کوئی طالع آزما آ جائے گا۔ اس لیے عوام کو پہلے خود کو ٹھیک کرنا چاہیے عوام ٹھیک ہوں تو معاشرہ ٹھیک ہو گا اور معاشرہ ٹھیک ہو گا تو حکمران اچھے آئیں گے۔ اس لیے چوروں، بددیانتوں، قاتلوں اور غنڈوں کو کچھ مت کہو ورنہ سسٹم لپیٹ دیا جائے گا۔ جمہوریت کا تسلسل ختم ہوجائے گا اور ملک تاریکی میں ڈوب جائے گا۔

لوگوں کو طویل انتظار کی سولی پر چڑھانے والے دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ اپنے لیے قانون کا سخت نفاذ چاہتے ہیں۔ ایسا نفاذ جو ان کی خواہشات کو پورا کر سکے۔ مثلاً اگر موصوف کالم نگار کے گھر ڈاکو آ جائیں اور مال لوٹ کر لے جائیں تو کیا وہ اس دن کا انتظار کریں گے جب معاشرہ ٹھیک ہو جائے اور لوگ چوری چھوڑ دیں۔ ان کا کوئی عزیز قتل ہو جائے، کہیں کوئی آبروریزی ہو جائے تو وہ یہ منطق دیں گے کہ معاشرہ تو آسانی سے آہستہ آہستہ اور بتدریج بہتر ہوتا ہے۔ یہاں کوئی اوپر سے قانون نافذ کرکے تو لوگوں کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مسئلے میں وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے بلکہ اس پولیس کے آئی جی تک کی جان عذاب میں کر دیں گے جو ان کے مجرموں پر ہاتھ نہ ڈال رہا ہو۔

اگر ان کا بس چلے تو وہ آرمی چیف سے بھی اپنے مجرم کو تلاش کروانے کے لیے اثر و نفوذ استعمال کرنے کو کہیں گے۔ اس وقت انھیں اپنی ہی دی ہوئی منطقیں یاد نہیں آئیں گی۔ بلکہ اگر ان کا چور، قاتل یا مجرم عدالت سے عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو جائے تو یہ قطعاً یہ نہیں کہیں گے کہ نظام تو آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا ہے بلکہ وہ نظام کو برا بھلا کہیں گے اور اس کے فوری ٹھیک ہونے کا مطالبہ کریں گے۔

لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ان خیالات کے سانچے میں اسلام کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت جو طاغوت اور باطل کے مقابل پہلے دن سے کھڑی تھی، ان کو بھی اپنی اس منافقانہ سوچ کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جمہوری نظام کے تسلسل اور مغربی استعمار کے عشاق شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایسی جمہوری حکمرانی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکے کے تمام سرداروں نے دینے کی خود پیشکش کی تھی جب ان کے چچا ابوطالب کے سامنے انھوں نے کہا تھا کہ ہم آپ کو متفقہ سردار منتخب کرنے کو تیار ہیں تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

کیا پرویز مشرف جیسے سیکولر، آصف زرداری اور نواز شریف جیسے مغرب زدہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹنا اور جمہوریت کے تسلسل کے نام پر قوم کو دھوکا دینا اور چہرے پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجانا منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ آپ نے اپنے صحابہ پر مکے والوں کا بدترین تشدد اور ظلم برداشت کیا لیکن طاغوت سے صلح نہیں کی۔ تقریباً ایک سو لوگوں کو لے کر وہاں سے ہجرت کی، جیسے ہی مدینہ کی بستی مُیسّر آتی وہاں اللہ کا قانون نافذ کر دیا۔ ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کی۔ کیا کوئی آج کے دور میں سوچ سکتا ہے کہ صرف تین سو تیرہ اصحاب جن کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، آٹھ تلواریں تھیں، باقی سب لاٹھیوں اور درخت کی ٹہنیوں سے مسلح تھے ایک ہزار کے لشکر سے جا ٹکرائیں گے جن میں ہر کوئی گھوڑے یا اونٹ پر سوار اور ہر کسی کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔

میرے موصوف کالم نگار اس دور میں ہوتے تو جیسے آج امریکا سے لڑنے کو بے وقوفی قرار دیتے ہیں ویسے ہی نعوذ باللہ بدر کی روانگی کے موقع پر ان کے منہ سے پتہ نہیں کیا کچھ نکلتا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے خلیفہ بنتے ہی جب جزیرہ نما عرب میں جب لوگ دین اسلام سے منکر ہونے لگے، ارتداد کا فتنہ ایسا پھیلا کہ پورے عرب میں صرف تین مساجد، مکہ، مسجد نبوی اور بحرین میں علایں الحزرمی کی مسجد میں نماز باجماعت رہ گئی تو کیا جانشین رسول نے ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی، کیا موصوف کالم نگار رسول اللہ کی سنت کو حضرت ابو بکرؐ سے زیادہ سمجھتے ہیں، ان سے زیادہ فہم و فراست رکھتے ہیں۔ دین قوت نافذہ مانگتا ہے۔ طاغوت کا انکار اور باطل کے سامنے کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔

دین کے ہاں ایک چھوٹی سی جماعت بھی دین کا نفاذ کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ برائی کو نافذ کرنے والے بھی بہت تھوڑے سے ہوتے ہیں۔ چند گنتی کے بددیانت، چور، غنڈے بدمعاش، یہ جب قوموں پر مسلط ہوتے ہیں اور قوم خاموش رہتی ہے تو اس پر عذاب اترتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود میں اللہ نے ان کی گنتی کر کے بتا دیا۔ فرمایا ’’اور اس شہر میں صرف نو لوگ ایسے تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے۔ (النمل48) جب قوم نے ان نو لوگوں کے اقتدار کو مان لیا اور ان کی غلامی کو قبول کر لیا تو ان پر عذاب نازل ہو گیا اور آج بھی مدائن صالح عبرت کا مقام ہے۔ پاکستان میں بھی ’’نو‘‘ یعنی مٹھی بھر لوگ دھاندلی کے الیکشن، غنڈوں، چوروں، بدمعاشوں، اسمگلروں اور منشیات فروشوں کی اعانت اور سرمائے سے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔

لوٹ مار کے لیے ایک مستقل نظام وضع کرتے ہیں۔ سیاست، بیورو کریسی، عدلیہ، فوج سب میں اپنے جیسے لوگوں کا جتھہ بنا کر ان کا تحفظ کرتے ہیں اور لوگوں کو درس دیتے ہیں کہ تم بدلو، تم ٹھیک ہو جاؤ گے تو سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے دست مبارک میں تلوار ہاتھ میں پکڑ کر 28 دفعہ صرف 8 سال کے قلیل عرصے میں جنگوں کے لیے نہ نکلتے۔ وہ رسول جس کے وصال کے وقت گھر میں چراغ میں ڈالنے کے لیے تیل موجود نہ تھا۔ لیکن انھوں نے ترکے میں آٹھ تلواریں چھوڑیں، اس کے دین کو اس طرح پیش کیا جائے۔ اللہ کے دوست اور اللہ کے دشمن ایک گھر میں رہیں، ایک میز پر بیٹھ کر ناشتہ کریں، ایک مفاد میں اکٹھا ہوں، یہ سب شہدائے بدر، احد ، خندق اور خیبر جیسے معرکوں کی توہین ہے۔ اپنی جنگ اور اپنے خیالات کو جمہوریت، نواز شریف اور فضل الرحمن تک رکھو۔ رسول اکرم اور ان کے ساتھیوں کی سیرت تم لوگوں کے بنائے ہوئے سانچوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔