دوڑ آگے کی طرف، کر کچھ احساس تُو

پاکیزہ منیر  پير 9 مئ 2016

حضرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو آپ کی تنخواہ کا سوال آیا۔ آپ نے فرمایا ’مدینہ میں ایک مزدور کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ہے، اتنی ہی میرے لیے مقررکرو۔‘ ایک صحابی بولے کہ ’اس میں آپ کا گزارہ کیسے ہوگا؟‘ آپ نے فرمایا ’میرا گزارا اس طرح ہوگا جس طرح ایک مزدورکا ہوتا ہے۔‘

کاش کہ ہمارے ملک کے بھی حکمران ایسے ہوتے تو آج بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ملک دنیا کے نقشے پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ آج کے ہمارے حکمرانوں کو بس اپنے مسائل کو حل کرنے کی پڑی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے وزیراعظم نے اپنے انفرادی مسئلے پر جس میں ان کے اہل خانہ کے نام بھی شامل تھے، قوم سے خطاب کیا، پھر وزیراعظم کو علاج کے لیے لندن بھی جانا پڑگیا۔ اس ملک کی اور ہماری بدنصیبی تو دیکھیے کہ اس ملک میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جو ہمارے حکمرانوں کا علاج کرسکے جن حکمرانوں کی طبیعت خراب ہوتی ہے سب کے سب باہر نکل جاتے ہیں۔ رہ گئے ہم عوام تو جب ہماری یا ہماری اولاد کی طبیعت خراب ہو تو ہم لوگ کون سے اسپتال جاکر اپنا علاج کروائیں؟

میں نے آج تک بیرون ملک سے کسی کو پاکستان آتے اور علاج یا اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی کو آتے پاکستان نہیں دیکھا، کیوں؟ کیونکہ وہاں کے حکمرانوں نے اپنے ملک کو اس قابل بنادیا ہے جہاں وہ خود علاج کرواتے ہیں، وہاں ہی تمام شہری بھی اپنا علاج کرواتے ہیں۔آج پاکستانی عوام بے شمار مسائل سے مقابلہ کر رہے ہیں اور میں سمجھتی ہوں ،ان سب مسائل کے ذمے دارہمارے حکمران ہیں۔

اس وقت ملک میں شدیدگرمی پڑ رہی ہے مگرکسی کو ہوش نہیں۔ 12-12 گھنٹے بجلی علاقوں سے غائب ہے۔ عابد شیر علی کہتے ہیں کہ گرمی کی وجہ سے لوگوں کی اموات کی ذمے دار حکومت نہیں ہے، پچھلے سال گرمی میں کئی پاکستانی شہری اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے مگر حکومت کی بے حسی اس سال بھی شہریوں کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ بجلی شدید گرمی میں غائب پانی گھروں سے غائب۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی ضرورت فراہم کرے، بجلی، پانی، روزگار یہ سب چیزیں پاکستان کی سرزمین سے غائب ہوتی جارہی ہیں۔ ہمارے حکمران سہولتوں سے بھری زندگی بسر کر رہے ہیں تو وہ کیسے عام شہریوں کا درد محسوس کرسکتے ہیں۔

اگر برطانوی کراؤن پرنس شہزادہ چارلس کا چالان ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم ٹونی بلیئرکی بیوی زیر زمین ریلوے میں سفرکرتی ہوئی غلطی سے اگلے اسٹاپ پر اترجاتی ہے تو اسے جرمانہ ہوجاتا ہے۔ سوئیڈن کا وزیراعظم بھٹو کی دعوت میں شامل ہونے کے لیے پیدل چلا آتا ہے، ڈنمارک یا ہالینڈ کی ملکائیں سائیکلوں پرگھومتی نظر آتی ہیں، جرمن پارلیمنٹ کی ممبر دوبارہ منتخب نہیں ہوسکتی تو اپنا گزر اوقات ایک اسٹور میں صفائی کرنے والی نوکری سے کرتی ہے۔

جب ہمارے حکمران بیرون ملک سے اتنے متاثر ہیں تو بیرون ملک والوں سے کچھ سیکھیں بھی، وہاں کے حکمرانوں کے لیے بھی وہی سہولتیں ہیں جو ان کے شہریوں کے لیے ہیں۔ میں لندن میں 8 سال رہی، میں نے تمام جگہوں پر ان کا وہ نظام پایا جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے، وہاں امیرکا بچہ بھی اسی اسکول میں پڑھ رہا ہوتا ہے جہاں غریب کا بچہ بھی تعلیم حاصل کررہا ہوتا ہے۔

ہماری ناکامی کا سبب یہ ہمارے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھنے والے لوگ ہیں، جنھوں نے ہمیشہ اپنا سوچا شہریوں کا کبھی نہیں سوچا۔ برابری کا فرق ہم کو اسلام نے سکھایا تھا، تو ہم کیوں بھول گئے ہیں اور انھوں نے کیوں اپنایا ہوا ہے، کیوں کہ وہ لوگ اس فارمولے کو بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ کامیابی کا اصل راز ہی اسی میں ہے اور وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی نہیں غیر مسلم کے لیے بھی بہت اچھے ہیں، تبھی آج ہزاروں پاکستانی نوجوان روزگار نہ ہونے کے سبب بیرون ملک ملازمت کر رہے ہیں، جو ہماری حکومت کا بنیادی فرض ہے، روزگار وہ بیرون ملک والے دے رہے ہیں، جو چیز اسلام نے ہمیں سکھائی اخلاق وہ بھی بیرون ملک اب منتقل ہوگیا ہے، اخلاق، انسانی ہمدردی، سب غائب ہوتی جارہی ہیں۔

پاکستان کی ترقی کا فارمولا مجھے تو بس اب یہی نظر آتا ہے کہ حکمران ہوں یا شہری سب کو یکساں سہولتیں فراہم کی جائیں اگر شہریوں کے پاس بجلی نہیں تو ان حکمرانوں کے گھروں میں بھی بجلی نہیں ہونی چاہیے تاکہ ان کو احساس ہو عام شہریوں کا جو روزانہ ان مسائل سے گزرتے ہیں، ہمارے ملک کے ذمے داران کو بھی ایسے مسائل سے گزرنا چاہیے تاکہ ان کو عوام کی مشکلات کا احساس ہو اور احساس جب تک نہیں ہوگا، ملک مسائل سے دوچار ہی رہے گا۔ ہمارے ملک میں بے انتہا قدرتی ذخائر ہیں جو دوسرے ملکوں میں نہیں، ہم ان کو صحیح طریقے سے استعمال میں لاکر بہت سارے مسائل کو ختم کرسکتے ہیں، اگر کرنا چاہیں تو، بس ہمیں ضرورت ہے تو احساس کی۔

احساس کی ضرورت نہ صرف حکمرانوں کو ہے بلکہ شہریوں کو بھی ہے، شہریوں کو علم ہونا چاہیے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اورکیا فرائض اور حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے کیا فرائض ہیں۔ جب بات احساس کی ہورہی ہے تو میں ضرور بات کروں گی، ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی یہ ہمارے لیے بہت خوبصورت مثال ہیں ایک ایسا احساس جس نے پاکستانیوں کی زندگی میں خوشیاں بھردیں۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے احساس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے میں جتنا لکھوں کم ہوگا بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ انسان خود عظیم نہیں ہوتا اس کو اس کا کام عظیم بنادیتا ہے اور اس کے عظیم بننے کے پیچھے احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔

37 برسوں سے پاکستان میں مقیم یہ جرمن خاتون پاکستانی شہریوں کا علاج کرنے میں مصروف عمل ہیں جنھیں چھوت کی بیماری سمجھ کر ہاتھ تک کوئی نہیں لگاتا تھا اور بالآخر تڑپ تڑپ کر مرجاتا تھا اور وہ بیماری جذام تھی۔ 14 سال کی لڑکی جو جذام کی مریضہ تھی، لڑکی کے والدین نے لڑکی کو شمالی علاقے میں ایک گھر میں بند کردیا تھا۔ دو سال تک اس لڑکی کو وہاں بند رکھا گیا اورکھانا پانی بہت دور سے رکھ دیا جاتا تھا۔ یعنی اپنے ہوئے پرائے اور پھر اسی احساس نے پرائے کو اپنا بنالیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے اس کا علاج کیا اور بالکل تندرست کردیا۔

ایسے نہ جانے کتنے ہی لوگ ہیں جن کو ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے زندگی کی خوشیاں لوٹا دی ہیں (یہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ) ایک احساس کا نام ہے میرے نزدیک۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کا مذہب اسلام نہیں مگر ان میں خدمت انسانیت کا جذبہ اور احساس بھرا ہوا ہے جس سے وہ بلاامتیاز انسانی جانوں کو بچا رہی ہیں اور یہی تعلیم ہمارا مذہب اسلام دیتا ہے خدمت انسانیت اولین درجہ ہے ہمارے مذہب میں۔

ہمارے ملک کے نظام کو بھی جذام کی بیماری لگ چکی ہے اور اپنے اس نظام کو صحیح کرنے کے بجائے بیرون ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں کسی کے اندر ڈاکٹر رُتھ فاؤ جیسا احساس نہیں ہے کہ بیمارکو چھوڑ کر نہیں بھاگا جاتا اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بس ضرورت ہے تو احساس کی جس دن یہ احساس جاگ گیا تو اس ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور عوام کی قسمت بدلتے دیر نہیں لگے گی ۔ہمیں رتھ فاؤ جیسا احساس ملک کے لیے اور ایک دوسرے کے لیے پیدا کرنا پڑے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔