ملک میں امن قائم کرنے کے لیے پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 9 مئ 2016
پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : فائل

پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : فائل

مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جو ایم کیو ایم کے سابق رہنما ہیں نے جب اپنی الگ جماعت بنانے کا اعلان کیا تو ملک میں چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں اور اس جماعت کے بارے میں مختلف آراء سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ بعدازاں اس جماعت پر الزامات کی بوچھاڑ ہوگئی جبکہ ایم کیو ایم کے مزید رہنماؤں کی شمولیت نے کراچی کا سیاسی ماحول گرمادیا جو ابھی تک خاصا گرم ہے۔

پاک سرزمین پارٹی نے کراچی میں ایک جلسہ بھی کیا جس میں پاکستان کا پرچم لہرایا گیا کیونکہ اس پارٹی کے قائد کا موقف ہے کہ وہ پاکستانیت کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں لہٰذا وہ پارٹی پرچم نہیں بنائیں گے۔ حال ہی میں اس پارٹی نے لاہور میں اپنا دفتر قائم کرکے یہاں بھی تنظیم سازی شروع کردی ہے۔ اس جماعت منشور کیا ہے، کس ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہے اور جو الزامات اس پر لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا جنہو ں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رضا ہارون
پاک سرزمین پارٹی کا منشور پاکستانیت ، وطن پرستی اور دلوں کو جوڑنا ہے اور ہم اسی منشور کے تحت عوام میں جارہے ہیں۔ پاکستان نے لسانیت، قومیت، صوبائیت و دیگر بنیادوں پر تقسیم سے بہت نقصان اٹھایا ہے، مصطفی کمال نے پاکستانیت کا پیغام دیا اور وہ اپنے نظریے میں واضح اور مضبوط ہیں۔پاک سرزمین پارٹی کراچی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی جماعت ہے۔ اس لیے ہم تمام قومی مسائل پر بات کریں گے مگر ہماری ترجیح بنیادی جمہوریت کی مضبوطی، لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور مقامی سطح پر انہیں بااختیار بنانا ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک مہینے کی نوزائیدہ جماعت سے لوگوں کی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ اب تک پورے ملک سے 9ہزار کے قریب لوگ ہمارے ممبر بن چکے ہیں جبکہ پورے ملک سے لوگ ہمارے ساتھ رابطہ کررہے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لوگوںکا مسئلہ پاک بھارت تعلقات نہیں بلکہ پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت، سیوریج، ہسپتال ، امن و امان کی صورتحال ہے اور یہ مسائل صرف اسی صورت میں حل ہوسکتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل(A) 140 کے تحت مقامی حکومتوں کو سیاسی ، مالی اور انتظامی خودمختاری دی جائے۔

مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسری ہیں، سڑکیں اور دیگر ترقیاتی کام وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا کام نہیں بلکہ مقامی حکومت کے نمائندوں کا ہے مگر بدقسمتی سے چاروں صوبوں میں کمزور بلدیاتی نظام رائج ہے۔لوکل گورنمنٹ کا موجودہ قانون، آئین سے متصادم ہے لہٰذا آئین کے مطابق نیا قانون بنایا جائے جو صحیح معنوں میں مقامی حکومتوں کو آزاد اور خودمختار بنائے۔ہم سچ کی راہ پر نکلے ہیں اس لیے ہم پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی و دیگر الزامات لگائے جارہے ہیں جو درست نہیں، ہم نیک نیتی سے ملک کے لیے کام کررہے ہیں لہٰذاہمارے اقدامات تمام الزامات کو غلط ثابت کردیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارا پارٹی سٹرکچر نہیں ہے، ہم چاہتے تو سینٹرل ایگزیٹو کمیٹی کا بہت پہلے اعلان کردیتے مگر ہم اس میںپورے ملک کی نمائندگی چاہتے ہیں تاکہ پارٹی میں پاکستان کا رنگ نظر آئے۔ ہماری جماعت وفاقی جماعت ہے لہٰذا ایک ماہ کی مزید جدوجہد کے بعد ہم سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ساتھ ساتھ پارٹی منشور کا اعلان بھی کردیں گے۔کراچی کے بعد ہمیں لاہور یوں سے بھی بہت پیار ملا ہے۔

ابھی ہمارا مقصد تنظیم سازی ہے جس کے لیے ہم تمام لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جبکہ اہم بات یہ ہے کہ صرف چند دن میں ہی ہزاروں لاہوری ہمارے ممبر بن چکے ہیں۔ ہم نے لاہور کی ڈسٹرکٹ کمیٹی کا اعلان کردیا ہے، قاضی مبین اس کے انچارج ہیں جو لاہور اور اس کے گردونواح میں تنظیم سازی کریں گے۔پنجاب میں ابھی حکومتی جماعت کی بڑی وکٹ نہیں گررہی تاہم چھوٹی وکٹیں بہت جلد گرا دیں گے۔وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے کی آئین اور قانون میں گنجائش نہیں، اخلاقی طور پر اس کا مطالبہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا طریقہ بھی اخلاقی ہونا چاہیے ۔میرے نزدیک وزیراعظم کو پاناما لیکس کے معاملے پر قوم سے خطاب نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں جانا چاہیے تھا مگر انہوں نے غیر آئینی طریقہ استعمال کیااور اب اپوزیشن بھی اپنے اقدامات سے پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کررہی ہے۔

پاناما لیکس کے معاملے پرایف بی آر، ایف آئی اے، نیب، الیکشن کمیشن اور سٹیٹ بینک کی خاموشی سے ان اداروں کی آزادی مشکوک ہوجاتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن ان اداروں سے کس طرح تحقیقات کرواسکتا ہے جن پر سب عدم اعتماد کرچکے ہیں۔ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے بند کمرے میں معاملات طے کررہی ہیں، خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ہیں انہیں وزیراعظم سے رابطہ کرنا چاہیے تھا مگر پارلیمنٹ کا فورم استعمال نہیں کیا جارہا جس سے خلاء پیدا ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تیسری قوت کو مجبوراََ آنا پڑتا ہے۔

ایم کیو ایم کے خلاف ’’را‘‘ سے تعلقات اور فنڈنگ کے حوالے طارق میر کا اعترافی بیان، بی بی سی کی ڈاکومنٹری، میٹرو پولیٹن پولیس کے پاس موجود اعترافی بیانات اور شہریار نیازی کا ایک ٹی وی پروگرام میں الطاف حسین کے بھارتی فنڈنگ کے اعتراف کا انکشاف اہم ثبوت ہیں ۔ اس کیس میںحکومت کی جانب سے اہم پیش رفت ہورہی ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا ہم آواز اٹھاتے رہیں گے۔ نائن زیرو کے 90فیصد لوگ ہمارے ساتھ ہیں جبکہ باقی کے 10فیصد لوگ ہم اپنی جماعت میں شامل نہیں کرنا چاہتے۔

افتخار رندھاوا
ہم گزشتہ 25سال سے ایم کیوایم کے لیے کام کررہے تھے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہم نے 25سال قید با مشقت بغیر تنخواہ کے کاٹی ہے۔آغاز میں الطاف حسین کا فلسفہ اچھا تھا اور ان کا نظریہ بھی مضبوط تھا ۔ وہ عام لوگوں کو ساتھ لے کر چل رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے دن رات ان کے لیے کام کیا، جیلیں کاٹی، تشدد برداشت کیا اور ان کا پیغام لوگوں تک پہنچایا مگر پھر وہ اپنے فلسفے سے ہٹ گئے۔

افسوس ہے کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو اپنے خاندان اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا اور قوم کا سودا کردیا۔ ہم کمزور لوگ ہیں، ہمارے اندر ان کی مخالفت کی ہمت نہیں تھی ، جب ہم کچھ نہ کرسکے تو سب ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے۔مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے جب پاکستان آکر ایم کیو ایم کے خلاف بات کی اور اپنی الگ جماعت کا اعلان کیا تو ہمیں ڈر تھا کہ انہیں نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ۔ چونکہ یہ دونوں اچھے مشن پر نکلے ہیں اور پاکستانیت کو فروغ دے رہے ہیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا ساتھ دیں گے اور انہیں مضبوط بنائیں گے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کے 25سالہ دور میں ہمیں اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی ہمیں چند دن میں ملی ہے اور اب ہم لوگوں کو جوڑنے کے مشن پر کام کررہے ہیں۔

قاضی مبین
ایم کیو ایم کی پتنگ کٹ چکی ہے جو آہستہ آہستہ زمین پر گر جائے گی۔ عوام چاہتے تھے کہ کوئی ایسی جماعت بنے جو صوبائیت، لسانیت، الگ سیاسی ایجنڈے اور پرچم کے بجائے پاکستانیت کو فروغ دے، جس کا منشور پاکستان ہو اور جو وطن پرستی کی بات کرے۔ پاک سرزمین پارٹی کی صورت میں عوام کو اپنی امید پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا اتنا پیار مل رہا ہے۔ پنجاب میں بھی ہمیں بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) ، پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں سمیت این جی اوز، سول سوسائٹی، وکلاء، ڈاکٹرز، بزنس کمیونٹی، خواتین اور وہ لوگ جن کا تعلق سیاست سے نہیں ہے ہمارے ساتھ رابطہ کررہے ہیں۔بہت جلد لائرز فورم بنا رہے ہیں اور ہائی کورٹ کے چیمبر میں دفتر قائم کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ طلباء کی طرف سے بھی ہمیں بہت زیادہ رابطہ کیا گیا ہے اور سٹوڈنٹس ونگ بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ مصطفی کمال کو مقامی حکومت کی اہمیت کا اندازہ ہے، وہ بلدیاتی نظام کے ذریعے سسٹم کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک بنیادی جمہوریت نہیں ہوگی تب تک ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہوگی۔لاہور میں دفتر قائم کرنے کے بعد ہمیں دیگر علاقوں سے بھی دفاتر قائم کرنے کی آفرز آرہی ہیں، بہت جلد ملک کے دیگر حصوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔

آصف میمن
کراچی میں حالات خراب ہونے کی و جہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا اور پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر اور شیعہ سنی کی تقسیم نے امن تباہ کردیا۔ ہمیں پہلے عمران خان سے امید تھی کہ وہ معاملات میں بہتری لائیں گے مگر انہوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔جب مصطفی کمال نے اپنا ایجنڈا پیش کیا تو ہم نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ مصطفی کمال اپنے نظریے میں واضح ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں انہوں نے کراچی کی بہتری کے لیے بھی بہت کام کیا ہے اور اب وہ اپنے عزم سے پاکستانیت کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔یہ تاثر تھا کہ پاک سرزمین پارٹی ایم کیو ایم کی ٹیم ’’بی‘‘ ہے مگر پی ٹی آئی سے لوگوں کی شمولیت نے ثابت کردیا کہ یہ قومی جماعت ہے اور ہم پاکستان کے استحکام کے لیے کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔