جمہوریت کیا ہے؟؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 17 نومبر 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

قارئین کرام! چند روز قبل ہمارے صاحب اقتدار کے حوالے سے ایک بیان شہ سرخی بنا، ’’جمہوریت ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا واحد راستہ ہے…‘‘

ایسے بیان کو سن اور پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی بات پر یقین کیا جائے، وہ جو اپنے گھروں کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر ملکی مسائل حل کرتے ہیں اور وہ جو ہر روز ہمیں مختلف ٹاک شوز میں یہ بتاتے ہیں کہ اس ملک میں آمریت ہی کامیاب ہو سکتی ہے، جمہوریت اس ملک کے عوام کا ’’علاج‘‘ نہیں۔ اپنے ناقص ذہن سے کچھ سمجھ نہ آیا تو مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے پوچھنے کا سوچا، کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ بندہ نہ ملے تو دیوار سے مشورہ کر لو۔ یہ اصل میں مشورہ نہیں بلکہ ایک فکری جائزہ ہے، آپ بھی اس سے مستفید ہوں۔

اسکول کالج کے زمانے کا پڑھا ہوا شعر ہے،
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

اب جمہوریت کے بارے میں ہمیں علم ہوا ہے کہ ہمارے ملک کی ترقی کی کنجی جمہوریت میں ہے، اور اس راز کو کس نے فاش کیا ہے یہ میں بتا چکی ہوں۔ آئیے سب سے پہلے حمزہ سے اپنا سوال پوچھتے ہیں، ’’جی حمزہ! کیا خیال ہے آپ کا اس بارے میں جو کہ محترم حکمران صاحب نے فرمایا ہے؟ اور اس جمہوریت کے حصول میں آپ اپنا کتنا حصہ سمجھتے ہیں؟‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کے آنے میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کی کیا شراکت ہے۔

’’سچ پوچھیں تو میں نے کبھی اپنا ایک ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیا، ہر روز کی تھکی ٹوٹی روٹین میں ہر چھٹی غنیمت لگتی ہے، وہ عید کی ہو، عاشورہ محرم کی یا پھر الیکشن کی… کم از کم نیند تو پوری ہو جاتی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک مشقت کر کے بمشکل اپنا گذارا ہوتا ہے، بچوں کے لیے اچھے اسکولوں میں تعلیم کا حصول تک خواب سا لگتا ہے، ہمیں جمہوریت سے کیا لینا دینا اور مجھے تو یہ بھی علم نہیں کہ جمہوری نظام سے کس طرح صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب ہو تا ہے!‘‘ میں حیرت سے اس پڑھے لکھے بینکر کا منہ دیکھ رہی تھی جو مزید وضاحت کر رہا تھا،’’ میں نے کوئی سیاسی مضمون تو نہیں پڑھا، دو اور دو چار کرنا سیکھا ہے، اس بارے میں کوئی بات پوچھنا ہو تو پوچھیں، بے شک ان کے غیر ملکی اکاؤنٹس کا پوچھ لیں…‘‘ اس معلومات سے ہمیں کوئی غرض نہیں سو اس کے بعد ملازمت پیشہ خاتون سے سوال کیا تو ان کا جواب سنیں۔

’’یہ کس بلا کا نام ہے؟ کہاں پائی جاتی ہے؟ چلو ہو نہ ہو، مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بات کسی نے کی، ہمیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، وہی دن ہوں گے اور وہی راتیں، وہی پیٹ کی بھوک اور وہی گھروں کے مسائل، وہی رشتوں کی چپقلشیں اور وہی محرومیوں کا رونا… نہ کسی آمر کے دور میں ہماری قسمت بدلی ہے نہ برائے نام جمہوری ادوار میں۔ اس ملک میں ہم انتہائی فرسودہ اور غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ تک نہیں کر سکے، عورت کی حکمرانی کے دور میں بھی عورتوں کا استحصال کرنے والی اس قبیح رسوم کے بندھن نہیں توڑ سکے، ونی، سوارہ، ادلہ بدلہ، کارو کاری اور دیگر ایسی ظالمانہ رسوم ختم ہونے کی بجائے اور بھی بڑھتی جا رہی ہیں، غیرت کے نام پر قتل تو عام بات ہو گئی ہے…

ہمیں تو صبح سے شام اور شام سے صبح کرنا ہوتی ہے، زندگی ایک ٹوٹے ہوئے پہیے کی طرح چل رہی ہے، اس میں جمہوریت ہمیں کس راستے پر لے جائے گی؟‘‘فیصل ایک وکیل ہیں، جواب میں کہنے لگے… ’’اچھا… یہ ہمارے محترم حکمران نے کہا؟ چند سال قبل وہ جمہوریت کو بہترین انتقام کہہ رہے تھے… انتقام کا راستہ کس طرح ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے؟ عدل اور انصاف ہر معاشرے کی ترقی کا پہلا اصول ہے اور یہی ترقی کی شاہراہ کا راستہ… جس ملک میں خواندہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوں اور وہ بھی اپنے ووٹ کا استعمال نہ کریں، جہاں ووٹ بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض خرید لیے جاتے ہیں۔

پانچ سو روپے کے بدلے یا ڈنڈے کے زور پر… وہاں کیسی جمہوریت اور کہاں کا انصاف، جہاں چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر چیف جسٹس کو ’’از خود نوٹس‘‘ لینا پڑتا ہو اس لیے کہ حکومتی مشینری کے لوگ اپنے اپنے اکاؤنٹ بھر رہے ہوں یا اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہوں… جہاں پتھر بندھے ہوئے اور کتے کھلے پھر رہے ہوں، جہاں قانون کی حالت دیکھو تو جنگل سے بھی بدتر ہے کہ جنگل کے بھی کوئی نہ کوئی قوانین ہوتے ہیں…‘‘ بڑی مشکل سے ان کی چلتی گاڑی کو روکا۔

سمیر اے لیول کے طالب علم ہیں، کہنے لگے، ’’ آپ پہلے بتا سکتی ہیں کہ جمہوریت کس ڈائریکشن میں جاتی ہے؟‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا، ’’اصل میں آپ نے ابھی کسی روٹ کی بات کی ہے نا کہ ہمارے پریذیڈنٹ نے کسی روٹ کی بات کی ہے… اصل میں، میں نے جغرافیہ نہیں پڑھا، بلکہ مجھے نفرت رہی ہے ہمیشہ اس مضمون سے…‘‘میں نے اپنا سوال انگریزی میں دہرایا کیونکہ ہمارے سارے طالب علم دو کشتیوں کے سوار اور کافی حد تک کاٹھے انگریز بن چکے ہیں۔’’ anything!‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا، ’’ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ ملک کس طرف جاتا ہے، جاتا بھی ہے کہ نہیں، ہم نے…

میرا مطلب ہے کہ میری نسل کے بچوں نے تو اس ملک میں اے لیول تک ہی رہنا ہے، پھر ہماری منزل مغرب ہی ہے، اس ملک میں ہے ہی کیا، اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ملک کو کون ڈبوتا ہے اور کس طرح، کون کتنا کھاتا ہے، ہمارے ماں باپ کام یہاں کرتے ہیں اور اپنے سرمائے کو غیر ملکی بینکوں میں محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ ہمارے مستقبل محفوظ ہو جائیں، اس ملک میں تو بھتہ مافیا اور جانے کیا کیا ہے جو ہمیں لوٹ کر کھاجائے گا!‘‘ نئی نسل کے نمایندے کے ان سنہری خیالات کے بعد تو نہ کوئی امید کی کرن بچی ہے نہ کوئی فائدہ نظر آتا ہے ایسے سوالوں کا، مگر پھر بھی سوچا کہ کسی عام آدمی سے بھی رائے لی جائے۔

ہمارے ہاں دکاندار طبقہ ایسا ہے کہ جن کا واسطہ دن بھر بھانت بھانت کے لوگوں سے پڑتا ہے، ان میں سے کسی سے رائے لی جائے۔ ’’او چھڈو جی! سنو تو کہہ کون رہا ہے اور کیا!! انھیں کیا علم کہ اس ملک کے لیے کیا اچھا ہے اور کس طرح، وہ کون سا ہمارے فائدے کے لیے حکمران بنے ہیں یا انھیں علم ہے کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا نہیں، جو امریکا کہتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں، وہ جی تاگوں والی پتلیوں کا تماشہ دیکھا ہے کبھی آپ نے…اس ملک میں سب وہ ہیں، حکومت کرنے والے، ان کی مخالفت کرنے والے، اپنی باری کا انتظار کرنے والے، قانون بنانے والے، قانون توڑنے والے…‘‘

’’اوکے جی، بہت شکریہ!‘‘ میں نے فوراً کہا۔ یہی تو فرق ہوتا ہے ایک ’’عام آدمی‘‘ اور ایک ’’خاص آدمی‘‘ میں، بات کرتے ہوئے عام آدمی کو کچھ کھونے کا ڈر نہیں ہوتا جب کہ خاص آدمی موقع محل دیکھ کر بیان دیتا اور اپنے ہی دیے گئے بیانات میں ترمیم و تخفیف کرتا رہتا ہے… جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے، جمہوریت سے ہمیں کیا فائدہ ہے اور جمہوریت ہمیں کس طرح ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے… اگر اس کی وضاحت ہو جائے تو بہتوں کا بھلا ہو سکتا ہے ورنہ ماضی کی حکومتوں کی، ترقی کے so called نام پرہونے والی بے حیائی اور آزادی کے کڑوے ثمرات کے ذائقے کو ہم ابھی تک اپنے حلق سے نہیں اتار پائے… اجازت دیجیے قارئین اور اس موضوع پر آپ کی کوئی رائے ہو تو …اسے خود تک ہی محدود رکھیے!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔