کہیں پارلیمنٹ سمیت گھر نہ جانا پڑے

ایاز خان  منگل 10 مئ 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

نواز شریف ایک بار پھر توقعات پر پورے اترے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنے ساتھیوں، اتحادیوں اور خاندان کے نادر مشوروں کے بعد کچھ ’’اصولی‘‘ فیصلے کر لیے ہیں۔ سب سے اہم فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پاکستانی عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے وضاحت نہیں کریں گے۔ اس پارلیمنٹ میں میاں صاحب کی جماعت دو تہائی اکثریت رکھتی ہے۔

نواز شریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ انھیں ان کے حلقے کے عوام نے منتخب کر کے قومی اسمبلی میں بھجوایا تھا اور پھر عوام سے منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی نے بطور وزیر اعظم ان کا انتخاب کیا۔ ہم میاں صاحب کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جس کی طاقت سے وہ دھرنے کے بحران سے بڑی آسانی کے ساتھ نکل آئے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن اینڈ کمپنی سے ملاقات کے بعد جب میاں صاحب کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ پارلیمنٹ کے بجائے جوڈیشل کمیشن میں وضاحت دیں گے تو اس پر مجھے حیرت نہیں ہوئی تھی۔ مجھے صرف یہ لگا کہ شاید یہ کسی ڈکٹیٹر کی بنائی ہوئی پارلیمنٹ ہے جس میں جا کر میاں صاحب اپنی توہین نہیں کرانا چاہتے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون عجیب آدمی ہیں وہ فوراًپارلیمنٹ کے اجلاس میں پہنچ گئے۔ برطانوی  اپوزیشن لیڈر نے ان کی موجودگی میں جو کچھ کہا وہ ڈیوڈ کیمرون کی ہی ہمت تھی کہ اسے برداشت کر گئے۔

نواز شریف پارلیمنٹ میں پیش ہو کر وضاحت کرتے تو انھیں یہ خطرہ بھی نہیں تھا کہ ان کے اپنے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ وہ کچھ کرتے جو برطانوی اپوزیشن لیڈر نے کیا تھا۔  جس دن سے مشترکہ اپوزیشن کیٹی او آرز وزیر اعظم کو بھجوائے گئے ہیں خورشید شاہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ میاں صاحب ان کے دوست ہیں اور انھوں نے اپنے دوست وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا۔

میاں صاحب نے بھی شاہ صاحب کے شہر سکھر میں کھڑے ہو کر انھیں دوستی کا طعنہ دیا تھا۔ پارلیمنٹ کے سامنے وضاحت پیش کرنے کی تجویز بھی میاں صاحب کو ان کے دوست خورشید شاہ نے ہی دی تھی۔ شاہ صاحب تو آج کل اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے کہ کہیں ان کی دوستی خراب نہ ہو جائے۔ دھرنے کے دنوں میں یہی میاں صاحب تھے اور یہی پارلیمنٹ۔ مشترکہ اجلاس جاری رہتا تھا اور میاں صاحب مسلسل اس میں جلوہ گر ہوتے تھے۔ سرکاری اور تمام نجی چینلز اجلاس کی کارروائی کی مکمل کوریج کرتے تھے۔

دھواں دھار تقرریں دن بھر چلتی تھیں۔ جمہوریت کو خطرے سے دوچار کرنے والے عمران خان اور طاہر القادری کو ہدف تنقید بنایا جاتا۔ جمہوریت کو بچانے کی کوششیں صبح شروع ہوتیں اور شام تک اسے بچا کر ارکان پارلیمنٹ گھر چلے جاتے۔ اگلے دن پھر آغاز ہوتا اور اختتام تک یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ طاہرالقادری اور عمران خان اپنے دھرنے سمیٹ کر چلتے بنے تو اسے پارلیمنٹ کی فتح قرار دیا گیا۔

ابھی تھوڑا عرصہ پہلے تک ہمیں یہی سبق پڑھایا جاتا رہا کہ چونکہ پارلیمنٹ مضبوط ہے اس لیے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ آج اسی پارلیمنٹ کو میاں صاحب نے اپنی طرف سے فارغ کر دیا ہے۔ وہ ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں تو کر رہے ہیں مگر اپنے آفس میں۔ ارکان پارلیمنٹ سے یاد آیا ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی پھر سنی گئی ہے۔ دھرنے کے دنوں میں وہ پارلیمنٹ میں میاں صاحب کے ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔ آج کل وہ پھر اتحادی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ساتھ وہ بھی اتحادیوں کے حالیہ اجلاس میں شریک تھے۔

میاں صاحب نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ انھوں نے ماضی میں بھی کیا تھا۔ میاں صاحب بڑے آدمی ہیں اور ڈکٹیشن لینے کے لیے اس ملک کے کروڑوں عامی موجود ہیں، انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ ڈکٹیشن لیں۔ وزیر اعظم نے ایک اور فیصلہ کیا ہے کہ وہ پانامہ لیکس پر کمیشن کے لیے چیف جسٹس کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔

یہ سارے فیصلے اپنی جگہ میاں صاحب کا اصل فیصلہ یہ ہے کہ وہ اس ایشو پر زیادہ سے زیادہ تاخیر کریں گے۔ ان کی کوشش ہو گی کہ اپوزیشن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ میاں صاحب کا طرز حکومت یہی ہے کہ وہ ہر کام کرنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ کچھ نا اہلی کی وجہ سے اور کچھ جان بوجھ کر۔ اب بھی ان کی یہی کوشش ہے کہ وہ اتنی دیر کر دیں کہ اپوزیشن احتجاج از خود دم توڑ جائے۔

ابھی تک تو متحدہ اپوزیشن ساتھ چل رہی ہے۔ خدشات کے مطابق اگر زرداری صاحب نے ایک بار پھر یہ فیصلہ کیا کہ وہ میاں صاحب اور اپنی ’’جمہوریت‘‘ بچانے کے لیے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو پھر ساری ذمے داری کپتان کے کندھوں پر آجائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے تیور اس بار بگڑے ہوئے ہیں۔اس کا ایک ثبوت طارق خورشید جیسے سکہ بند نظریاتی کارکنوں کا متحرک ہونا ہے۔ زرداری صاحب نے پارٹی کی اکثریت کی سوچ کے برعکس کوئی فیصلہ کیا تو ان کے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی۔

پانامہ لیکس کا مسئلہ جمہوری انداز میں حل نہ ہوا تو پھر کسی اور طریقے سے حل ہو گا۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس مسئلے کو حل ہونا ہے۔ جون کے وسط سے حکومت کے لیے مسائل بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔ 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی دوسری برسی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ طاہرالقادری 10جون کو وطن واپس آر ہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انھوں نے برسی کو بھرپور انداز میں منانے کی تیاریاں شروع کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک برسی کے موقع پر ایک بڑا شو کرنا چاہتی ہے۔ طاہرالقادری اگر بڑا اور بھر پور شو کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت ایک نئی مشکل میں پھنستی نظر آر ہی ہے۔

علامہ صاحب کے اس شو کو تحریک میں بدلنے سے پہلے حکومت نے پانامہ لیکس کا مسئلہ حل نہ کیا تو پھر اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ایک طرف اپوزیشن پانامہ لیکس کے نام پر سیاست کر رہی ہو گی تو دوسری طرف طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف نہ ملنے کی دہائی دیں گے۔ یہ تحریک زور پکڑ گئی تو پھر کیا ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کے بارے میں میاں صاحب فی الوقت سوچنے کے لیے تیار نہیں۔

میاں صاحب! جمہوریت بچانی ہے تو اس کا راستہ پارلیمنٹ سے گزرتا ہے۔ اپوزیشن اگر ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھ رہی ہے تو محض اس لیے کہ وہ اس سسٹم کو بچانا چاہتی ہے۔ آرمی چیف سے ملاقات کے لیے بیک چینل رابطوں کی کوششوں سے یہ کہیں بہترکہ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھیں اور پانامہ لیکس کا مسئلہ حل کر لیں۔ میاں صاحب نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دی اور صرف خود کو بچانے کے لیے اپنی اور پارٹی کی ساری توانائیاں صرف کر دیں تو پھر عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم آپ کو تو جانا ہی پڑے ساتھ سسٹم بھی چلا جائے۔ میاں صاحب ! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے پارلیمنٹ میں جا کر وضاحت دینی ہے یا پارلیمنٹ سمیت گھر جانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔