آؤ پھر خواب دیکھتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 11 مئ 2016

جب کسی طاقتور کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی جاتی تو وہ سزا پورے سماج میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں انگنت ایسی قبریں ہیں جو اگر ہمارے حکمران، اشرافیہ، بیورو کریٹس، جاگیردار، مذہبی رہنما چاہتے تو وہ کبھی نہ بنتیں اور وہ لوگ جو آج قبروں میں سو رہے ہیں وہ اپنے اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے ہوتے۔ آج ان کی روحیں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ ہمیں کن گناہوں کی سزا د ی گئی ہے ہمیں کن جرموں کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی، کونسی عدالت تھی، جج کون تھے، وکیل اور گواہ کون تھے، خدارا کچھ تو بولو کچھ تو کہو اگر سچ نہیں کہہ سکتے تو جھوٹ ہی کہہ دو لیکن کہو توسہی یاد رکھو ہماری آوازیں اور سوال تمہارا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے تمہیں بھی ہماری طرح کبھی چین نہ مل سکے گا۔

ہم سب کی کہانی بالکل کافکا کی طویل کہانی ’’قلب ماہیت‘‘ کے ہیرو کی کہانی ہے۔ ’’قلب ماہیت‘‘ کا ہیرو ایک صبح سو کر اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ انسان سے ایک بہت بڑے مکوڑے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کو ایک دن اچانک بتایا جاتا ہے کہ اس کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا جائیگا مگر اسے یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کا جر م کیا ہے؟ مقدمہ کس قانون کے تحت دائر ہوا ہے، اس کی سماعت کب اور کہاں ہو گی اور وہ ان سب باتوں سے بے خبر اپنی صفائی کی کوشش میں لگا رہتا ہے، آزاد گھومتا ہے لیکن جانتا ہے کہ وہ زیر حراست ہے، بالآخر اس کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔

اسے نہیں معلوم کہ یہ سزا کب اور کس عدالت میں کس نے سنائی بلکہ اسے کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ اس کو موت کی سزا سنائی گئی ہے پھر بھی جب دو مسخرے قسم کے جلاد اس کے پاس آتے ہیں تو وہ چپ چاپ ان کے ساتھ ہو لیتا ہے اور جلاد اس کو لے جا کر ذبِح کر دیتے ہیں۔ آج ہم سب جو زندہ ہیں بظاہر تو آزاد ہیں لیکن در حقیقت سب کے سب زیر حراست ہیں سب کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ سب جلادوں کے انتظار میں ہیں کہ کب وہ آئیں اور انھیں لے جائیں اصل میں ہم سب یہی چاہتے تھے کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ اسی طرح سے ہو ہم نے اس زندگی اور موت کا انتخاب خود اپنے لیے کیا ہے اس لیے جوکچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، اس سے مختلف ہو بھی کیسے سکتا تھا جب انسان خود اپنی کامیابی، خوشحالی، ترقی اور سکون کا دشمن ہو جائے تو پھر اسے دوسرے دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔

چلیں ساری باتیں چھوڑیں آئیں پہلے مل کر دنیا کی تاریخ کھنگالتے ہیں۔ کولمبس نے ایک نامعلوم دنیاکا خواب دیکھا اس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی اور اپنی کشتی سمندر میں ڈال دی اور ایک نامعلوم سرزمین معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا، کوپرنیکس نے اپنی دنیا کے علاوہ دوسری دنیا کے خواب دیکھے اور انھیں پا لیا، ہنری فورڈ ایک غریب اور غیر تعلیم یافتہ شخص تھا، اس نے ایک ایسی گاڑی کا تصورکیا جو بغیرگھوڑوں کے چل سکتی ہے۔ اس نے مواقعے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیے بغیر جو اوزار اپنے پاس تھے ان ہی سے کام شروع کر دیا اور آج ہم اس کے خواب کی جیتی جاگتی مثال دنیا کے ہر کونے میں دیکھتے ہیں۔

ٹامس ایڈیسن نے ایک ایسے لیمپ کا خیال کیا جو بجلی سے جل سکے اور جیسے ہی اسے یہ خیال آیا اس نے اس پر تجربات شروع کر دیے اور کوئی دس ہزار ناکامیوں کے بعد اس کا خیال حقیقت بن گیا۔ دھیلان نے سگار کی دکانوں کے ایک سلسلے کا خواب دیکھا، آج یونانئیڈ سگار اسٹورز کی شاخیں آپ کو دنیا بھر میں دکھائی دیتی ہیں۔ سابق امریکی صدر لنکن نے امریکا کے سیاہ فام باشندوں کو غلامی سے نجات دلانے کا خواب دیکھا اور اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ رائٹ برادران نے ہوا میں اڑنے والی ایک مشین کا خواب دیکھا، آج دنیا ہوائی جہاز کی صورت میں اس کے خواب کی حقیقی صورت دیکھ رہی ہے۔ مارکونی نے اثیرکی ناقابل تسخیر قوتوں کو اپنے قبضے میں لانا چاہا۔ اس کی کامیابی نے ریڈیو کی صورت اختیار کی دنیا کی بڑی سے بڑی ایجاد اور اہم سے اہم کارناموں نے ابتداء میں خوابوں کی ہی دنیا میں جنم لیا۔ نپولین ہل کہتا ہے کہ کامیابی ان ہی کے قدم چومتی ہے جو کامیابی کے خواب دیکھتے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے اپنے خوابوں کو کیوں زندہ درگورکر دیا جب بھی کامیابی، خوشحالی، ترقی، سکون کے خواب ہمارے اردگرد منڈلاتے ہیں تو ہم کیوں ان کو ذلیل کرتے ہیں ہم کیوں ان کی بے عزتی اور بے حرمتی کرتے ہیں نہ جانے کیوں ہم 20 کروڑ صرف چند ہزاروں سے ہار مان گئے ہیں۔

ہم نے بغیر لڑے اپنے خواب تک ان کے حوالے کر دیے ہیں اور تو اور یہ بھی ان سے عہد کر بیٹھے ہیں کہ آیندہ کبھی دوبارہ خواب نہیں دیکھیں گے، حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا تھا ’’اپنے دل کو پوری محنت کے ساتھ کھنگالوکہ دراصل یہیں سے زندگی کے تمام مسائل اٹھتے ہیں‘‘ آؤ دوبارہ سوچو کہ تم اپنے لیے یہ ہی زندگی چاہتے ہو اگر جواب ہاں میں ملے تو پھر خو ش رہو کیونکہ تمہارے لیے کوئی دوسراتو کیا اگر سقراط، سولن، بدھا، بیکن، لنکن، افلاطون، ارسطو بھی ہوتے تو وہ بھی تمہارے آگے ہار مان چکے ہوتے، لیکن اگر جواب نہ میں آئے تو مبارک ہو آپ سب زندہ ہیں اور زندوں کے ہی حقوق ہوتے ہیں اختیار ہوتے ہیں اب آؤ مل کر ہم سب لوٹنے، والوں کو برباد اور ذلیل و خوار کرنے والوں کو للکارتے ہیں یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ آؤ ناجائز قابضین کو مار بھگاتے ہیں ۔ آؤ مل کر پھر ایک بار خواب دیکھتے ہیں اور اپنے خوابوں کو سچا کر دکھانے کے لیے نکل کھڑے ہو تے ہیں۔

رابندرناتھ ٹیگور نے کہا تھا ’’میں سویا اور خواب میں دیکھا کہ زندگی ایک مسرت ہے میں بیدا ر ہوا اور دیکھا کہ زندگی ایک خدمت ہے، میں نے عمل کیا اور خدمت اور مسرت دونوں کو پایا‘‘ آؤ کہ اب عمل کا وقت آ گیا ہے، جتنی بھی دیر کرو گے اتنی ہی دیر اور تمہیں دوزخ میں رہنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔