دیکھ ! اگر چشم بینا ہے تو

مقتدا منصور  جمعرات 12 مئ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

46 سالہ صادق خان برطانیہ کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر لندن کے میئر منتخب ہوگئے ہیں۔ وہ مسلمان ہونے کے علاوہ جنوبی ایشیائی بھی ہیں۔ جن کا خاندان ان کی پیدائش سے ذرا قبل برطانیہ منتقل ہوا تھا۔ ان کے والد پبلک ٹرانسپورٹ میں بس ڈرائیور تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ انھوں نے جدی پشتی برطانوی اورارب پتی زیک گولڈاسمتھ کو شکست دی ہے۔ یہ مختصر سا تعارف ہمیں اکسا رہا ہے کہ ہم دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا اسباب ہیں کہ برطانوی عوام نے نسلی گورے کے بجائے ایک ایشیائی مسلمان کواپنے شہر کی قیادت سونپی ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں چند وزرا سمیت بعض سیاسی شخصیات ان کی کامیابی پر بغلیں بجا رہی ہیں۔ اب اسے ان کی معصومیت کہا جائے یا لاعلمی کہ ایک سیکولر معاشرے میں یہ کوئی انوکھی  بات نہیں، جب کہ ان کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جہاں مختلف اہم عہدوں پر فائز ہونے کے لیے میرٹ کے بجائے مسلمان ہونے کی شرط آئین کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں صادق خان کی کامیابی کا سہرا برطانوی عوام کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے نسلی اور مذہبی امتیازات سے بلند ہوکر اہلیت ، قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر انھیں  ذمے داریاں سونپی ہیں۔

صادق خان کی کامیابی کو سمجھنے کے لیے یورپ کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہم نے ایک سے زائد مرتبہ ان صفحات پر لکھا ہے کہ برطانیہ میں تبدیلی کا آغاز 1097میں آکسفرڈ اور 1123میں کیمرج یونیورسٹی کے قیام اور بتدریج ان کا مذہبی درسگاہ سے وسیع البنیاد علمی تحقیقی اداروں کی جانب مراجعت سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد 15 جون 1215کو برطانوی بادشاہ شاہ جان نے میگناکارٹا پر دستخط کر کے تاجروں اور کاروباری حلقوں کے علاوہ عام آدمی کے لیے ریاستی منصوبہ سازی میں شرکت کا راستہ کھولا، جو جمہوریت اورجمہوری نظم حکمرانی کی جانب پہلا قدم تھا ۔

پھر سولہویں صدی کے اوائل میں پادری مارٹن لوتھر نے رومن کیتھولک چرچ کی مذہبی اجارہ داری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے احتجاجی (پروٹسٹنٹ) عقیدے کی بنیاد رکھی جس نے صدیوں سے جاری رومن کلیسا کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں کلیدی کردار اداکیا۔ اسی دوران نیوٹن کے قوانین حرکت اور قانون تجاذب، جو کلاسیکل فزکس کی بنیاد ہیں، نے تحقیق و تجربے کی روایت کو فروغ دیا جس نے یورپ میں پیداواری ذرایع کو تبدیل کیا۔ نتیجتاً اس کے اثرات نظم حکمرانی پر پڑے اور پشتینی بادشاہتوں کی جگہ منتخب حکومتوں کا رواج عام ہوا جب کہ اٹھارویں صدی میں رونما ہونے والے انقلاب فرانس نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے ارفع واعلیٰ تصورات روشناس کرائے جن کی بنیاد روشن خیالی، عقلیت پسندی اور فکری کثرتیت کے لیے قبولیت تھی۔

لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ سے قبل روشن خیالی اور عقلیت پسندی کی تحریک آٹھویں صدی میں مشرق وسطیٰ (حالیہ عراق) سے شروع ہوئی تھی اور دسویں صدی تک جاری رہی۔ اس سوچ کے حامل افراد نے سیاسی اور سماجی امور کے علاوہ عقائد سے متعلق بعض معاملات پر سوالات اٹھانا شروع کیے، جو انسانی فکر میں آنے والی وسعت کا اظہار تھا۔

مگر یہ تحریک مزید آگے نہیں بڑھ سکی اور دسویں صدی کے آنے تک دم توڑگئی۔ اس کے کئی اسباب ہیں لیکن سب سے اہم سبب یہ ہے کہ بعض اہم تحقیقات و تخلیقات کے باوجود مسلم معاشروں کے پیداواری نظام میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آسکی تھی۔ جس کی وجہ سے طرز حکمرانی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور سماجی ڈھانچہ جمود کا شکار رہا۔ بارہویں صدی کے دوران ہسپانیہ (مسلم اسپین) میں معروف فلسفی ابن رشد نے ریاست، سیاست اور مذہب کو الگ کرنے کا تصور پیش کیا۔ ابن رشد کا تصور مسلم معاشروں میں تو قبولیت حاصل نہیں کر سکا،لیکن مغربی معاشروں نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ یہی سبب ہے کہ ابن رشدکو مغربی سیکولرز کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔

اب ذرا گفتگو سیکولر ازم پر ہوجائے، جسے ہمارے معاشرے میں انتہائی ناقابل قبول تصورکیا جاتا ہے۔ سیکولرازم ایک سیاسی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ریاست، سیاست اور مذہب کاایک دوسرے سے علیحدہ کیا جانا ہے، لیکن بابائے اردو نے اس کا ترجمہ ’’لادینیت‘‘  کر کے اس اصطلاح کو متنازع بنا دیا۔ چونکہ ہم غیر تحقیقی معاشرہ ہیں، اس لیے اصطلاحات مرتب کرنے میں الفاظ کی قلت کا شکار ہیں۔

انگریزی کی کئی ایسی اصطلاحات ہیں، جن کے معنی، مطالب اور تفاہیم ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں، مگر فکری وسعت نہ ہونے کے سبب ہم نے انھیں گڈ مڈ کردیا ہے۔ مغرب میں لادینیت کے لیےAtheismکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور اصطلاح Agnosticismہے۔ہمارے یہاں ان دونوں اصطلاحات کوایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں اپنے معنی و مطالب میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔Atheism مذہب سے انکار ہے، جب کہ Agnosticism مذہب سے لاتعلقی ہے۔ایک Atheist خدا اور مذاہب کے وجود کا منکر ہوتا ہے۔ جب کہ Agnosticوہ فرد ہوتا ہے، جس کی نظر میں مذاہب کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ ان کے وجود سے نہ تو انکارکرتا ہے اور نہ ہی اقرار۔

اس کے برعکس سیکولر ازم متذکرہ بالادونوں اصطلاحات سے قطعی مختلف اصطلاح ہے۔ ایک سیکولر معاشرے میں ہر شہری کو اپنے عقیدے اور ثقافتی تشخص کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اپنی مذہبی رسومات (Retuals)اور ثقافتی سرگرمیوں کی ادائیگی کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ عبادت گاہیں تعمیرکرنے، ان کا انتظام و انصرام چلانے اور اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر بلا کسی امتیاز(مذہب، رنگ، نسل اور لسانی تشخص) ریاست کے کسی بھی عہدے اور منصب کا امیدوار ہوسکتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دنیا کے مختلف خطوں سے لوگوں نے تلاش روز گار میں یورپ کا رخ کیا۔ یورپی ممالک میں امیگریشن کے کچھ قواعد وضوابط ہیں، مگر ان کی بنیاد کسی بھی طورعقیدے یا نسلیت ولسانیت پر نہیں ہوتی۔ قانون میں درج شرائط پوری ہوجانے کے بعد نقل مکانی کرنے والے ہر شخص کو وہ تمام شہری سہولیات حاصل ہوتی ہیں، جو مقامی شہریوں کو مل رہی ہوتی ہیں۔ قابل قدر بات یہ ہے کہ جب کسی فرد کو مکمل شہری حقوق مل جاتے ہیں ، تو جمہوری اصولوں کے مطابق وہ ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کا بھی حق دار ہوجاتا ہے۔

اب ذرا ان معاشروں پر نظر ڈالیں ،جہاں سیکولر معاشرت نہیں ہے یا پھر پشتینی بادشاہتوں یا شخصی آمریتوں کے تابع ہیں۔ وہاں یورپ اور امریکا کے مقابلے میں صورت حال قطعی مختلف ہے۔ ان ممالک میں امیگریشن کے نہ تو واضح قوانین ہیں اور نہ ہی دوسرے ممالک سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو مستقل بنیادوں پر شہری حقوق دیے جانے کی کوئی روایت ہے۔

مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی ایشیائی اور افریقی ممالک میں اپنی پوری زندگی گزارنے کے باوجود کسی دوسرے ملک سے آنے والے کسی فرد کو شہری حقوق نہیں مل سکتے جب کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں جمہوریت ہونے کے باوجود امیگریشن کے باضابطہ قوانین نہیں ہیں۔ ترکی جس کا آئین سیکولر ہے، مگر وہاں بھی امیگریشن کے واضح اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے کسی غیر ملکی کو شہریت دینے کا کوئی طریقہ کار یا فارمولہ طے نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام ممالک میں کسی غیر ملکی کا اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنا تو دور کی بات اسے مساوی شہری حقوق تک حاصل نہیں ہوتے۔

اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو اس کے قیام سے تین روز قبل بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی میں آئین سازی  کے لیے جن نکات پر اصرار کیا تھا، وہ ایک جدید جمہوری معاشرے کے عکاس تھے۔ مگر ان کے خیالات حکمران اشرافیہ کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ اس لیے نہ صرف ان پر عمل کرنے سے گریز کیا گیا بلکہ ریاست کے منطقی جواز کو کنفیوزڈ  رکھنے کی بھی کوشش کی گئی۔

پاکستان کے آئین کی رو سے کوئی غیر مسلم عہدہ صدارت، وزارت عظمیٰ، گورنری اور وزارت اعلیٰ جیسے مناصب پر فائز نہیں ہوسکتا۔ معاملہ صرف غیر مسلموں تک محدود نہیں ہے، بلکہ وطن عزیز میں اشرافیائی کلچر کی جڑیں جس انداز میں مضبوط ہوئی ہیں، اس کی وجہ سے عام مسلمان شہریوں کا بھی ان مناصب تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آئین میں موجود انسانی حقوق کی شقوں پر بھی ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا۔ نتیجتاً مختلف نوعیت کے امتیازات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کی سمت کا تعین ر یاستی عوامل کے بجائے غیر ریاستی عوامل کررہے ہیں، جس کے باعث ملک میں نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہورہی ہے۔

لہٰذا عرض یہ ہے کہ صادق خان کو ضرورمبارکباد پیش کریں، مگر ایک نظر اپنی طرز حکمرانی اور معاشرتی تشکیلات پر بھی ڈال لیں۔ یہ دیکھ لیں کہ ہمارے نظام میں کیا خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں ہیں؟ انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ اگر ملک میں میرٹ، شفافیت اور جواب دہی کا نظام فعال ہوجائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ملک سے اشرافیائی کلچر کے خاتمے کی سبیل پیدا ہونے اور ایک متحمل مزاج معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل کا قوی امکان ہے جس کے نتیجے میں غیر مسلموں سمیت عام آدمی کے لیے اپنی اہلیت کی بنیاد پر ہر عہدے پر فائز ہونا ممکن ہوسکے گا۔ اب یہ بات حکمرانوں، منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جن فرسودہ تصورات اور فکری نرگسیت کے ہم گزشتہ68 برس سے اسیر چلے آرہے ہیں، اس نے سوائے ناکامیوں اور تباہی کچھ نہیں دیا۔ اس لیے اب تبدیلی ایک لازمی امر بن چکی ہے، جس سے درگذر ممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔