بھارتی دانشور: نریندر مودی سے مایوس

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 12 مئ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ٹھیک دو سال قبل انھی ایام میں جناب نریندر مودی برسرِاقتدار ہوئے تھے۔ ان کی آمد پر بڑی بڑی توقعات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد، خصوصاً بھارتی دانشور حلقے شدید مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ان دو برسوں کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف مسلسل کشیدگی اور عدم تعاون کی فضا قائم کیے رکھی ہے۔ اس کے برعکس وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے مسلسل نریندر مودی کی طرف دستِ دوستی دراز کیے رکھا۔ مودی جی کے حکم سے پاکستان کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیاں تیز تر ہو گئیں اور براستہ افغانستان بھارتی جاسوسوں نے پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ بلوچستان سے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو گرفتار ہوا اور کراچی سے ’’را‘‘ کا ایک اور جاسوس بھی حراست میں لیا گیا۔

یہاں تک کہ مئی 2016ء کے پہلے ہفتے افغانستان میں انجینئر محمد خان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ صاحب افغانستان میں بھارت کا اعانت یافتہ خفیہ داعشی ایجنٹ بھی تھا اور سب سے بڑھ کر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا مشیرِ اول بھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے اپنے داعشی ایجنٹوں کو کہاں کہاں تعینات کر رکھا ہے۔ ان اقدامات کے منکشف ہونے سے پاکستان میں تو نریندرمودی سے مایوسی بڑھی ہی ہے، بھارت میں مودی کے دو سالہ اقتدار نے کئی بھارتی دانشوروں اور پالیسی سازوں کو بھی مایوس کیا ہے۔

بھارت کے وہ ممتاز دانشور اور تجزیہ نگار جو نریندر مودی کے دو سالہ اقتدار اور ان کی وضع کردہ پالیسیوں سے مایوس ہوئے ہیں، ان میں ایک تولین سنگھ بھی ہیں۔ آٹھ مئی 2016ء کو بھارت کے ایک ممتاز ترین انگریزی اخبار میں اپنے ہفتہ وار کالم میں تولین سنگھ نے نریندر مودی کے دوسالہ اقتدار کا تجزیہ کرتے ہوئے یوں لکھا: ’’وزیراعظم مودی جی کے چاہنے والے ان کے دو سالہ اقتدار کو کامیاب ترین ثابت کرنے کے لیے جعلی اعداد و شمار کا سہارا لے رہے ہیں۔ میرا شمار ان صحافیوں میں کیا جاتا رہا ہے جنہوں نے نریندر مودی کو ہمیشہ سپورٹ کیا اور جو ان سے بلند و مثبت توقعات وابستہ کیے رہے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مودی جی نے اپنے فیصلوں، پالیسیوں اور غیر ملکی دوروں سے مجھے مایوس کیا ہے۔‘‘

ارون شوری بھی بھارت کے ان ممتاز ترین دانشوروں اور صاحبانِ نظر میں سے ایک ہیں جو نریندر مودی کے دو سالہ اقتدار سے مایوس ہوئے ہیں۔ جناب ارون شوری کئی اعلیٰ درجے کی کتابوں کے مصنف، ایک مشہور انڈین اخبار کے سابق چیف ایڈیٹر، بھارت کی ایک سابقہ حکومت کے مرکزی وزیر اور سب سے بڑھ کر بی جے پی کے اہم رہنما ہیں۔ چھ مئی 2016ء کو ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کے مشہور اینکر، کَرن تھاپر، نے ان کا مفصل انٹرویو کیا جو چالیس منٹ کا تھا۔ ارون شوری نے وزیراعظم مودی کی حکومت، شخصیت اور فیصلوں کا کئی نکات میں تجزیہ کرتے ہوئے یوں کہا: ’’(1) نریندر مودی اپنے آمرانہ اور خود سر مزاج کی وجہ سے عملی طور پر بھارت کے پارلیمانی نظام کو بدل کر صدارتی نظام کی شکل دے چکے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ مَیں کسی کو جوابدہ نہیں (2) مودی نے دو سال کا عرصہ ضایع کر دیا ہے حالانکہ یہ بہت سنہری موقع تھا۔ انھوں نے ان برسوں کے دوران بھارت میں لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کر کے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ مسلمانوں سے بھی لڑائی اور عیسائیوں کو بھی ناراض کیا۔ سیکڑوں بھارتی دانشور ان سے علیحدہ ناراض ہیں (3)  یہ مودی کا آمرانہ اور غیر صلح جو یانہ مزاج ہے کہ آج بھارت کے کئی صوبوں میں صدارتی راج نافذ ہے (4) پاکستان کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس وجہ سے ہم اپنی اور پاکستانیوں کی نظروں میں احمق بن کر رہ گئے ہیں (5) مودی کا دعویٰ ہے کہ ان کی افغان پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کو پاکستان پر بالادستی حاصل ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔

آج افغانستان میں اہم فیصلے کرنے والے فریقین میں ایک طرف افغانستان ہے، دوسری طرف پاکستان ہے، تیسری طرف افغان طالبان ہیں، چوتھی طرف چین ہے اور پانچویں جانب امریکا ہے۔ انڈیا تو کہیں بھی نہیں۔ پھر مودی کی افغان پالیسی کو ہم کیسے کامیاب کہہ سکتے ہیں؟ (6) بھارت کی ہر ریاست بدعنوانی کی لعنت میں گرفتار ہے اور مودی جی بے بس ہیں۔ گویا ایک طرح سے کرپشن میں برابر کے ذمے دار (7) وزیراعظم نے چین کو رام کرنے کے لیے چینی قیادت کے بہت نخرے اٹھائے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر جھولا بھی لیا ہے لیکن نریندر مودی کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس طرح کی حماقتیں کر کے چینی اژدھے کو رام نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ سچی بات یہ ہے کہ ارون شوری کے اس انٹرویو نے نریندر مودی کے بلند بانگ دعووں کے غباروں سے ہوا نکال دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔