استقبالِ شعبانُ المعظّم

حاجی محمد حنیف طیّب  جمعـء 13 مئ 2016
اس شب میں آتش بازی،پٹاخے وغیرہ جیسےلہو ولعب میں مشغول ہونااوربچوں کواس قسم کی خطرناک اشیاء خرید کردینا شرعاً ناروا ہے:فوٹو : فائل

اس شب میں آتش بازی،پٹاخے وغیرہ جیسےلہو ولعب میں مشغول ہونااوربچوں کواس قسم کی خطرناک اشیاء خرید کردینا شرعاً ناروا ہے:فوٹو : فائل

برکت والے مہینوں میں یہ بھی ایک مبارک مہینہ ہے، جسے شعبان المعظم کہا جاتا ہے۔ اس کو ’’شَہرِ حبیب الرحمٰنؐ‘‘ بھی کہتے ہیں اور یہ دو مبارک مہینوں رجب و رمضان کے درمیان ہے، اس لیے اس کو دو مقدس ہمسایوں کے قرب کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس ماہ کی بزرگی و برتری  کے متعلق یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’شعبان کو باقی تمام مہینوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھ کو تمام انبیائے کرام پر۔‘‘

شعبان المعظم کا مہینہ بہت بابرکت ہے۔ اس کی فضیلت احادیث میں کثرت سے آئی ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا ’’ شعبان کو اس لیے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لیے خیرِ کثیر تقسیم ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔‘‘ (ماثبت من السنہ)

جامع کبیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آئندہ جن لوگوں کی روحیں قبض کرنا ہیں، ان کی فہرست اسی ماہ میں ملک الموت کے سپرد کی جاتی ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’ شعبان میرا مہینہ ہے۔‘‘ اس سے اندازہ کریں کہ جس چیز اور مہینے کی نسبت حضور ﷺ اپنی طرف فرمائیں تو اس کی کتنی فضیلت ہوگی۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو آپؐ یوں دعا فرمایا کرتے تھے ’’ یااﷲ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت فرمائیے اور خیریت کے ساتھ ہم کو رمضان تک پہنچائیے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جناب رسول اکرم ﷺ (شعبان میں) اتنے زیادہ روزے رکھتے کہ ہم (صحابہؓ) کہنے لگتے اب آپ افطار نہ کریں گے اور کبھی افطار کیے جاتے (یعنی روزہ نہ رکھتے ) یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے آپؐ کو کسی مہینے میں شعبان کے مہینے سے زیادہ (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے ایک منادی اعلان کرتا ہے، کوئی بخشش کا طلب گار ہے کہ اس کو بخش دوں، ہے کوئی سائل کہ سوال کرے کہ میں اس کو عطا کروں۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مجھے جبرائیل علیہ السلام نے آکر یہ بشارت سنائی کہ یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اس رات میں اﷲتعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔

ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا، کیا تمہیں معلوم ہے شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں، جتنے مرنے والے وہ سب بھی اس رات لکھ لیے جاتے ہیں اور اسی سال میں سب بندوں کے اعمال (سارے سال کے) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی (مقررہ) روزی اُترتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات آپ ﷺ کو بستر پر نہ پایا (پس میں آپ ﷺ کی تلاش کے لیے نکلی) تو آپؐ کو بقیع میں پایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ کیا تجھے اس بات کا ڈر تھا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ تیرے اوپر زیادتی کرے گا، میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں نے خیال کیا شاید آپ ﷺ ازدواج مطہرات میں سے کسی کے ہاں تشریف لے گئے ہوں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا بے شک اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے شمار سے زیادہ (دوزخی) لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

شب برأت کو شب رحمت و نصرت و مغفرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس کے متعلق قرآن حکیم یہ اعلان فرماتا ہے کہ (ترجمہ) ’’اس روشن کتاب کی قسم، ہم نے اس کو برکت والی رات میں اتارا۔ ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔‘‘ (القرآن، سورہ الدخان)

اس نورانی شب میں اُمتِ عاصی کی مغفرت ہوتی ہے اور سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ عاصیوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اُن کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ اُنہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ رب العزّت اس شب میں اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے اور اُن کے درجات بلند کرتا ہے اور سب کو اپنے آغوشِ رحمت میں لیتا ہے۔

اِس شب کی خصوصیت میں یہ بھی ہے کہ اس شب مبارکہ میں خاصانِ خدا کو علوم الٰہیہ عطا کیے جاتے ہیں۔ زم زم کا پانی بڑھ جاتا ہے۔ ہر امر و نہی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بندوں کی عمر، رزق اور قسمت کے فیصلے، نیز سال بھر کے تمام کام جو آئندہ انجام دیے جائیں گے، فرشتوں کے سپرد کردیے جاتے ہیں۔ عام و حوادث، مصائب و آلام، خیر و شر، رنج و محن، فتح و ہزیمت، وصل و فصل، اتحاد و اتفاق، ذلت و رفعت، قبض و بسط، قحط و فراخ کے فیصلے ہر محکمے سے تعلق رکھنے والے ملائک کو تفویض ہوتے ہیں۔ شعبان کے مہینے میں روزے رکھنے کا ثواب بھی بے حد و بے شمار ہے۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام اس ما ہ میں بہ کثرت روزے رکھتے تھے، چناں چہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندر ہو یں شب آئے ’’تو رات کو قیام کرو اور پندرہویں کا روزہ رکھو‘‘ (حدیث)

اس شب میں قبر ستان جاکر اپنے اعزاء و اقرباء اور عام مسلمین کے لیے دعائے مغفرت کرنا سنت ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ شب برأت کو قبرستان تشریف لے جاتے تھے اور مسلمان مردوں، عورتوں اور شہیدوں کے لیے دعائے مغفرت فرماتے تھے۔

اس شب میں امت کے لیے ایصال ثواب و دعا ئے استغفار مسنون ہے۔

اس شب میں آتش بازی، پٹاخے وغیرہ جیسے لہو و لعب میں مشغول ہونا اور بچوں کو اس قسم کی خطرناک اشیاء خرید کر دینا شرعاً اور اخلاقاً قطعاً ناروا ہے۔ آتش بازی میں روپیہ ضایع ہو تا ہے اور وقت بھی برباد ہوتا ہے۔ اس عظیم رات کو آتش بازی جیسے فضول و لغو کام میں گزار دینا بدنصیبی ہے۔ اس آتش بازی سے لوگ زخمی ہوتے ہیں اور جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔

ایسے لغو کام کرنے والے خود بھی پریشان ہوتے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں، نہ خود عبادت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔ یہ کارِ شیطان ہے جس سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ کیوں کہ اﷲتعالیٰ اس شب میں انعام و اکرام کی بارش فرماتا ہے، مغفرت و رحمت کے ابواب کھولتا ہے۔ جود و عطا کے خوان اتارتا ہے اور ہم اس مبارک اور مقدس شب میں لہو و لعب میں مشغول ہوکر اس کی روحانی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مکرم کا استقبال اطاعت و عبادت اور استغفار و اذکار میں مشغول ہوکر کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔