- روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ترسیلات زر5.686 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں
- غیرملکی کرنسیوں کی انسداد اسمگلنگ، سی اے اے کے شعبہ کارگو میں بوتھ قائم کرنے کا فیصلہ
- چوہدری پرویزالہیٰ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ
- وزیراعظم نے وکی پیڈیا فوری طور پر بحال کرنے کی ہدایت کردی
- کراچی: 20 روز میں جنسی زیادتی کے 5 کیسز رپورٹ؛ 3 بچیاں دوران علاج جاں بحق
- اسٹیل ملزمیں چوری؛ گرفتار کباڑیے کا ملوث پولیس افسران کے ناموں کا انکشاف
- نمک کی آڑ میں منشیات اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی
- پی ایس ایل کی تیاریاں؛ پشاور زلمی بدھ سے نیشنل اسٹیڈیم میں پریکٹس شروع کرے گی
- ترکیہ زلزلہ؛ ماہر موسمیات نے سوشل میڈیا پر 36 گھنٹے قبل ہی خبردار کردیا تھا
- پی ٹی آئی کے مزید 9 سابق ممبران نے پارلیمنٹ لاجز کی رہائش گاہیں خالی کردیں
- اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں مزید 7 فلطسینی شہید
- ڈالر بیک فٹ پر آگیا، انٹربینک ریٹ 276 روپے سے نیچے آگئے
- کراچی میں گرمی کی شدت برقرار رہنے کا امکان
- کراچی: 5 اوباش نوجوانوں کی نوعمر لڑکی سے اجتماعی زیادتی
- اردو لغت بورڈ میں ماہرین کی قلت بحران کی شکل اختیار کرگئی
- لاہور ہائیکورٹ نے فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا
- انتخابات 90 دن سے آگے گئے تو جیل بھرو تحریک شروع کردیں گے، عمران خان
- وزیراعظم کا توانائی کی بچت کیلئے نیکا کو ازسرنو بحال کرنیکا حکم
- كويت؛ 17 سالہ لڑکے نے فلپائنی گھریلو ملازمہ کو زیادتی کے بعد زندہ جلادیا
- پولیس سرپرستی میں اسٹیل ملز کا قیمتی سامان کباڑی کو فروخت کرنے کا انکشاف
پانامہ لیکس؛ سپریم کورٹ نے گیند دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں ڈال دی

سپریم کورٹ کا خط تحقیقات سے دامن بچانے کا عمدہ طریقہ ہے،سیاسی موسم گرم نظرآرہاہے۔ فوٹو: فائل
کراچی: پانامہ لیکس سمیت دیگر معاشی بدعنوانیوں کی تحقیقات سے متعلق وزیراعظم کے خط کے جواب کومختلف سیاسی حلقے اپنے اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں، تاہم سپریم کورٹ کے جواب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے خوش ہونے کے لیے کچھ نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ نے اس کے ذریعے گیند دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔
سپریم کورٹ کا خط تحقیقات سے دامن بچانے کا عمدہ طریقہ ہے، فریقین اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک صفحے پر 20 سے بھی کم سطروں پرمشتمل مختصرخط میں ایک جانب 1956کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کی تجویز کو نہ صرف بے معنی قراردیا ہے بلکہ اسے بدنامی کا بھی سبب گردانا ہے، سپریم کورٹ نے جہاں لمبے چوڑے ضابطہ کار کی تکمیل کے لیے برسوں کی مدت کا حوالہ دیا ہے اس سے اپوزیشن انتہائی خوش نظر آتی ہے اور اسے اپنے کامیابی قرار دیتے ہوئے حکومت پردباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی اوآر ز طے کرے، تاہم دوسری جانب سے آخری لائنوں میں سپریم کورٹ نے مناسب قانون سازی کی بھی نشاندہی کی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں کیا کوئی متفقہ قانون سازی ممکن ہے ،کیا حکومت اپنے خلاف ہی قانون سازی پرتیارہوجائیگی ، کیا اپوزیشن مل کر قانون سازی کی مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکتی ہے، اگرغورکیا جائے تونظرآتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے سے اپنا دامن انتہائی خوبصورتی سے بچایا ہے کیونکہ آج ہی چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہر معاملہ گھوم پھرکرعدالت میں آجاتا ہے اور ملک میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی ، 13مئی کی صبح کے ان ریمارکس کی روشنی میں سپریم کورٹ کی جانب سے دوپہر کو بھیجے گئے خط کا جائزہ لیاجائے تواس کا پیغام واضح نظرآتاہے اوریہ خط ڈرافٹنگ کا شاہکار نظرآتا ہے، جس کے دونوں پیراگرافس ہرفریق اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے خط میں انکوائری کیلیے مخصوص افراد کے ناموں ، گروپس، کمپنیز اور خاندانوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے ، یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کہ کسی فرد،گروپ ، خاندان اور کمپنی کا نام کس بنیاد پرترجیح دی جائے،اگر پہلے مرحلے پر پارلیمنٹرینز کے متعلق انکوائریز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وزیراعظم نواز شریف کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ، ان کے اہل خانہ کا نام ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ، اس لیے کسی خاص فرد، گروپ اور خاندان کے انتخاب کے اصول وضع کرنا ہوگا، تاہم اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا خط حکومت کے حق میں نہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن اس خط سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی اور ملک کا سیاسی موسم گرم تر ہوتا نظرآتاہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔