معاشرے کی سچی عکاسی فنکار ہی کر سکتے ہیں

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
مختلف فنون سوسائٹی کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں، کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل ڈاکٹر راحت نوید مسعود سے بات چیت۔ فوٹو ایکسپریس

مختلف فنون سوسائٹی کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں، کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل ڈاکٹر راحت نوید مسعود سے بات چیت۔ فوٹو ایکسپریس

مصوری کا فن صدیوں پرانا ہے جس کے ذریعے معاشرے کے مختلف پہلوئوں کواجاگر کیاجاتا تھا ۔ مصور جو محسوس کرتا ہے وہ اس کواپنے فن پاروں کے ذریعے سامنے لاتا ہے او ر لوگ اس کے ذریعے بہت کچھ سیکھ پاتے ہیں۔

اس فن کے فروغ کیلئے لاہور میں کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی کا کردار بہت اہم ہے۔ جہاں پر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ دیارغیر میںبھی پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔

یہاں پر آرٹ اور ڈیزائن کے مختلف شعبوں میں تربیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے فیشن، آرکیٹکچر، میوزک سمیت دیگرشعبوں میں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن کی پرنسپل پروفیسرڈاکٹرراحت نوید مسعود نے ایک خصوصی انٹرویودیتے ہوئے جہاں فن مصوری پر روشنی ڈالی وہیں ایک آرٹسٹ کے مقام کو بھی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، جو قارئین کی نذر ہے۔
پروفیسرڈاکٹرراحت نوید مسعود کا کہنا تھا کہ فن مصوری سے لگائو بچپن سے ہی تھا۔

گھرکا ماحول علم و ادب سے مالامال تھا اور اس کے علاوہ سیاست بھی ہوا کرتی تھی توہمیں بچپن سے ہی سیاست اورتاریخی ورثہ کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ یہ سب تو والد کی وجہ سے ملا لیکن مجھے بچپن سے ہی ڈرائنگ کرنے کا بہت شوق تھا۔ تصویر میں رنگ بھرنا میری اولین ترجیح رہا کرتا تھا اور میں اکیلی ہی نہیں میری بہنیں بھی اچھی ڈرائنگ کیا کرتی تھی۔ میں جب بھی کوئی ڈرائنگ تیارکرتی تواس پرخوب حوصلہ افزائی کی جاتی جو مجھے فن مصوری کے اورنزدیک لاتاگیا۔

ہم سب بہنوں میں ڈرائنگ کا ٹیلنٹ بہت زیادہ تھا اوراسکول کے زمانہ میں خصوصی چارٹ بنانا ہوتا توہمیں ہی منتخب کیاجاتا تھا۔ میں اکثر کتابوں پر ڈرائنگ کرتی رہتی تھی۔ اسکول اورکالج میں یہ سلسلہ جاری رہا ۔ جب میں نے ایم اے کرنے کا سوچا توایک طرف انگریزی زبان میں ماسٹر کی چوائس تھی تو دوسری جانب فائن آرٹس تھا جس پر میں نے فائن آرٹس کا شعبہ منتخب کیا اورخوب محنت اور لگن سے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ یونیورسٹی کے دورمیں جب میرا یہاں داخلہ ہوا تومیں نے یہاں آنے کے بعد سب سے پہلی پینٹنگ آرٹ کالج کی چھت پر بیٹھ کر لاہورکے تاریخی عجائب گھر کی بنائی تھی جس کو میرے تایا جی نے بہت سراہا اورمیری خوب حوصلہ افزائی کی ۔

اس کے بعد تومختلف موضوعات پرپینٹنگز بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے شادی کے بعد اپنے گھر کی کھڑکی سے پہلی پینٹنگ بنائی جو لینڈ سکیپ تھی۔ مجھے پورٹریٹ بنانے کا بہت شوق تھا اورمیں اکثراپنے گھر میں بچوںکو بٹھا کر پورٹریٹ بناتی تھی اور جب کوئی نہیں ملتا تھا تو آئینہ کے سامنے بیٹھ کر جو بھی محسوس کرتی اس کو کینو س پر اتار دیتی۔ میں نے بانی پاکستانی قائداعظم محمد علی جناح کا سکیچ بنایا تھا ۔

اس کے علاوہ معروف ڈھول نواز پپو سائیں کا پورٹریٹ بھی بنایا جس کو بہت سراہا گیا ۔انھوں نے کہا کہ ایک آرٹسٹ جو محسوس کرتا ہے وہ ہی کینوس پر اتارتا ہے۔ ایک آرٹسٹ بہت حساس ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کے حقائق کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے اور پھر رنگوں کے خوبصورت امتزاج سے ایک پینٹنگ پراپنی سوچ کو منتقل کردیتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے کہا کہ ٹریڈیشنل آرٹس کی اہمیت میں کبھی کمی نہیںآسکتی ۔ پہلے ایک مصور تصویر بناتا تھا کینوس پر، واٹرکلر سے یا پنسل سے جبکہ آج کے دورمیںجدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سی حیرت انگیز تبدیلیاں آرٹ کے شعبے میں آچکی ہیں ۔ لیکن اس میں بھی کانسیپٹ کی اہمیت برقرار ہے۔ جب ہم آرٹ گیلریوں کا دورہ کرتے ہیں تو وہاں پر اس طرح کے آئیڈیا سامنے آتے ہیںجن کو دیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے مگر اس کے باوجود بھی میں سمجھتی ہوں کے آرٹ کا دائرہ بہت وسیع ہے اورٹریڈیشنل آرٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

کیونکہ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو انسان میںموجود ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں مختلف آرٹ فارمز میں کام کیا جارہا ہے لیکن ایک آرٹسٹ جومحسوس کرتا ہے وہ اس کواپنے فن کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ایک فن پارے میں آرٹسٹ کی سوچ دکھائی دیتی ہے اوروہ اپنے اس منفرد کام کے ذریعے ایک تصویرمیں بہت سی باتیں کہہ ڈالتاہے جبکہ اس تصویر کو دیکھنے کر بعد لوگ بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ ایک تصویر کے بہت سارے زاویئے نکلتے ہیں ۔

ڈاکٹرراحت نویدمسعودنے کہاکہ میرے نزدیک آرٹ زندگی ہے، معاشرے کے مختلف پہلوئوں کو اجاگرکرنے میں جو کردار ایک آرٹسٹ کا ہے وہ کوئی دوسرا نہیںکرسکتا۔ ایک آرٹسٹ وہ سب کچھ بہت جلد محسوس کرلیتا ہے جس کو لوگ بہت دیرکے بعد محسوس کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں فن کے حوالے سے تکرار رہی ہے کہ یہ حرام ہے یا حلال ؟ آج کل کے حالات میں آرٹ کے ذریعے بہت کام کیا جاسکتا ہے۔ میںنے اپنی زندگی میں 65ء اور 71ء کی جنگیں دیکھ رکھی ہیں جس کے اثرات آج بھی میرے ذہن پرنقش ہیں۔

اس وقت ہونے والی قتل وغارت اور بہت سے تکلیف دہ مناظر کو بطور آرٹسٹ میں نے جس طرح محسوس کیا ان کو اپنے پورٹریٹ اورمختلف پینٹنگز میں پیش کیا۔ آج بھی جس طرح کے حالات سے ہم گزر رہے ہیں اس کودیکھ کریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم آج بھی جنگ کے حالا ت ہیں۔ بہت سے آرٹسٹ ان حالات کواپنی تخلیقی صلاحیتوںکے ذریعے فن پاروں میں پیش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو ڈپریشن سے نکالنے میں آرٹ کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کودیکھ کر لوگ ڈپریشن سے باہرنکل سکتے ہیں۔ آرٹ سے تسکین ملتی ہے اورلوگ اس کو دیکھ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونے لگتے ہیں۔ مہذب قومیں اپنے فن کو بہت پروموٹ کرتی ہیں کیونکہ آرٹ ہی ہے جو کسی بھی ملک و قوم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کو دیکھ کرلوگوں کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ یہ قوم کس طرح کی ہے ۔

اس کی بہترین مثال اس طرح سے بھی دی جاسکتی ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی اہم شخصیت پاکستان آتی ہے توانہیں تاریخی مقامات شاہی قلعہ، شالامارباغ اوردیگرکی سیر کروائی جاتی ہے جس کو دیکھ کر ہمارے محترم مہمان محظوظ ہوتے ہیں اوروہ ان عمارتوںکے ذریعے ہمارے فنی اورثقافتی ورثہ کے بارے میں بھی جان پاتے ہیں۔

ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے کہا کہ آرٹ کبھی جھوٹ نہیںبولتا اور ایک آرٹسٹ بھی سچا ہوتا ہے۔ آرٹ سوسائٹی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہی آرٹسٹ کے اندر سے کینوس پر آئے گا جو اس نے محسوس کیا ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ پینٹنگ، ڈیزائن، ٹیکسٹائل، میوزک ، رقص، آرکیٹکچر، ادب سمیت تمام چیزیں آکسیجن کاکام کرتی ہیں جس سوسائٹی میںان چیزوںکو پنپنے نہ دیا جائے، وہ سوسائٹی ترقی نہیں کرسکتی۔ آرٹ کی تعلیم انسان کو تخلیقی حس کو اجاگرکرتی ہے۔

ایک آرٹسٹ ہر طرح کے حالات میں اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ جب ملک میںخوشحالی ہوتو ایک آرٹسٹ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے اور جب حالات انتہائی برے ہوں توپھر جو کچھ وہ محسوس کرتا ہے اس کو اپنی پینٹنگز میں منتقل کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے حالات سب کے سامنے ہے تمام شعبے پستی کی طرف جارہے ہیں لیکن آرٹ کے شعبے کاگراف بہت بلند ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں آرٹ کے فروغ کیلئے بنائے گئے ادارے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جس کے ذریعے پاکستان کا ایک سافٹ امیج پوری دنیا میں متعارف کروایا جا رہا ہے۔ حکومتوں کو تو کبھی ہوش ہی نہیں رہا کہ وہ آرٹ کے حوالے سے بھی کچھ کام کرسکیں ۔ جوقوم رات کو بجلی کی وجہ سے سونہیں سکتی تووہ دن میںکیا کام کرے گی۔ اس وجہ سے آرٹسٹ بھی پریشان ہیں اوروہ اپنے غم وغصے کا اظہاراپنی پینٹنگزکے ذریعے کرتے رہتے ہیں جس پر انہیں بعض اوقات خاصے مسائل کاسامنا بھی رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔