خوبصورت لڑکی، ٹومی اور اُس کے بسکٹ

ندیم جاوید عثمانی  اتوار 15 مئ 2016
چلو آپ یوں اداس نہ ہوں اگر ٹومی کا نام ٹمی نہیں ہوسکتا تو کیا ہوا یہ جمی اپنا نام جومی کرلیتا ہے، جس کے بعد پھر ایک قہقہ لگ گیا۔ فوٹو: رائٹرز

چلو آپ یوں اداس نہ ہوں اگر ٹومی کا نام ٹمی نہیں ہوسکتا تو کیا ہوا یہ جمی اپنا نام جومی کرلیتا ہے، جس کے بعد پھر ایک قہقہ لگ گیا۔ فوٹو: رائٹرز

حواسوں پر گرنے والی بجلی برسات کی محتاج نہیں ہوتی اور اس بات کا یقین اُس لڑکی کو دیکھ کر ہورہا تھا جو سامنے سے کسی شاعر کی بے وزن غزل کی مانند بجلیاں گراتی چلی آرہی تھی۔ بے وزن غزل اس لیے کہا کہ حسن جب مکمل ہو تو باقی آپ کس شے کو وزن میں رکھ سکتے ہیں؟ یوں تو صرف مسکراہٹ اور آنسو ہی کسی بھی عورت کے دو بڑے ہتھیار ہیں جن سے وہ بیک وقت گھائل اور قائل کرنے کا کام لے سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی عورت کا حسن کسی مرد کو مرعوب نہیں کرپا رہا تو اس بات کا فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ آیا اُس مرد کو پہلے کسی حکیم کی ضرورت ہے یا نظر کے معائنے کی؟ کیونکہ بعض مرد حضرات خود میں ہمت نہ ہونے کو بھی اپنی شرافت سے منسوب کردیتے ہیں جبکہ فطرتِ مرد بتاتی ہے کہ کوئی بھی مرد صرد اُس وقت تک شریف ہوتا ہے جب تک کہ اُسے کوئی موقع نہ مل جائے!

اس فیملی پارک میں وہ ایک ہفتے سے دکھائی دینے لگی تھی اور تقریباً اتنے ہی دنوں سے پارک میں بیٹھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ وہ شام 6 سے 7 بجے کے درمیان پارک کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتی تو اس کے ساتھ محافظ کی صورت ایک موٹا تازہ کتا ہوتا جس کی زنجیر اُس نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھی ہوتی تھی اور پارک میں بیٹھے مرد اُس کتے کو یوں حسرت زدہ نظروں سے دیکھتے جیسے اُنہیں اپنے انسان ہونے پر افسوس ہورہا ہو اور جب وہ پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھتی تو قریب سے گزرتے وقت اُس کی مستانی چال مردوں کے دلوں پر قیامت ڈھا دیتی۔ یہ عورت کے چل کی وہ ادا تھی جس کے بعد کسی بھی مرد کو اُس کے چلن جاننے کی فکر سوار ہوجاتی ہے۔

وہ کافی دیر سے اِردگرد کے لوگوں کا جائزہ لے رہی تھی پھر بلاخر اس نے ایک خوشحال سے نوجوان کو ہاتھ سے قریب آنے کا اشارہ کیا اور وہ نوجوان جو کافی دیر سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُسی کو دیکھنے میں مصروف تھا اشارہ ملتے ہی اُس بینچ کی جانب ایسی تیز رفتاری سے بڑھا کہ اگر قدموں کی تیز رفتاری پر کوئی چالان ہوتا تو اُس نوجوان کی اس تیز رفتاری پر چالان لازمی ہوجانا تھا۔

نوجوان کے قریب آنے پر وہ بڑی ادا سے بولی

سنیں میں اس علاقے میں نئی ہوں قریب میں کوئی ڈوگ فوڈز کی شاپ ہے کیا؟ پھر اپنے کتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی ٹومی کو بہت بھوک لگی ہے۔

نوجوان نے یہ سنتے ہی اثبات میں یوں تیزی سے گردن ہلائی جیسے ہوا میں ایک کا ہندسہ بنا رہا ہو۔ لڑکی نے جتنی تیزی سے اپنا ہینڈ بیگ کھولا اب اتنی ہی دیر اُسے بیگ میں سے پیسے ڈھونڈنے میں ہورہی تھی۔ لڑکے نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا،

جی یوں بیگ میں کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟

لڑکی جھینپے جھینپے سے انداز میں بولی

وہ میں آپ کو ٹومی کے فوڈ کے لئے پیسے دیکھ رہی تھی لیکن شاید پیسے دوسرے بیگ میں ہی رہ گئے ہیں، چلیں بہت شکریہ رہنے دیں۔

نوجوان مسکراتا ہوا بولا

آپ بھی کمال کرتی ہیں میں سمجھا ٹومی کا فوڈ لکھ کر دینے کی غرض سے آپ شاید قلم ڈھونڈ رہی ہیں۔

آپ بس نام بتائیں۔ اِس جواب پر لڑکی بھی جوابی طور پر اپنی اُسی قاتلانہ مسکراہٹ سے بولی

آپ بھی نا، میں قلم نہیں ڈھونڈ رہی ٹومی کے فوڈ کا نام تو مجھے زبانی یاد ہے۔

پھر اُس نے نوجوان کو نام بتایا جسے سنتے ہی وہ بولا بس پانچ منٹ رکیں میں ابھی لے کر آیا۔ اب لڑکی کی نظریں اُس نوجوان پر جمی ہوئی تھی جو پارک کے باہر کھڑی اپنی 125 اسٹارٹ کررہا تھا۔ لڑکی کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اُس کے ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ کھل رہی تھی۔

نوجوان نے تو کہا تھا کہ پانچ منٹ میں وہ آرہا ہے لیکن اُسے واپسی پر 15 منٹ لگ گئے۔ اُس نے ہاتھوں میں ایک شاپر پکڑ رکھا تھا۔ جب لڑکی نے شاپر کو چیک کیا تو اس میں ایک کے بجائے ٹومی کے کھانے کے چار پیکٹ تھے جبکہ دوسرا شاپر نوجوان نے اس کے ہاتھ میں پکڑایا جو مختلف قسم کی چاکلیٹس سے بھرا ہوا تھا۔ بس وہ شاپر دیکھتے ہی لڑکی کے چہرے پر شرمندگی کے رنگ اُتر آئے۔

ارے آپ نے تو شرمندہ کردیا اتنا سب کچھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ پلیز مجھے بل دے دیں میں کل ہی آپ کے پیسے واپس کردوں گی۔

نوجوان نے پیسوں کی واپسی پر ایک عاشقانہ مسکراہٹ سے وہی جواب دیا جو پاکستان کے کشمیر کے مطالبے پر بھارت دیتا آرہا ہے۔ موبائل نمبرز کے تبادلے پر لڑکی نے نوجوان کا موبائل نمبر اپنے موبائل میں محفوظ کرتے ہوئے اُس کا نام پوچھا تو نوجوان بولا

نام تو میرا نعمان ہے مگر پیار سے نومی بولتے ہیں

لڑکی نے شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ارے واہ نومی۔ یہ تو میرے ٹومی کا ہم آواز نام لگتا ہے۔ جس پر نوجوان نے مسکراتے ہوئے بولا

بس تو آپ بھی مجھے اپنا ٹومی ہی سمجھ لیں، جس پر دونوں کا قہقہ گونجا

دو دن بعد لڑکی اور کتا تو وہی تھا لیکن پارک اور بینچ مختلف تھی، لیکن آج ایک بار پھر لڑکی شاید اپنے پیسے گھر بھول آئی تھی اور اس بات کا اندازہ اُسے تب ہوا جب اُس نے سامنے کھڑے مرد کو پاس بلا کر ٹومی کے کھانے کے لیے درخواست کی اور پیسے دینے کو اپنا بیگ ٹٹولا۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب وہ مرد واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں صرف ٹومی کے کھانے کے پیکٹس ہی نہیں تھے بلکہ اس لڑکی کے لئے بھی چیزوں کا ایک شاپر دبا رکھا تھا!

ایک بار پھر موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا لیکن مرد کا نام جمال عرف جمی تھا ۔۔۔ تو لڑکی نے دکھی لہجے میں اپنے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

کاش میرے ٹومی کا نام ٹمی ہوتا تو یہ آپ کے نام کا ہم آواز نام لگتا

اِس جملے پر مرد ہنستے ہوئے بولا

چلو آپ یوں اداس نہ ہوں اگر ٹومی کا نام ٹمی نہیں ہوسکتا تو کیا ہوا یہ جمی اپنا نام جومی کرلیتا ہے، جس کے بعد پھر ایک قہقہ لگ گیا۔

آج پارک بھی پہلا والا تھا اور بینچ بھی وہی۔ لڑکی اپنے کتے کے ساتھ بیٹھی تھی کہ ہاتھ میں دو شاپرز دبائے سامنے سے نومی آتا دکھائی دیا۔ آج وہ ٹومی کی محبت میں خود ہی اُس کے کھانے کے پیکٹس اور لڑکی کے لئے چاکلیٹس لے آیا تھا!

اب تین چار دن گزر گئے تھے مگر وہ پارک نہیں آرہی تھی۔ اِدھر پہلے پارک میں نومی بے چین تھا تو اُدھر دوسرے پارک میں جمی بے قرار! مگر وہ تھی کہ اُس کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔

مگر قسمت مہربان ہو تو دل کی مراد بر آنے میں دیر نہیں لگتی اور اس کا یقین نومی کو تب ہوا جب وہ کلفٹن کے علاقے سے گزر رہا تھا اور اُس کو وہ لڑکی ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں جاتی ہوئی دکھائی دے گئی۔ نومی نے لمحے بھر میں اندازہ لگا لیا کہ یہ یقیناً ٹومی کے کھانے کے پیکٹس لینے آئی ہوگی، مگر کیوں؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو میں نے چار پیکٹ مزید دئیے تھے۔ کتا ہے یا کوئی بَلا جو اتنا کھاتا ہے۔ پھر اُس نے یو ٹرن لیا اور اپنی 125 اُسی اسٹور کے باہر لاکھڑی کردی جس میں وہ داخل ہوئی تھی۔ اندر جاتے ہوئے نومی نے اپنی جینز کی جیب کو تھپتھپایا اور بٹوے کی موجودگی پر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اسٹور میں داخل ہوا۔

چند لمحے نظریں اِدھر اُدھر دوڑانے کے بعد ہی نومی کو وہ ایک ڈوگ فوڈ کاونٹر پر کھڑی ہوئی نظر آگئی تو وہ مسکراتے ہوئے اُس کاونٹر کی جانب بڑھا۔

ابھی وہ چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا تو لڑکی کی بحث کرتی ہوئی آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی۔ وہ کسی بات پر کاونٹر پر کھڑے آدمی سے کسی بات پر اُلجھ رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر وہ دو قدم پہلے ہی رک گیا۔ تبھی دوبارہ لڑکی کی آواز آئی

وسیم بھائی بھلا 27 ہزار کیسے ہوئے؟ میں نے ٹومی کے کھانے کے ٹوٹل 40 پیکٹس آپ کو دئیے ہیں ذرا دوبارہ حساب لگائیں۔ پچھلے ہفتے جو آپ کو چالیس ڈبے دئیے تھے اُس میں بھی آپ نے ایک ہزار کم دیے تھے

تو کاونٹر پر کھڑے وسیم بھائی کی آواز آئی

ارے بابا یہ بکے ہوئے ڈوگ فوڈ کے ڈبے واپس آنے پر اپنا کچھ حصہ تو میں بھی رکھونگا نا؟ اس سے پہلے تم یہ ڈوگ فوڈ کے ڈبے فضل بھائی کی دکان پر دیتی تھی تو وہ بھی تو اپنا کمیشن رکھتے ہی تھے نا؟

لڑکی نے بیزاری سے کہا

اچھا دفعہ کریں اس فضول بحث کو۔ لائیں میرے 27 ہزار ہی دیں، پارک جانے کا وقت بھی ہورہا ہے اور پلیز اگلے ہفتے آؤں تو اپنا کمیشن تھوڑا کم کرلیں!

اور چند قدم فاصلے پر کھڑا نومی جو ٹومی کے ہم آواز نام کے باعث اب تک خوش ہوتا تھا اُسے یقین ہونے لگا کہ جیسے وہ آج واقعی ٹومی بن گیا ہو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔